• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

کل اور کسی نام سے…

؎ ہم رُوحِ سفر ہیں، ہمیں ناموں سے نہ پہچان… کل اور کسی نام سے آجائیں گے ہم لوگ۔ اس ہفتے ’’آپ کا صفحہ‘‘ کی ’’ونر‘‘ نازلی فیصل ٹھہریں،بہت مبارک ہو بھئی۔ ’’حکومت کا سالانہ بجٹ،ٹیکسز کی بھرمار‘‘ گویا غرباء کے سانس لینے پر بھی ٹیکس عائد کردیا گیا ہے۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں طالب ہاشمی نبی پاکﷺ سے دلی عقیدت و محبت کا اظہار کررہے تھے۔ 

ڈاکٹر قمر عباس نے یادگارِ غالب سے متعلق مضمون میں لکھا کہ ’’آزادی کا لیڈر، انگریزوں کے غلام سے نہیں ملتا۔‘‘ واہ واہ۔ وحید زہیرکی زبانی، ظفر معراج کی سچّی اُجلی باتیں سُنیں، مزہ آگیا۔ ایسی ’’گفتگو‘‘ بلاشبہ بہت ہی لُطف دیتی ہے۔ ’’اسٹائل‘‘ کا رائٹ اَپ تو بس پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ اشعار کا تڑکا بھی تحریر کو چار چاند ہی لگا دیتا ہے۔ 

کنول بہزاد نے اٹک خورد ریلوے اسٹیشن کی بھی کیا خُوب سیر کروائی۔ ہم بھی ساتھ ساتھ ہم قدم رہے۔ منور راجپوت کتابوں پر سیرحاصل تبصرہ کر رہے تھے۔ نوجوان نسل کو کتب بینی پر ضرور توجّہ دینی چاہیے۔ ضیاء الحق قائم خانی سب سے بڑے صوبے بلوچستان سے متعلق حکومت کی عدم توجہی کا گلہ کر رہے تھے ۔ سچ تو یہ ہے کہ پورا پاکستان ہی ٹیلنٹ سے بھرا پڑا ہے، بس اصل مسئلہ درست سمت رہنمائی کا ہے۔ اور ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں سب ہی خطوط نگاروں کے خطوط بہت محبّت اور دل چسپی سے پڑھے۔ (شمائلہ نیاز، دائرہ دین پناہ، تحصیل کوٹ ادّو، ضلع مظفرگڑھ)

ج: جی، جی …پورا پاکستان ٹیلنٹ سے بَھرا ہوا ہے۔ ایک لائق، ایمان دار، اپنے کام کا ماہر پلمبر، مستری، کاری گر، ڈرائیور تک تو کہیں ملتا نہیں۔ ہمارے خیال میں تو اِن دنوں پورا پاکستان صرف ’’سوشل میڈیائی دانش وران‘‘ ہی سے بَھرا پڑا ہے۔

ہفتہ وار جریدہ ہے؟

’’رپورٹ‘‘ میں محمود شام جیسے جہاں دیدہ صحافی کا مضمون پڑھنے کو ملا، تو بہت ہی اچھا لگا۔ ہم تو ادارتی صفحے پر اُن کا کالم بھی بہت ہی ذوق و شوق سے پڑھتے ہیں۔ قاضی عبدالحمید شیرزاد کا ’’انٹرویو‘‘ شائع کرکے آپ نے دل خُوش کردیا۔ بہت خُوب صُورت باتیں کی انہوں نے۔ یہ پڑھ کر اور بھی خوشی ہوئی کہ قاضی صاحب آٹھ زبانیں بول سکتے ہیں۔ ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں عشرت جہاں کی چٹھی اس ہفتے کی چٹھی قرار پائی، بہت مبارک ہو۔ ویسے خط انہوں نے اس طرح شروع کیا تھا کہ ’’ماہِ اپریل کا شمارہ سامنے ہے۔‘‘، حالاں کہ میگزین تو ہفتہ وارہے۔ (رونق افروز برقی، دستگیر کالونی، کراچی)

