مرتب: محمّد ہمایوں ظفر
بے شک اللہ تعالیٰ ہی سارے جہاں کا خالق و مالک ہے۔ وہی سب کچھ لینے، دینے والا ہے۔ جو کچھ مانگنا ہو، صرف اُسی سے مانگنا چاہیے۔ اِسی تناظر میں ایک واقعہ آپ کی نذرکرنا چاہتی ہوں۔
یہ اُس وقت کی بات ہے، جب مَیں ایک مقامی اسکول میں بطور استانی پیشہ ورانہ فرائض سرانجام دے رہی تھی۔ ہوا کچھ یوں کہ ایک روز گھر میں صفائی ستھرائی کے دوران ہمیں پرانے برتنوں کا ایک کارٹن ملا۔ اُسے کھول کر دیکھا، تو برتنوں کے ساتھ کانچ کا ایک چھوٹا سا گلاس بھی نظر آیا۔
براؤن کلر کا وہ چھوٹا سا، خُوب صُورت سا گلاس مجھے بھاگیا، تو مَیں نے والدہ سے اجازت لے کر اُسے اپنے استعمال کے لیے کچن کے کیبنٹ میں ایک کونے میں رکھ دیا۔ پتا نہیں کیوں، اُس گلاس میں پانی پی کر مجھے عجیب سی تسکین محسوس ہوتی تھی، لہٰذا پانی پینے کے بعد مَیں ہمیشہ پوری احتیاط سے اُسے واپس اُس کی جگہ پر رکھ دیتی تھی۔ ایک روز اسکول سے گھر آئی، تو یہ بُری خبر ملی کہ میرا پسندیدہ گلاس، میری والدہ کے ہاتھوں سے گِر کر ٹوٹ گیا ہے۔
یہ خبر میرے لیے بہت ہی افسوس ناک تھی۔ مَیں کافی دیر بہت افسردہ رہی۔ خیر، ایک روز میں نے اپنی کولیگ سے یونہی اپنے اُس پسندیدہ گلاس کے ٹوٹنے کا ذکر کیا، تو میری ساری بات بہت ہی غور سے سننے کے بعد انھوں نے بڑے تحمّل سے کہا، ’’میرے پاس بالکل اُسی طرح کا ایک گلاس موجود ہے، مَیں کل ہی تمہیں لاکر دے دوں گی۔‘‘
ساتھ ہی نصیحت کی کہ ’’ایسی چھوٹی چھوٹی چیزوں کے لیے پریشان نہیں ہوا کرتے، یہ ٹوٹنے کے لیے ہی ہوتی ہیں۔‘‘ اور اُن کی پُرخلوص پیش کش اور نصیحت کے بعد مَیں سوچ میں پڑگئی کہ اللہ تعالیٰ تو اپنے بندے کی وہاں سے بھی خواہش پوری کردیتا ہے، جہاں سے سِرے سے کوئی توقع، اُمید ہی نہیں ہوتی، تو پھر دامنِ دُعا صرف اُسی کے سامنے کیوں نہ پھیلایا جائے۔ دنیا والوں سے کوئی آس رکھی ہی کیوں جائے۔ (علیزہ انور، ڈھوک کالا خان، راول پنڈی)