پاکستان کی نصف سے بھی زاید آبادی خواتین پر مشتمل ہے اور خوش آیند امر یہ ہے کہ یہ باصلاحیت، باہمّت اور پُرعزم خواتین زندگی کے ہر شعبے میں کام یابی و کام رانی کے نت نئے ریکارڈز قائم کر رہی ہیں۔ تعلیم کا میدان ہو یا کھیلوں کے معرکے، ہر طرف ان کے شان دار کارناموں کی گونج ہے۔
اگر جاب مارکیٹ کی بات کی جائے، تو اِس شعبے میں بھی تعلیم یافتہ اور ہنرمند خواتین کی شراکت میں نہ صرف مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، بلکہ وہ اپنی اَن تھک محنت، بے مثال قابلیت اور پروفیشنل مہارت کے سبب مُلکی و غیر مُلکی اداروں اور کمپنیز کے اہم و کلیدی عُہدوں پر بھی فائز ہیں۔
اِسی طرح، گزشتہ کچھ برسوں سے خواتین میں معاشی خود مختاری کے ضمن میں اپنے کاروبار کے رجحان میں بھی اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ وہ اب صرف بوتیکس یا پارلرز ہی نہیں چلا رہیں، بلکہ مختلف مارکیٹس اور بازاروں میں اُن کے مختلف اشیاء کے اسٹالز بھی ہیں، جہاں وہ پورے اعتماد کے ساتھ گاہکوں کو ڈیل کرتی ہیں، جب کہ اب خواتین اپنی کمپنیز اور ادارے بھی قائم کر رہی ہیں۔
پاکستان میں کچھ عرصے سے موٹر سائیکلز کی سواری بھی روزی روٹی کمانے کے ایک اہم و باوقار ذریعے کے طور پر سامنے آئی ہے۔ مختلف کمپنیز کی طرف سے عوام کو موٹر سائیکل پر سفری سہولتوں کی فراہمی کا آغاز ہوا، جس سے بائیک چلانے والوں کے لیے آمدنی کے راستے وا ہوئے، تو عام شہریوں کے لیے بھی ایک سے دوسرے مقام تک جانا آسان ہوگیا۔
اب صُورتِ حال یہ ہے کہ ہر چورنگی پر سفری سہولت مہیا کرنے والے بائیک سواروں کا جمگھٹا نظر آتا ہے، جو کسی بس کنڈکٹر کی طرح باقاعدہ آوازیں لگا رہے ہوتے ہیں۔ یوں سیکڑوں، ہزاروں گھرانے موٹر سائیکلز کے ذریعے اپنی معاشی ضروریات پوری کر رہے ہیں۔ اِسی طرح دفاتر، گھروں یا دیگر مقامات پر موٹر سائیکلز کے ذریعے فوڈ آئٹمز کی فراہمی بھی ایک بڑی معاشی سرگرمی کا رُوپ دھار چُکی ہے، جس سے بلاشبہ بالواسطہ یا بلاواسطہ، لاکھوں افراد وابستہ ہیں۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ اب خواتین بھی اِس شعبے کی طرف متوجّہ ہو رہی ہیں، حالاں کہ روایتی طور پر یہ اُن کی فیلڈ تصوّر نہیں کی جاتی۔ بہت سی خواتین، مَردوں کی طرح فوڈ آئٹمز اور دیگر اشیاء بائیکس کے ذریعے ایک سے دوسرے مقام تک پہنچا کر اپنی اور اپنے اہلِ خانہ کی معاشی ترقّی میں ممدّ و معاون بن رہی ہیں۔ ایسی ہی ایک خاتون، ثناء عروج ہیں۔
