فیصل کان پوری، کراچی
معروف نعت گو شاعر، بہزاد لکھنوی 1895ء میں پیدا ہوئے۔ اُن کے دادا، عاشق پوری اور والد، راز رام پوری کا شمار اپنے عہد کے اہم شعرا میں شمار ہوتا تھا۔ سو، شاعری کا ذوق و شوق بہزاد لکھنوی کو وَرثے ہی میں ملا۔ انہوں نے انٹر میڈیٹ کا امتحان کلکتہ (موجودہ کول کتہ) سے پاس کیا اور 1952ء میں ریڈیو پاکستان سے وابستہ ہوئے۔ بہزاد لکھنوی نے نعت گوئی کو اپنی توجّہ کا مرکز بنایا۔ انہیں قدرت نے مترنّم لہجہ عطا کیا تھا اور وہ مشاعروں میں اپنی آواز کے جادو سے حاضرین کو سحر زدہ کر دیتے تھے۔
بہزاد لکھنوی کے 10نعتیہ کلام شائع ہوئے۔ ان میں’’ نغمۂ روح، نعتِ رسولﷺ، کرم بالائے کرم، قربان مدینہ، فیضانِ حرم، درمانِ غم، ثنائے حبیبؐ، سرکار دو عالمؐ، مہمانِ حضورؐ اور نعتِ حضورؐ‘‘ شامل ہیں۔ جس نے بھی ایک مرتبہ بہزاد لکھنوی کی نعتیہ شاعری کا عمیق نظر سے مطالعہ کیا، وہ ان سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔
یوں تو پاکستان کے متعدّد نعت خوانوں نے بہزاد لکھنوی کے کلام کو پڑھنے کا شرف حاصل کیا ہے، لیکن بین الاقوامی شُہرت یافتہ نعت خواں، الحاج سعید ہاشمی مرحوم نےاُن کے تحریر کرد کلام کو جس قدر منفرد انداز اور خوش الحانی سے پیش کیا، اس کی نظیر نہیں ملتی۔
واضح رہے کہ قیامِ پاکستان کے بعد ریڈیو سے بہزاد لکھنوی اور اعظم چشتی نعت رسول مقبولؐ پیش کیا کرتے تھے اور ان کے بعد سعید ہاشمی، وحید ظفر قاسمی، خورشید احمد، صدیق اسماعیل اور حافظ مرغوب ہمدانی نے اس سلسلے کو آگے بڑھایا۔
نعت گو شعرا میں بہزاد لکھنوی کا ایک نمایاں مقام ہے۔ نعت گوئی کی اعلیٰ استعداد کے ساتھ انہیں خوش الحانی کی نعمت بھی عطا ہوئی تھی۔ ریڈیو پاکستان کی آواز لائبریری کے شعر و ادب کے شعبے میں بہزاد لکھنوی کی شمیم رحمانی سے ایک طویل گفتگو کا ریکارڈ محفوظ ہے۔ گفتگو کے دوران انہوں نے بتایا کہ ’’میرا نام سردار حسین تھا۔ سردار مُجھے پسند نہیں تھا اور مَیں اسے بدلنا چاہتا تھا۔ مُجھے اسکول ہی کے دنوں میں’’ طلسمِ ہوش رُبا‘‘ پڑھنے کا موقع ملا، اس میں ایک جادوگر کا نام بہزاد تھا۔ یہ نام مُجھے پسند آیا اور مَیں نے اپنا نام سردار کی جگہ بہزاد رکھ لیا اور پھر یہی میرا تخلّص ہوگیا۔
