پاکستان دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہے جہاں ٹیکس دینے کا رجحان نہ ہونے کے برابر ہے۔ حتیٰ کہ ہمارے ہاں ٹیکس دینے کی شرح ہمسایہ ملک انڈیا سے بھی کم ہے۔ اسکی بڑی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں کبھی کسی حکومت نے ٹیکس نیٹ بڑھانے پر توجہ نہیں دی بلکہ ہر حکومت نے ہمیشہ پہلے سے ٹیکس نیٹ میں موجود ٹیکس دہندگان پر ہی مزید ٹیکس لگانے کی پالیسی پر عملدرآمد کو ترجیح دی۔ اس پالیسی کا نتیجہ یہ ہے کہ رواں مالی سال کے بجٹ میں تنخواہ دار طبقے اور انڈسٹری پر ٹیکسوں کے بوجھ میں تاریخی اضافے کے باوجود حکومت کی طرف سے مقرر کردہ محصولات کا ہدف پورا ہوتا ناممکن نظر آ رہا ہے۔
ان حالات میں حکومت کو جہاں ایک طرف آئی ایم ایف سے سات ارب ڈالر قرض کی منظوری میں تاخیر کا سامنا ہے وہیں تاجروں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کیلئے متعارف کروائی گئی’’تاجر دوست اسکیم‘‘بھی کامیاب ہوتی نظر نہیں آ رہی ہے۔ تاجر دوست اسکیم کیخلاف 28اگست کو ہونیوالی تاجروں کی ملک گیر شٹر ڈاؤن ہڑتال کے بعد حکومت نے تاجروں کے تحفظات دور کرنے کیلئے مذاکرات کا عندیہ دیدیا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت نے یہ اسکیم متعارف کروانے سے پہلے تاجروں سے خاطر خواہ فیڈ بیک نہیں لیا تھا جسکی وجہ سے دوطرفہ عدم اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔ اب یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے اس کے بارے میں کوئی پیشن گوئی کرنا مشکل ہے لیکن اس سے ایک بات واضح ہو گئی ہے کہ اگر تاجر طبقہ ٹیکس دینے پر راضی نہیں ہے تو حکومت بھی ان سے ٹیکس لینے میں سنجیدہ نظر نہیں آتی ہے۔
ایسے میں اندیشہ ہے کہ محصولات کا ہدف پورا کرنے کیلئےحکومت پہلے سے ٹیکس دینے والے سیکٹرز پر ٹیکسوں کے بوجھ میں مزید اضافہ کر سکتی ہے جو کہ ’’اونٹ کی کمر پر آخری تنکا‘‘ ثابت ہو گا۔ اسکی بڑی وجہ یہ ہے کہ ملک میں انڈسٹری کی صورتحال پہلے ہی دِگرگوں ہے۔ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں مسلسل اضافے اور مارک اپ ریٹ میں نمایاں کمی نہ ہونے کی وجہ سے پیداواری لاگت اس قدر زیادہ ہو چکی ہے کہ انڈسٹری کی بقا خطرے میں ہے۔ ایسے میں حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ایکسپورٹ انڈسٹری کو سپورٹ فراہم کرنے کیلئے فوری اقدامات کرے۔ یہ اقدامات اسلئے بھی ضروری ہیں کہ اگر آئی ایم ایف سے قرض ملنے میں مزید تاخیر ہوئی تو حکومت کو بیرونی ادائیگیوں کیلئے زرمبادلہ کی قلت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