ج: جو لوگ ماہ بہ ماہ بلکہ کئی ماہ بعد تشریف لاتے ہیں، وہ مہینوں ہی کا حساب کتاب رکھتے ہوں گے۔ ہاں البتہ شہزادہ بشیر، سیّد زاہد علی اور آپ جیسے کچھ نامہ نگاروں کے خطوط کا آغاز (کہ جن کی لگ بھگ ہر ہفتے ہی آمد ہوتی ہے)عموماً یوں ہی ہوتا ہے، ’’اِس ہفتے کا جریدہ پڑھا۔‘‘ تیکنیکی اعتبار سے آپ کی بات درست ہے، لیکن اگر کوئی ماہ بھر کے شماروں کے مطالعے کے بعد ایک ساتھ بھی تبصرہ لکھ بھیجے، تو ہمیں ہرگز کوئی اعتراض نہیں۔

مستقل سلسلہ سپرد کیا جائے

مَیں اصلاحی موضوعات کاقلم کار ہوں۔ عرصۂ دراز تک مشرق اخبار کے ہفت روزہ ’’اخبارِ خواتین‘‘ میں باقاعدگی سے لکھتا رہا۔ اب بھی کبھی کبھار ’’فیملی میگزین‘‘ کےلیے لکھتا ہوں۔ گزشتہ دنوں آپ کا ’’سنڈے میگزین‘‘ نظر سے گزرا تواچھا لگا کہ یہ ایک خاصا معیاری پرچہ ہے۔ اب میرا ارادہ ہے کہ قارئینِ سنڈے میگزین کے لیے بھی کچھ لکھوں۔ اگر جریدے کا کوئی مستقل سلسلہ میرے سپرد کر دیا جائے، تو باقاعدگی سے بھی لکھ سکتا ہوں۔ اسلامی، اصلاحی، تاریخی، معلوماتی، طبّی، معاشرتی و قانونی موضوعات اور دیگر مسائل وغیرہ پر بآسانی لکھ لیتا ہوں۔ 

میرے ماموں مرحوم نے دنیا کے 23 ممالک دیکھ رکھے تھے اور اُنہیں 13 ہی زبانوں پر مکمل عبور حاصل تھا۔ اُنہوں نے اُن ممالک کے سیاحتی اسفار پر ایک کتاب بھی لکھی، جو وہ اپنی زندگی میں شائع نہ کروا سکے۔ اب میری خواہش ہے کہ باقاعدہ کتابی صُورت میں اشاعت سے قبل یہ مضامین کسی جریدے میں قسط وار شائع ہوجائیں۔ نیز، آپ کے میگزین کے لیے کئی ایک تجاویز و مشورہ جات بھی بھیج سکتاہوں، بشرطیکہ بندۂ ناچیز کو اس لائق سمجھا جائے؟ (محمّد صفدر خان ساغر، محلہ شریف فارم، نزد مکی مسجد، راہ والی، گوجرانوالہ)

ج: فی الحال، کوئی مستقل سلسلہ کسی کے سپرد کرنا توقعطاً ممکن نہیں اور نہ ہی سیاحتی اسفار کے کسی طویل سلسلے کا آغاز ہی کیا جاسکتا ہے۔ ہاں، آپ اپنی کوئی ایک تحریر اور ماموں کابھی کوئی ایک سفرنامہ بطور نمونہ بھیج دیں۔ تحریر دیکھ کےآپ کوبتا دیاجائے گا کہ آئندہ کے لیےکیا ہوسکتا ہے۔

چاند کی طرح روشن

’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا نے فرانس میں ہونے والے قبل از وقت انتخابات پر توجّہ دلائی۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘میں رئوف ظفر نے سولر انرجی پر شان دار مضمون تحریر کیا اور بالکل منور مرزا جیسا انداز ہی اپنایا کہ ہر ہر پہلو کی نشان دہی کی۔ ویسے اگر منور مرزا بھی اِس موضوع پر کچھ روشنی ڈال دیں، تو مسئلہ مزید اجاگرہوجائےگا۔ ’’خانوادے‘‘ میں ڈاکٹر قمرعباس نے ’’ایک تھاراجا‘‘ کے عنوان سے جو مضمون تحریر کیا، بہت ہی زبردست تھا۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں طوبیٰ سعید نے نصیحت آموز رہنمائی کی۔ 