کراچی میں آئی آئی چندریگر روڈ کے ایک سرے پر واقع، شاہین کمپلیکس سگنل کے کونے پر، ایک بائیک سوار خاتون کھڑی تھیں اور بائیک پر رکھا مخصوص باکس اِس بات کا اشارہ تھا کہ وہ فوڈ آئٹمز کی ڈیلیوری پر مامور ہیں۔
ہماری صحافیانہ جستجو نے انگڑائی لی، تو اپنا تعارف کروانے کے بعد اُن سے مختصر سی بات چیت کی۔ثناء عروج نے بتایا۔’’جب مَیں نے معاشی حالات کے سدھار کے لیے کچھ کرنے کی ٹھانی، تو مختلف آپشنز پر غور کیا اور پھر کافی سوچ بچار کے بعد اِس نتیجے پر پہنچی کہ مجھے بائیک چلانی آتی ہے، تو پھر کیوں نہ اِسی کے ذریعے اپنے معاشی سفر کا آغاز کروں۔
سو، جون2022 ء میں کراچی کے ملیر زون میں فوڈ پانڈا کے ساتھ بطور رائیڈر وابستہ ہوگئی۔‘‘ مگر اُن کا سفر آسان نہیں تھا۔اُنھوں نے خود پر بیتے واقعات کو چند جملوں میں یوں سمیٹا۔’’میرا سفر خاصا دشوار گزار رہا۔ کسی خاتون کے لیے کراچی کی بے ہنگم ٹریفک کے بیچ موٹر سائیکل چلانا کسی امتحان سے کم نہیں کہ عام طور پر لوگ ابھی تک خواتین کے اِس رُوپ کو قبول ہی نہیں کرپائے، جس کی وجہ سے بائیک چلانے والی خواتین کو بہت سے مسائل اور لوگوں کے نامناسب رویّوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مگر مَیں نے ایک تو اپنے خوف پر قابو پایا اور دوسرا، اِس کام کو ایک چیلنج سمجھ کر قبول کرلیا کہ پیچھے ہٹنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
یوں مَیں مسلسل آگے بڑھتی رہی اور اب تک ریکارڈ2400سے زاید آرڈرز کی تکمیل کر چُکی ہوں۔‘‘سوشل میڈیا پر ثناء عروج کے حوالے سے بہت سی پوسٹس موجود ہیں، جن میں اُنھیں خواتین کے لیے ایک رول ماڈل قرار دیا گیا ہے۔ خاص طور پر خواتین اُن کے معاشی سفر اور عزم و ہمّت کو بے حد سراہ رہی ہیں۔ اِس ضمن میں پوچھے گئے ایک سوال پر اُن کا کہنا تھا کہ’’مَیں بہت خوش ہوں کہ میری کام یابی کی کہانیاں پڑھ، سُن کر دیگر خواتین کا بھی حوصلہ بڑھ رہا ہے، مجھے دیکھ کر بہت سی خواتین اِس شعبے میں قدم رکھ چُکی ہیں۔
میری کہانی، جہاں خواتین کو معاشی طور پر بااختیار بنانے میں مدد فراہم کرتی ہے، وہیں اِس سے خواتین کی معاشی سرگرمیوں میں بھرپور شمولیت کی اہمیت و افادیت بھی سامنے آتی ہے۔‘‘ ثناء عروج ایک اور طریقے سے بھی خواتین کی معاشی خود مختاری کے لیے سرگرم ہیں۔ یہ قصّہ اُن ہی سے سنیے۔’’بہت سی ایسی تنظیمیں، جو خواتین کو بائیک چلانے کی تربیت دینے کے لیے کوشاں ہیں، میری خدمات حاصل کرتی ہیں۔