ایسی صورتحال سے بچنے کا فوری حل یہی ہے کہ ایکسپورٹ انڈسٹری کو اسکی مکمل صلاحیت اور استعداد کے مطابق چلانے کیلئے ہر قسم کی سپورٹ فراہم کی جائے۔ اس ایک اقدام سے ناصرف ملک میں روزگار کی فراہمی میں اضافہ ہو گا بلکہ جتنی رقم حکومت نے آئی ایم ایف سے چھ تا سات سال کی قسطوں میں حاصل کرنی ہے اس سے زیادہ زرمبادلہ ایکسپورٹ انڈسٹری ایک سے دو سال میں کما کر حکومت کو دے سکتی ہے۔ یہ فیصلہ اگرچہ موجودہ حالات میں مشکل نظر آتا ہے کیونکہ حکومت کے پاس مالیاتی گنجائش پہلے ہی محدود ہے لیکن اگر حکومت صوبوں کو اعتماد میں لیکر فوری طور پر انڈسٹری کیلئے انرجی ٹیرف کے حوالے سے ریلیف پیکیج کا اعلان کرے تو اسکے مثبت اثرات سے معاشی اعشارئیے بھی بہتر ہو جائینگے اور پاکستان کا آئی ایم ایف سمیت دیگر عالمی مالیاتی اداروں اور دوست ممالک پر مالی انحصار بھی کم ہو جائیگا۔
اس سلسلے میں حکومت ایکسپورٹ انڈسٹری کے سالہا سال سے زیر التوا ریفنڈز کی فوری ادائیگی کو یقینی بنانے کے علاوہ شرح سود میں نمایاں کمی کے ذریعے بھی انڈسٹری کو درپیش سرمائے کی قلت سے نجات دلا سکتی ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ ہر بحران اپنے اندر بہت سے مواقع لے کر آتا ہے اور جن ممالک نے درپیش چیلنجز میں سے آگے بڑھنے کے راستے نکالے ہیں وہ آج ترقی کی دوڑ میں ہم سے کہیں آگے نکل چکے ہیں۔ پاکستان کے پاس وسائل، افرادی قوت اور جذبے کی کمی نہیں ہے بس ہمیں ایک ایسی حوصلہ مند اور مصمم قوت فیصلہ رکھنے والی سیاسی قیادت کی ضرورت ہے جو ملک اور قوم کو موجودہ بحران سے نکالنے کیلئے جرات مندانہ فیصلے کر سکے۔ اس حوالے سے ایک فوری حل یہ ہے کہ انڈسٹری کو سولر انرجی پر منتقل ہونے کیلئے مالیاتی تعاون فراہم کیا جائے۔ اس طرح ناصرف ایکسپورٹ انڈسٹری کو سستی توانائی حاصل ہو سکے گی بلکہ پیداواری لاگت کم ہونے سے پاکستانی ایکسپورٹرز کی خطے کے دیگر ممالک کیساتھ مسابقت کی استعداد میں بھی اضافہ ہو گا۔ علاوہ ازیں ٹیکس نیٹ میں توسیع کیلئے ابتدائی طور پر یہ کیا جا سکتا ہے کہ بینکوں کے پاس پہلے سے موجود اکاؤنٹ ہولڈرز میں سے جو شہری ٹیکس نیٹ کا حصہ نہیں ہیں انہیں فائلر بنایا جائے۔
علاوہ ازیں کالے دھن کی روک تھام کیلئے تمام کرنسی نوٹ منسوخ کرکے بینکوں کے ذریعے نئے نوٹ جاری کئے جائیں۔ اگر یہ ممکن نہیں ہے تو کم از کم پانچ ہزار اور ایک ہزار روپے والے نوٹ ضرور منسوخ کئے جائیں کیونکہ ملک میں رشوت ستانی اور کالے دھن میں اضافے کے حوالے سے بڑی مالیت کے یہ کرنسی نوٹ بہت زیادہ مددگار و معاون ثابت ہو رہے ہیں۔ اس طرح ناصرف گھروں اور گوداموں میں پڑی اربوں روپے کی بلیک منی سے نجات ملے گی بلکہ پرانے نوٹ تبدیل کرنے والوں کے بینک اکاونٹ کھول کر نیا کیش ان کے اکاونٹس میں منتقل کیا جائے۔ اس طرح ناصرف بہت سے نان فائلر مگر پرتعیش زندگی گزارنے والے افراد بھی ٹیکس نیٹ میں شامل ہو جائینگے بلکہ حکومت آئندہ کیلئے ان کے ذرائع آمدن اور اخراجات کا موازنہ کر کے ان سے حقیقی شرح کے مطابق ٹیکس کی وصولی بھی یقینی بنا سکے گی۔