قاضی جمشید عالم صدیقی تربوز کے استعمال کے فوائد بیان کررہےتھے، توسلسلہ ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ میں ممتاز حسین انصاری نے اپنے محبِ وطن والد کا بہت ہی محبّت سے ذکر کیا، اسی طرح سید بختیار الدین اور اظہر عزمی نے بھی فادرز ڈے کی مناسبت سے عمُدہ تحریریں پیش کیں۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ میں سہیل رضا تبسم سورۂ رحمٰن کی فضلیت بیان کر رہے تھے۔ اس ہفتے ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘، ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ اور ’’ڈائجسٹ‘‘ کےصفحات غائب تھے۔اوراب آیئے، ’’آپ کا صفحہ‘‘ کی طرف، جس میں ہمارا خط شامل نہیں تھا، مگر کوئی بات نہیں کہ نواب زادہ خادم ملک کا خط تو جگمگا رہا تھا اور اُس کی وجہ سےصفحہ بھی چاند کی طرح روشن معلوم ہوا۔ (سیّد عابد علی، شاہ فیصل کالونی نمبر 3، کراچی)

کھمبے کی لائٹ میں…

آج کل ٹی۔وی پرجس طرح کے ڈرامے دکھائے جا رہے ہیں، اُن میں تشدّد کے عُنصر کو بہت بھونڈے طریقے سے پروموٹ کیا جا رہا ہے۔ خیر، یہ توبرسبیلِ تذکرہ بات ہوگئی۔ ظفر معراج کا انٹرویو ’’مَیں انسان کو سوچتا، اُس کے لیے لکھتا ہوں‘‘کی سُرخی کے ساتھ ایک بہترین انٹرویو تھا۔ بلاشبہ وہ ایک بہت بڑے لکھاری اور ڈراما نگار ہیں۔ کنول بہزاد کے اٹک خورد کے سفرنامے نے تو ہمیں ماضی کا حسین دَور یاد دلا دیا، جب ہم ایک سرکاری محکمے میں نئے نئے بھرتی ہوئے تھے اور اِس اسٹیشن پر بیٹھ کررات کو ایک کھمبے کی لائٹ میں بی اے کے پرچوں کی تیاری کیا کرتے تھے۔ 

اٹک شہر واقعی ایک پُراسرار شہر ہے۔ اسماء خان دمڑ اور محمد سلیم راجا اس بزمِ بے مثال سے کیوں غائب ہوگئے ہیں۔ منور راجپوت نئی کتابوں پر بہت ہی بہترین انداز میں تبصرہ کرتے ہیں، لیکن کتابوں کی قیمت پڑھ کر تو ہوش ہی گُم ہوجاتے ہیں۔ ایک کتاب ’’نئے ابن بطوطہ کا منظرنامہ‘‘ جس کے544 صفحات تھے، قیمت 2000 لکھی ہوئی تھی۔ (تجمّل حسین مرزا، مسلم کالونی، ڈاک خانہ باغ بان پورہ، لاہور)

ج: کتابوں کی قیمت دیکھ کے ہوش گُم ہوجاتے ہیں، برانڈڈ جوتوں، کپڑوں کی قیمت دیکھ کر حواس بحال رہتے ہیں؟؟ اوروہ جو ریسٹورنٹس میں ایک برگر، ایک پیزا پر ہزاروں لُٹا دیئے جاتے ہیں، اُن کا کیا؟

پیغامات شائع نہیں ہوئے

اس بار بھی ہمیشہ کی طرح دو ہی شماروں پر تبصرہ کروں گا۔ دونوں میں متبرک صفحاتِ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ شامل تھے۔ برطانیہ میں قبل از وقت انتخابات پر منور مرزا کا تجزیہ ہمیشہ کی طرح بہترین تھا۔ انتہائی خوشی کی بات ہے کہ بلوچستان جیسے پس ماندہ صوبے کے چھے اضلاع میں خواتین کو بطور ڈپٹی کمشنر تعینات کیا گیا۔ ’’ہم بھی چلے امریکا‘‘ کی آخری قسط اچھی تھی۔ ناچیزکا خط شامل فرمانے کا شکریہ۔ 

دوسرا شمارہ تو ’’عیدِ قرباں اسپیشل‘‘ ہی تھا، کیوں کہ اِس میں فلسفۂ قربانی، تصورِ عید الاضحٰی، تہوار یا فوڈ فیسٹیولز، عید قرباں کا گوشت اور ہماری صحت، یوم النحر وغیرہ کے عنوانات سے سیرحاصل مضامین شامل کیے گئے، تو سرورق، اسٹائل بزم، پیاراگھر، ڈائجسٹ اور ایک پیغام، پیاروں کے نام سب ہی عید الاضحٰی کی مناسبت ہی سے ترتیب دیئے گئے۔