مجھے مختلف تقاریب میں مہمانِ خصوصی کے طور پر مدعو کیا جاتا ہے، جہاں مَیں اپنی کہانی سُنا کر خواتین کا حوصلہ بڑھاتی ہوں۔ مَیں نے بہت سی خواتین کو کام یابی کے ساتھ بائیک چلانا سِکھائی۔ وہ خواتین مجھے جس طرح دُعائیں دیتی اور بے پناہ شُکر گزاری کا اظہار کرتی ہیں، یقین کریں، یوں لگتا ہے،ساری میری محنت وصول ہوگئی۔مَیں خواتین سے یہی کہنا چاہوں گی کہ اگر مقصد بلند ہو اور استقامت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا جائے، تو پھر کوئی رکاوٹ ناقابلِ تسخیر نہیں رہتی۔‘‘
بڑے شہروں میں’’ ہوم شیفس‘‘ کا کاروبار انفرادی سطح پر تو طویل عرصے سے کسی نہ کسی شکل میں جاری تھا، مگر اب مختلف کمپنیز کی معاونت سے یہ ایک منظّم کاروبار کی صُورت اختیار کرتا جا رہا ہے۔نیز، یہ شعبہ خواتین کی معاشی خود مختاری اور مالی آسودگی کا ایک بہترین ذریعہ بھی بن کر سامنے آیا ہے۔ حنا راوش ’’خانی روٹی ہاؤس‘‘کے نام سے کام کر رہی ہیں۔ حنا نے اپنے اِس سفر کی رُوداد یوں سُنائی۔’’یہ2020ء کے لاکڈ ڈاؤن کی دنوں کی بات ہے۔میرے شوہر کی نوکری چلی گئی تھی۔ مجھے ہمیشہ سے دیسی کھانے بنانے کا شوق تھا اور نئی نئی تراکیب آزماتی رہتی تھی۔ ایک دن شوہر نے فیس بُک پر دیکھا کہ لوگ فوڈ پانڈا کی ہوم شیف سروسز کے ذریعے کھانا بنا کر بیچ رہے ہیں، تو ہم نے بھی اللہ کا نام لے کر آن لائن رجسٹریشن فارم بَھر دیا۔کمپنی کی ٹیم نے رجسٹریشن سے لے کر مکمل سیٹ اَپ لگانے تک ہماری بھرپور مدد کی۔ہم دونوں میاں بیوی نے مل کر یہ وینچر شروع کیا۔ میرے شوہر نے قدم قدم پر میرا ساتھ دیا۔ وہ نہ صرف کچن میں میرا ہاتھ بٹاتے ہیں، بلکہ ڈیلیوری کا کام بھی بخوبی کر رہے ہیں۔‘‘
کون سے کھانوں سے کام کا آغاز کیا اور اُن میں اپنی کیا انفرادیت رکھی؟ اِس سوال کے جواب میں اُن کا کہنا تھا۔’’آغاز تو دیسی کھانوں ہی سے کیا، جیسے قیمہ اور کوفتے وغیرہ۔مگر مَیں ہر ڈش میں اپنا پرسنل ٹچ ضرور دیتی ہوں تاکہ ہمارے مینیو میں جدّت رہے اور لوگوں کو بھی نئے ذائقے ملیں۔‘‘حنا راوش نے اِس فیلڈ میں قسمت آزمائی کرنے والی خواتین کو مشورہ دیا کہ’’وہ کوالٹی اور ذائقے پر دھیان رکھیں۔ صارفین سے اچھا رشتہ بنائیں۔آپ کا مینیو منفرد اور ذائقے دار ہونا چاہیے۔
میرا تو خیال ہے کہ جو خواتین گھر سے باہر جاکر کام نہیں کرسکتیں، اُن کے لیے’’ ہوم شیفس‘‘ کا کام بھرپور مواقع کا حامل ہے۔ مَیں نے اِسی کے ذریعے مشکل وقت میں اپنا گھر چلایا اور اب الحمدللہ، ہمارے مالی حالات بہت بہتر ہوگئے ہیں۔‘‘
نیز، سوشل میڈیا سرچنگ سے بھی یہ خوش کُن انکشاف ہوا کہ اب سیکڑوں خواتین’’ ہوم شیفس‘‘ کے طور پر اپنی شناخت بنا رہی ہیں، جن میں سے کئی ایک کھانوں کی ڈیلیوری کا اپنے طور پر انتظام کرتی ہیں، تو ایک بڑی تعداد مختلف کمپنیز کی معاونت سے اپنے کاروبار کو وسعت دے رہی ہیں۔