شاعری کا ذوق بھی مُجھے’’ طلسمِ ہوش رُبا‘‘ پڑھنے کے بعد ہی آیا۔ مَیں بارہ برس کی عُمر میں شعر کہنے لگا تھااور یہ اسی طلسم ہوش رُبا کا فیضان تھا۔ اس داستان میں جو غزلیں تھیں، وہ مَیں پڑھتا تھا۔ اُن کے معنی اور مطلب تو سمجھ میں نہیں آتے تھے، لیکن ہجر اور وصل کے معنی میں یہ سمجھنے لگا تھا کہ ہجر میں رونا ہوتا ہے، آہ و زاری ہوتی ہے، جب کہ وصل میں ایک کیف ہوتا ہے، لذّت ہوتی ہے۔ چناں چہ میں شعر کہہ لیا کرتا تھا اور موزوں کہتا تھا۔‘‘
بہزاد لکھنوی کی عُمر کوئی تیرہ چودہ سال ہوگی کہ ان کے محلے میں ایک مشاعرہ ہوا۔ یہ وہاں پہنچ گئے اور شعرا کی صف میں جاکر بیٹھ گئے۔ جب شمع گردش کرتے کرتے اُن کے سامنے پہنچی، تو انہوں نے اپنی غزل سُنانا شروع کی۔ کہتے ہیں ’’یقین مانیے، میری آواز کانپ رہی تھی، لیکن میرا ترنّم اتنا اچّھا تھا اور میرے شعر اتنے برجستہ تھے کہ شعرا نے اُٹھ کر مُجھے گلے لگالیا۔‘‘
اُس دَور کی شاعری کا ذکر کرتے ہوئے بہزاد لکھنوی کہتے ہیں کہ ’’تب لکھنٔو میں80 فی صد شعرا تھے۔ یعنی یہ کہ نام آپ کو کم اور تخلّص زیادہ معلوم ہوتے تھے، کیوں کہ زیادہ تر حضرات اپنے تخلّص ہی سے پکارے جاتے تھے اور ایک شغل تھا کہ ہر ہفتے کی رات کو وہ اپنا وقت مشاعرے میں کاٹا کرتے تھے۔ اساتذہ اپنا وسیع حلقہ رکھتے تھے۔ عام طور پر جو محافل ہوتی تھیں، اُن میں بھی شاعری کا چرچا رہتا تھا کہ فلاں شاعر نے فلاں مصرع خُوب کہا، فلاں لفظ یوں رکھا۔
چناں چہ اُس دَور میں کسی کا شاعر نہ ہونا تعجب کی بات تھی۔‘‘ ایک سوال کے جواب میں بہزاد لکھنوی کہتے ہیں کہ ’’غزل کہنے سے نعت کہنا کہیں زیادہ مشکل ہے۔ نعت گوئی میں تو معاملہ یہ ہے کہ بہت مؤدب ہوکر کہنا پڑتا ہے۔ نعت گوئی کا میدان بہت بڑا ہے، گرچہ مضامین وہی ہیں۔ یہ بڑا وسیع میدان ہے۔ اس میں جذبہ بھی ہے، کیفیت بھی ہے اور نسبت بھی۔ ایک دوسرا گوشہ ہے کنایہ کہ جس کی تعریف کی جائے، اُس کا نام نہ آئے بلکہ وہ تعریف اتنی منطبق ہو کہ معلوم ہو کہ فلاں کی تعریف ہے۔‘‘
ڈاکٹر سیّد رفیع الدین اشفاق ’’اردو کی نعتیہ شاعری‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’ بہزاد کے کلام میں صرف جذبات کی ترجمانی ہی نہیں پائی جاتی بلکہ ان کی والہانہ عقیدت مندی جہاں انہیں کیفیات کے اظہار کے لیے اُبھارتی ہے، وہیں حقیقت کا سَرِ رشتہ بھی ہاتھ سے چُھوٹنے نہیں پاتا۔ عقیدت اور حقیقت دونوں کی آمیزش نے سرور کائناتؐ کے حقیقی اوصاف کو ہمیشہ مضامین کی زینت بنایا۔
یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام میں وہ بے اعتدالیاں نظر نہیں آتیں، جنہیں عشق و محبت کے مذہب میں نعت گو شعرا نے روا اور جائز قرار دیا ہے۔وہ اکثر نعت گو شعرا کی طرح آپؐ کو عبدیت سے ہٹ کے معبود کے رنگ میں جلوہ گر کرنے کی کبھی کوشش نہیں کرتے۔ اس لیے غلو کی وہ صُورتیں مفقود ہیں، جن سے حضورؐ کے حقیقی اوصاف پر حرف آتا ہے اور ان ہی خصوصیات کی بنا پر حضرت بہزادؔ کا مقام جدید دَور کے نعتیہ غزل گو شعرا میں ممتاز ہے۔‘‘
سعید ہاشمی نے 1960ء کی دہائی میں جب ریڈیو پاکستان پر بہزاد لکھنوی کی تحریر کردہ دو نعتیں، ’’مدینے کو جائیں، یہ جی چاہتا ہے‘‘ اور ’’ہم مدینے سے اللہ کیوں آگئے‘‘ پڑھیں، تو یہ دونوں نعتیں ہی زبانِ زدِ عام ہو گئیں۔ انہوں نے ساری زندگی عشقِ رسولؐ ہی کو متاعِ حیات بنائے رکھا۔ 10اکتوبر 1974ء (23رمضان المبارک) کو بہزاد لکھنوی کا انتقال ہوا اور وہ سخی حسن قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔ اُن کے انتقال سے نعتیہ شاعری کا ایک عہدِ زرّیں ختم ہو گیا، لیکن اُن کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
بہزاد لکھنوی کی مشہور نعتیں
مدینے کو جائیں، یہ جی چاہتا ہے
مقدّر بنائیں، یہ جی چاہتا ہے
مدینے کے آقا ؐ، دوعالم کے مولاؐ
تیرے پاس آئیں، یہ جی چاہتا ہے
جہاں دونوں عالم ہیں محوِ تمنّا
وہاں سَر جُھکائیں، یہ جی چاہتا ہے
محمدؐ کی باتیں، محمدؐ کی سیرت
سُنیں اور سُنائیں، یہ جی چاہتا ہے
دِلوں سے جو نکلیں دیارِ نبیؐ میں
سُنیں وہ صدائیں، یہ جی چاہتا ہے
پہنچ جائیں بہزاد ؔجب ہم مدینے
خود کو نہ پائیں، یہ جی چاہتا ہے
٭٭٭٭٭
ہم مدینے سے اللہ کیوں آگئے
قلبِ حیراں کی تسکیں وہیں رہ گئی
دل وہیں رہ گیا، جاں وہیں رہ گئی
خم اُسی در پہ اپنی جبیں رہ گئی
اللہ اللہ وہاں کا درود و سلام
اللہ اللہ وہاں کا سجود و قیام
اللہ اللہ وہاں کا وہ کیفِ دوام
وہ صلوٰۃِ سکوں آفریں رہ گئی
جس جگہ سجدہ ریزی کی لذّت ملی
جس جگہ ہر قدم اُن کی رحمت ملی
جس جگہ نور رہتا ہے شام و سحر
وہ فلک رہ گیا، وہ زمیں رہ گئی
پڑھ کے نصر من اللہ فتح قریب
جب ہوئے ہم رواں سُوئے کُوئے حبیبؐ
برکتیں رحمتیں ساتھ چلنے لگیں
بے بسی زندگی کی یہیں رہ گئی
یاد آتے ہیں ہم کو وہ شام و سحر
وہ سکونِ دِل و جاں ،وہ رُوح و نظر
یہ اُنہی کا کرم ہے ،اُنہی کی عطا
ایک کیفیتِ دل نشیں رہ گئی
زندگانی وہیں کاش ہوتی بسر
کاش بہزادؔ آتے نہ ہم لوٹ کر
اور پوری ہوئی ہر تمنّا مگر
یہ تمنائے قلبِ حزیں رہ گئی