البتہ گلوکار، کمپورز، نغمہ نگار شیراز اپل اور فیملی سے فادرزڈے کے حوالے سے بھرپور ملاقات کروائی گئی۔ نریندر مودی کی مایوس کُن جیت کا احوال منور مرزا نے سُنایا اور ہاں ’’ایک پیغام‘‘ سلسلے کے لیے ناچیز نے بھی پیغامات ارسال کیے تھے، مگر شائع نہ ہوئے۔ ہوسکتا ہے، دوسری یا تیسری قسط میں شامل ہوں۔ ممکن ہوتولیجنڈز، سُپراسٹارز ندیم، جاوید شیخ اور غلام محی الدین وغیرہ کے انٹرویوز بھی کروائیں۔ (پرنس افضل شاہین، نادر شاہ بازار، بہاول نگر)

ج: پیغامات کی دو سے تین اقساط کا مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ ہر ایک کا پیغام شاملِ اشاعت ہوجائے۔ اُمید ہے، اب تک آپ نے اپنے پیغامات بھی دیکھ لیے ہوں گے۔

میرے پسندیدہ ترین شاعر

سنڈے میگزین کے کئی سلسلے بہت دل چسپی کے ساتھ پڑھتی ہوں۔ شعر و شاعری سے بھی بہت لگاؤ ہے۔ امجد اسلام امجد صاحب میرے پسندیدہ شاعر، ڈراما نگار تھے۔ اُن کے انتقال پر دل بہت افسردہ ہوا۔ آپ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ میں جب اُن کا کلام شائع کرتی ہیں، تو پڑھ کے بہت ہی لطف اندوزہوتی ہوں۔’’سرچشمۂ ہدایت، انٹرویوز، کہی ان کہی، پیاراگھر، ناقابلِ فراموش، ڈائجسٹ اورایک پیغام، پیاروں کے نام، میرے بہت ہی پسندیدہ سلسلے ہیں۔ (مریم طلعت محمود بیگ، لاہور)

ج: کوئی گوشہ مختص کرنا تو مشکل ہے۔ ہاں، کلام مختلف حوالوں سے کہیں نہ کہیں شیئر ہوتا رہتا ہے۔ آئندہ بھی کرتے رہیں گے۔

کم زور سے کم زور تر کیوں؟

’’سنڈے میگزین‘‘ دن بہ دن کم زور سے کم زور تر کیوں ہوتا جارہا ہے۔ سچ کہوں، تو موجودہ میگزین دیکھ کر تو ہمیں پرویز خٹک صاحب یاد آجاتے ہیں۔ واللہ، کیا ڈانس کیا کرتے تھے، ویسے وہ آج کل کہاں غائب ہیں۔ اگر میگزین کے لیے اُن کا انٹرویو ہوجائے، تو کیا ہی بات ہو۔ اور خدا کے لیے اپنے جریدے کی صحت کچھ بہتر بنائیں۔ 

ٹھیک ہے، منہگائی ہے، لیکن آپ بے شک، اتوار کے دن کے اخبار کی قیمت میں10 روپے اضافہ کردیں، مگر صفحات کی تعداد ضرور بڑھا دیں کہ اتنا تو ہم عوام برداشت کر ہی سکتے ہیں۔ یوں بھی اِس قدر غربت، منہگائی اور بےروزگاری کے ساتھ یہ منحنی سےسنڈےمیگزین کاصدمہ ناقابلِ برداشت ہوجاتا ہے۔ (نواب زادہ بے کار ملک، سعید آباد، کراچی)

ج: جریدے کے صفحات تو ایک طویل عرصے سے 16 ہی ہیں، کم زور سے کم زور تر کہاں ہوتا جارہا ہے؟ لگتا ہے، آپ کی بصارت کم زور سے کم زور ترہوتی چلی جارہی ہے۔

