• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمارے پیارے نبی حضرت محمدﷺ کی سیرتِ مبارکہ اور عادات و معمولات رہتی دُنیا تک کُل عالمِ انسانیت کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ اللہ تعالی نے قرآنِ پاک میں ارشاد فرمایا کہ’’ تمہارے لیے نبیؐ کی ذات میں اسوۂ حسنہ ہے ۔‘‘ سرورِ دو جہاں حضرت محمد ﷺ کی زندگی کا کوئی گوشہ، کوئی پہلو ایسا نہیں کہ جس سے ہمیں رہ نمائی نہ ملتی ہو۔ 

سورۂ آل عمران میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ ’’کہہ دیجیے! اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری تابع داری کرو، خود اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ معاف فرما دے گا اور اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا مہربان ہے ۔‘‘ لہٰذا، ہمیں ہر حال میں آپؐ کی سیرت پر عمل کرنا چاہیے اور آپؐ کی سنّتوں کو اپنی زندگی کا حصّہ اور آپؐ کی عاداتِ مبارکہ کو اپنی شخصیت کا حصّہ بنانا چاہیے۔ بِلاشُبہ اس عمل سے ہماری ظاہری شخصیت میں بھی نکھار آئے گا اورہمارے باطنی حُسن میں بھی اضافہ ہو گا۔ نہ صرف ہمارے اندر کی دُنیا جگمگائے گی، بلکہ باہر کا ماحول بھی خُوب روشن ہو جائے گا۔‘‘

ہمارے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ کی ایک نمایاں عادت تبسّم فرمانا تھا۔ آپؐ نرم خُو تھے اور لوگ آپؐ کی صحبت میں خوشی اور شگفتگی محسوس کیا کرتے تھے۔ ہمہ وقت تبسّم کی عادت آپؐ کا نمایاں وصف تھی۔ آپؐ مسکراتے، تو آپ ؐکے خُوب صُورت دانت موتیوں کی مانند جھلملانےلگتے اور صحابۂ کرامؓ آپؐ کی ہر سُنّت پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کرتے۔ صحابۂ کرام رضوان اللہ اجمعین عبادات کی ادائی سمیت زندگی کے دیگر معاملات میں بھی رسولِ اکرمؐ کے اسوۂ حسنہ کی پیروی کرتے۔ 

مثال کے طور پر حضرت ابو درداہؓ پیارے نبیﷺ کی تبسّم فرمانے کی عادت پر اتنی شدّت سے عمل کرتے کہ اُن کے ہونٹوں پر ہمہ وقت مسکان سجی رہتی۔ حضرت ابو درداہؓ کی اس عادت کے پیشِ نظر ایک مرتبہ آپ ؓکی زوجۂ محترمہ نے کہا کہ ’’آپؓ ہمہ وقت مسکراتے رہتے ہیں، لوگ آپ کو دیوانہ سمجھیں گے؟‘‘جواباً حضرت ابو درداہؓ نے بے نیازی سے کہا۔ ’’ سمجھنے دو، یہ میرے محبوبؐ کی سُنّت ہے۔‘‘؎ جس کی تسکیں سے روتے ہوئے ہنس پڑیں… اس تبسّم کی عادت پہ لاکھوں سلام۔

اور آج عالم یہ ہے کہ عمومی طور پر سختی سے بھینچے ہوئے دانتوں اور سپاٹ و بے رونق چہرے کے ساتھ ہی دوسروں سے ملتے ہیں۔ اس دوران ہمارے ماتھے پر بَل ہوتے ہیں اور لہجہ سخت کرخت اور کھردرا ہوتا ہے۔ خواہ گھریلو زندگی ہو یا کاروباری معاملات، سختی اور دُرشتی گویا ہمارا مزاج بن گئی ہے۔

ہم انفرادی طور پر اور مِن حیث القوم بھی مسکرانا ہی بُھول چُکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گردو پیش کے لوگ ہم سے محبّت کرتے ہیں اور نہ ہم اُن سے۔غصّہ ہر وقت ہماری ناک پر دھرا رہتا ہے اور اگر کوئی ذرا سی خلافِ معمول بات ہو جائے، تو ہم یک دَم ہی آپے سے باہر ہو جاتے ہیں۔

اگر آپ اپنی اور دوسروں کی زندگی میں امن و سکون لانا چاہتے ہیں، تو ہر حال میں مسکرانے کی عادت اپنائیے اور اپنے پیارے نبی حضرت محمدﷺ کی اس سُنّت کو اپنی شخصیت کا حصّہ بنا لیجیے۔ یاد رہے کہ مسکراہٹ ہی درحقیقت آپ کی طرف سے دوسروں کے لیے خیر سگالی کاایک پیغام ہوتی ہے۔ انسانی نفسیات کی رُو سے ظاہری رویّے انسان کے باطن پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں ،تو جب ہم مسکراتے ہیں، تو ہمارے اندر موجود تلخی بھی کم ہوتی ہے۔ 

ہم خود کو ریلیکس اور پُر سکون محسوس کرتے ہیں اور ہمیں اپنی زندگی اچّھی لگنے لگتی ہے۔ ہمہ وقت ہنستے مسکراتے لوگ محافل کی جان اور خوشی کا سامان ہوتے ہیں اور لوگ ان کے ساتھ وقت گزارتے ہوئے اچّھا محسوس کرتے ہیں۔ لہٰذا، چاہے جاننے والے ہوں یا اَن جانے، آپ سب سے ہمیشہ مُسکرا کر ملیں۔ متبسّم چہرے کو اپنی پہچان بنائیں۔

اہلِ خانہ ہوں یا دوست احباب، عزیز رشتے دار ہوں یا کاروباری ساتھی، ان کے لیے مہربان بن جائیں اور نرمی کا رویّہ اپنائیں۔ اللہ کے نبی حضرت محمدﷺ نے فرمایا کہ ’’نرمی خیر لاتی ہے۔‘‘سو، جو دوسروں کے ساتھ نرمی اور رحم دلی کا معاملہ کرتا ہے، اللہ تعالیٰ بھی اُس سے نرمی اور خیر کا معاملہ فرماتا ہے۔

ہمارے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ کے اہلِ خانہ آپؐ سے شدید محبّت کرتے تھے اور آپ ؐ کی گھر آمد کے منتظر رہتے۔ آپؐ کے رُخِ انور کی دید اُن کے لیے باعثِ مسرّت ہوتی۔ آپؐ کے حسنِ اخلاق کا یہ عالم تھا کہ جو ایک مرتبہ آپؐ سے مل لیتا، وہ آپؐ کا گرویدہ ہو جاتا۔ تو آئیے، نبی کریم ﷺ کی اس ایک سُنّت پر آج ہی سے عمل کرنا شروع کردیں۔ مُسکرانے کی عادت اپنائیں اور نرمی کو اپنا مزاج بنائیں کہ دُنیا کو محبّت کی بھی ضرورت ہے اور مسرّت کی بھی۔ اور یوں بھی جو سُنّتِ رسولؐ پر عمل کرتا ہے، ربّ بھی اُس سے راضی رہتا ہے۔