خدا نے جب اس دنیا میں مخلوقات کو پیدا کیا تو انہیں نر اور مادہ کی دو جنسوں میں تخلیق کیا۔ دو جنسوں کی حکمت کیا تھی۔ اگر اچانک دنیا سے ساری عورتیں غائب ہو جائیں یا عورتیں یہ سوچیں کہ اچانک سارے مرد غائب ہو جائیں تو کیا صورتِ حال ہوگی۔ دو جنسوں میں پیدا کرنے کا سب سے پہلا مقصد تو یہ تھا کہ وہ ایک دوسرے کیساتھ خوشگوار وقت گزار سکیں۔ یہ دنیا بے رنگ نہ ہو جائے۔ دس مردوں کی محفل میں ایک عورت آ کر بیٹھ جائے، رنگ ہی بدل جاتا ہے۔
مرد دشوار کام کرنے کے قابل تھے۔ عورت میں خوبصورتی زیادہ ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ عورت ڈیکوریشن پیس ہے۔ بے شمار عورتوں نے مختلف شعبوں میں اپنا لوہا منوایا۔ یہ بھی مگر حقیقت ہے کہ اولاد عورت نے ہی پیدا کرنا ہوتی ہے۔ نوزائیدہ بچے کا دودھ عورت ہی کے سینے میں اتارا جاتا ہے۔بچوں کو عورت ہی سنبھال سکتی ہے۔جانداروں کی مختلف سپیشیز میں سے کچھ میں نر غالب ہیں اور کچھ میں مادہ۔ اس کی سب سے قریبی مثال Bonoboمیں ہے، جو انسان ہی کی طرح ایک گریٹ ایپ ہے۔
اس میں عورتیں غالب ہیں۔ چمپنزی بھی گریٹ ایپ ہے، جسے انسان کا سب سے قریبی رشتے دار قرار دیا جاتاہے۔ لاکھوں سال پیچھے انسان اور چمپنزی کاجدِ امجد ایک تھا۔ بونوبو بچہ ابتدائی چھ سات سال اپنی ماں پر ہی منحصر رہتاہے۔ دماغ بڑا اور پیچیدہ ہے۔ اسے مکمل طور پر فنکشنل ہونے کے لیے کئی سال درکار ہوتے ہیں۔ انسانوں میں ایک سال بعد بچہ چلنا شروع کرتاہے یعنی ماں پہ منحصر ہوتا ہے۔ اس کے برعکس میملز جیسا کہ بلی دو ماہ کے بچے کو چھوڑ دیتی ہے۔ چند مہینے بعد وہ اپنی اولاد پیدا کر رہا ہوتا ہے۔
عورت اور مرد کی ایک دوسرے سے محبت پر داستانیں لکھی گئیں۔ شاعری کا ایک غالب حصہ عورت کی خوبصورتی پہ مرتکز ہے۔
نازکی اس کے لب کی کیا کہیے
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے
اب مغرب میں صورتِ حال یہ ہے کہ آپ کسی فیمنسٹ عورت کو خاتون ہونے کی بنا پر پہلے گزرنے کا موقع دیں تو اسے آگ لگ جائے گی۔ جن لوگوں نے عورت کو اس کے ”حقوق“ دینے کا علم اٹھایا تھا، وہ شاید سب سے بڑے سازشی تھے۔ عورت نے اپنے حقوق حاصل کر لیے ہیں۔ وہ حقوق یہ ہیں کہ وہ اپنے چھ ماہ کے بلکتے بچے کو ڈے کئیر میں جمع کرا کے آفس میں مردوں کیلئے کام کرتی ہے۔ اس کے سینے میں دودھ اتراہوتاہے مگر بچے کے نصیب میں ڈبے کا دودھ آتا ہے۔ دن رات یہ عورت مردوں کی طرح مشقت کرتی ہے۔ گھر کا نصف خرچ اٹھاتی ہے۔ عورت کو اس کے حقوق یہ ملے ہیں کہ اکثر مرد اب شادی نہیں کرتے، گرل فرینڈ کے ساتھ رہتے ہیں۔ اولاد اسے پیدا کرنا ہوتی ہے۔ آپ اولمپکس دیکھ لیجیے۔ آپ کو مرد ہر جگہ مکمل لباس میں نظر آئیں گے، جب کہ حقوق حاصل کر چکی عورت برائے نام کپڑوں میں۔ اس کی حکمت یہ ہے کہ عورت کو ایک چلتا پھرتا اشتہار بنا دیا جائے۔