                 فی امان اللہ

اس ہفتے کی چٹھی

’’بقرعید ایڈیشن‘‘ موصول ہوا۔ سرِورق پر ایک فیملی گوشت کی ڈشز سجائے براجمان تھی۔ ’’عید الاضحیٰ اسپیشل‘‘ میں ڈاکٹر حافظ محمّد ثانی، فلسفۂ قربانی کا تصوّر پیش کر رہے تھے۔ بلاشبہ، اللہ کی راہ میں بیٹے کو قربانی کے لیے تیار کرنا، خُود کو قربان کرنے سے بھی زیادہ تکلیف دہ ہے۔ اتفاق سے ’’فادرز ڈے‘‘ بھی آگیا، اُس باپ کا دن،جواولاد کی خاطر اپنی خواہشوں، ارمانوں، حوشیوں کی قربانی عُمر بھردیتا ہے۔ خُود پرانے کپڑوں میں عید مناتا، مگر اولاد کی ایک فرمائش پرساری جمع پونجی لٹانے سے بھی دریغ نہیں کرتا۔ ماں تو پھرکہہ سُن کر اپنے دل کی سب بھڑاس نکال لیتی ہے، مگر باپ تو اپنے آنسو بھی اندر اندر ہی پیتا اور اوپر سے پیاروں کےلیےمُسکراتا رہتا ہے۔

رستم علی خان شکوہ کُناں تھے کہ آج عیدین کا تصور ہی تبدیل ہوگیا ہے، تہواروں کی سادگی، خُوب صُورتی مفقود ہوگئی۔ ہر طرف نمائش، نام و نمود ہی کا غلبہ ہے۔ اعتدال پسندی سے توجیسے ہم نے منہ ہی موڑلیا ہے۔ علماء، دانش وروں کی آراء بھی اِسی فکری گراوٹ کی طرف اشارہ کررہی تھیں۔ ڈاکٹر شہنیلا کاشف گوشت کا استعمال حفظانِ صحت کے مطابق کرنے کی تلقین کرتی نظر آئیں۔ رؤف ظفر نے فادرز ڈے ہی کی نسبت سے معروف نغمہ نگار، میوزک کمپوزر شیراز اپل اور فیملی سے اچھی بات چیت کی۔ 

ڈاکٹر عزیزہ انجم ’’یومِ نحر‘‘ کے عنوان سے ایمان کی تجدید اور قربانی کی تاریخ یاد رکھنے کی تلقین کر رہی تھیں، تو ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا، مسلمانوں کے قاتل، جابرمودی کی مایوس کُن جیت کا تجزیہ کررہے تھے، حالاں کہ ہمیں تواِس کی مایوس کن ہار کا انتظار تھا۔ ویسے رواداری، شرافت اوراحسان مندی کا مظاہرہ اعلیٰ ظرف دشمن سے کیا جاتا ہے، سانپ کے بچّے سے درگزرتوخُود سےدشمنی کے مترادف ہے۔ 

منور مرزا سے ایک درخواست بھی ہے کہ ممکن ہو تو قارئین کو ’’لیاقت، نہرو پیکٹ‘‘ کے بارے میں بھی معلومات فراہم کریں یا کوئی اور دانش وَر اس حوالے سے قلم اُٹھائے۔ فرحی نعیم فادرزڈے کے حوالے سے بتا رہی تھیں کہ جو جنّت ماں کے قدموں تلے ہے، اُس کا دروازہ باپ ہی ہے، دروازہ کُھلے گا تو ہی بہشت میں داخل ہو سکیں گے ناں۔ بلقیس طاہر نے بدایوں کے کھچڑے اور نرگسی کوفتوں سے میزسجائی۔ بائے دی وے نرگسی آنکھوں کے بارے میں تو پڑھ اور سُن رکھا ہے، اب یہ نرگسی کوفتے بھی آپ کے نام سے مماثل ہیں، تو ذرااِن پربھی کچھ روشنی ڈال دیں۔ 

’’ڈائجسٹ‘‘ میں نظیر فاطمہ کا افسانہ بہت پسند آیا۔ طلعت عمران ’’ایک پیغام، پیاروں کے نام‘‘ اچھے انداز سے مرتب کر رہے ہیں۔ اور اپنے صفحے پر اس ہفتے بلکہ شایدسال کی طویل ترین چٹھی کا اعزاز حاصل کرنے پر شائستہ اظہرصدیقی کی خدمت میں مبارک باد پیش کرتے ہیں۔ ہمارے بڑے بوڑھے، بیٹیوں کی رخصتی پر، امیر خسرو کا منڈوا (گیت)، (یاد رہے، ہمارے بزرگ اِسے منڈوا ہی کہتے تھے) فرمائش کر کے سُنا کرتے تھےاورہم نےاِس کا ایک شعر ایسے بھی سُن رکھا ہے ؎ امبوا تلے سے ڈولا جو گزرا… میّا نے کھائی پچھاڑ رے لکھی بابل مورے۔ (شہزادہ بشیرمحمّد نقش بندی، میرپور خاص)