عورتوں میں اب ایک ایسی مخلوق سامنے آئی ہے، جس کا کہنا یہ ہے کہ مرد ہے ہی ایک درندہ۔ اس سے عورت کو کبھی کوئی فائدہ پہنچ ہی نہیں سکتا۔ آپ 100غیر محتاط ڈرائیوروں کے حادثات پڑھنے کے باوجود کبھی گاڑی میں سفر کرنے سے انکار نہیں کریں گے۔وجہ ا س کی یہ ہے کہ سب ڈرائیور ایک جیسے نہیں ہوتے۔ذمہ دار ڈرائیور بھی اسی دنیا میں پائے جاتے ہیں۔یہاں مگر 100ظالم مردوں کی کہانیاں بیان کرنے کے بعد آپ کو کرّہ ء ارض کے تمام مردوں سے نفرت کا کورس کرایا جاتا ہے۔ دوسری طرف والے یعنی پدر شاہی نظام کی خواہش رکھنے والوں کامعاملہ بھی یہی ہے۔ انہیں آپ کسی مرد کے ظلم کی پوری داستان مکمل ثبوتوں کے ساتھ بیان کر دیں۔ وہ اس کی مذمت نہیں کریں گے۔ موقف ان کا یہ ہے کہ یہ دراصل مرد ہے، جو کہ مظلوم ہے۔ اس نے ہمیشہ عورت اور اولاد کا بوجھ اٹھایا۔ وہ کہیں گے کہ یہ دراصل عورت ہے جو ظالم ہے۔ اس کی گز بھر لمبی زبان نے اس مرد کو پاگل کر کے رکھ دیا ہے، جس نے پورے کنبے کا بوجھ اٹھایا ہوا ہے۔کوئی شک نہیں کہ ایسی عورتیں بھی ہوتی ہیں لیکن سب عورتیں ایسی نہیں ہوتیں۔
تو یہ ہے وہ صورتِ حال جو پہلے مغرب میں درپیش ہوئی۔ اب پاکستان جیسے معاشرے میں پوری طاقت سے اسے نافذ کیا جا رہا ہے۔ اس لیے کہ بہت سے لوگوں کی آمدنی اور شہرت اب اس پہ منحصر ہے۔ کئی سال پہلے اسلام آباد میں ایک تقریب منعقد کی گئی تھی۔ اس میں ایک مرد چار ٹانگوں پہ چل کے دکھا رہا تھا۔ اس کے گلے میں ایک رسی تھی اور یہ رسی خواتین کے ہاتھ میں تھی۔ کچھ مردوزن نے ایک دوسرے پہ ظلم بھی کیے ہوں گے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جسمانی طور پر مضبوط اور معاشی طور پر خودمختار ہونے کی وجہ سے مردوں نے زیادہ ظلم کیے ہیں۔ جنہوں نے مگر کوئی ظلم نہیں کیا، ان کا کیا قصور۔ وہ لاکھوں گھرانے کیا ہوئے، جہاں میاں بیوی ایک دوسرے سے محبت کرتے اور ان کی اولاد اپنے ماں باپ سے محبت کرتی ہے۔ کیا ان کے ذہنوں میں یہ خناس بھر دیا جائے کہ شام کو گھر آنے والا یہ شخص تمہارا باپ نہیں بلکہ صرف ایک مرد ہے؟نفرت کے بیوپاریوں کو مگراس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ انہیں اپنی شہرت اور آمدن سے غرض ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)