ج: ’’منڈوا‘‘ پہ اتنی ریسرچ کر رکھی ہے، تو نرگسی کوفتوں پر بھی کچھ تحقیق فرما لیتے۔ ویسے وکی پیڈیا میں اِن کی جو وجۂ تسمیہ لکھی ہے، وہ اِس طرح ہے کہ ’’نرگسی کوفتے جنوبی ایشیا میں پکائی جانے والی ایک ڈش ہے۔ اِن کوفتوں کو بناتےوقت درمیان میں مُرغی کے انڈےرکھےجاتے ہیں، جب کہ تیارہونے کے بعد اِنھیں بیچ سےکاٹ لیا جاتا ہے اور چوں کہ کٹنے کے بعد اِن کی شکل نرگس کے پھول سی ہوجاتی ہے، تواِسی لیے اِن کا نام نرگسی کوفتے پڑگیا۔‘‘

گوشہ برقی خطوط

* اُمید ہے، آپ اور آپ کی ٹیم خیریت سے ہوگی۔ سنڈے میگزین سامنے ہے، جو آپ کی محنت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ سب سے پہلے ’’قصص القرآن‘‘ سلسلے میں یہودیوں کی اسلام دشمنی کے واقعات پڑھے۔ پھر’’آپ کا صفحہ‘‘ کی جانب دوڑ لگائی اور وہاں اپنا برقی خط دیکھ کر بے حد خوشی ہوئی۔ اِسی طرح خوش کرتی رہا کریں۔ (وقار الحسن)

ج: آپ ای میل کرتے رہیں گے، تو شایع بھی ہوتی رہیں گی، اب ہم خُود سے لکھ کے توآپ کو خُوش کرنے سے رہے۔

* آپ کی ٹیم اورمیگزین کے سب قارئین کو میرا سلامِ عقیدت۔ آپ کےعید تہوار کے ایڈیشنز دیکھ کردل بہت خوش ہوتا ہے کہ یہاں پردیس میں تو کیا عید، کیا شبِ برات، کچھ پتا ہی نہیں چلتا۔ عید پر میرے والدصاحب کی طبیعت بھی خراب تھی، دل پاکستان آنے کے لیے مچلتا تڑپتا رہا، لیکن عید کی وجہ سے ٹکٹس انتہائی منہگی کر دی گئیں، تونہیں آسکی۔ 

خیر،’’عید ایڈیشن‘‘ کی اسٹائل بزم کے پہناوے بہت پسند آئے۔ ماڈلز بھی پیاری تھیں۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ کا افسانہ’’اللہ باقی‘‘ بہترین تھا۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ کا واقعہ سبق آموز لگا۔ میرے پاس بھی کچھ واقعات ہیں،ان شاءاللہ کبھی موقع ملا، تو بھیجوں گی۔ آپ نےحسبِ روایت ’’اسٹائل بزم‘‘ انتہائی خُوب صُورت اشعارسےمرصّع کی، بےحد شکریہ۔ رونق افروز نے مجھے یاد کیا، لیجیے، مَیں پھر سے آگئی ہوں۔ (قرات نقوی،ٹیکساس، امریکا)

ج: اللہ پاک آپ کے والدِ گرامی کو کامل صحت عطا فرمائے اور آپ کی اپنے پیاروں سے ملاقات کی جلد ازجلد کوئی سبیل بن جائے۔

* ایک عددافسانہ ’’دو ٹکےکا انسان‘‘، ’’ڈائجسٹ‘‘ کے لیے پچھلے سال انتیس جولائی کو ای میل کیا تھا۔ پلیز، اُس کےمتعلق کچھ بتا دیجیے۔ اللہ پاک آپ کواورادارے کے اراکین کو اپنی حفظ و امان میں رکھے آمین۔ (خالد نذیر خالد، ای بلاک، سیٹلائٹ ٹاؤن، راول پنڈی)

ج: ناقابلِ اشاعت کی فہرست میں نام شایع ہو چُکا ہے۔ آپ نےغالباً فہرست ملاحظہ نہیں کی۔

قارئینِ کرام !

ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔

نرجس ملک

ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘

روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

sundaymagazine@janggroup.com.pk