• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
معروف و منفرد خطّاط، واصل شاہد سے بات چیت
معروف و منفرد خطّاط، واصل شاہد سے بات چیت

بات چیت: منور راجپوت

واصل شاہد کا شمار مُلک کے صفِ اوّل کے خطّاطوں میں ہوتا ہے۔ اُنہیں یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ پاکستان میں خطّاطی کی پہلی قومی و عالمی نمائشیں اُن ہی کی کوششوں سے ہوئیں، جب کہ خود اُن کے فن پاروں کی بھی گزشتہ کئی برسوں سے مسلسل نمائشیں منعقد ہو رہی ہیں۔ 

وہ ٹی وی چینلز پر لائیو خطّاطی کا مظاہرہ بھی کرتے ہیں، جب کہ اُن کے فن کی ایک انفرادیت سونے کے ورق کا کام بھی ہے، جو پاکستان میں شاید ہی کوئی دوسرا خطّاط کرتا ہو۔ نیز، کئی اعزازات بھی حاصل کرچُکے ہیں۔ گزشتہ دنوں اُن کے ساتھ ایک خصوصی نشست ہوئی، جس میں ہونے والی بات چیت جنگ،’’سنڈے میگزین‘‘ کے قارئین کی نذر ہے۔

س: اپنے خاندان، ابتدائی تعلیم و تربیت سے متعلق کچھ بتائیے؟

ج: میرا تعلق لاہور کے نواحی علاقے، کوٹ رادھا کشن سے ہے۔ گھر والے چاہتے تھے کہ بچّہ ڈاکٹر یا انجینئر بنے، تو گورنمنٹ کالج یونی ورسٹی، لاہور سے اسپیس سائنسز میں بی ایس سی، جب کہ نمل یونی ورسٹی سے کمیونی کیشن اسٹڈیز میں ایم ایس سی کیا۔ 

بعدازاں، گھر والوں ہی کی خواہش پر پانچ برس ملازمت بھی کی، مگر وہ مزاج سے مطابقت نہیں رکھتی تھی۔دل فنونِ لطیفہ کی طرف مائل تھا۔بالآخر فیصلہ کیا کہ زندگی بَھر اس نوکری کا بوجھ نہیں اُٹھاسکتا۔سو، ملازمت کو خیرباد کہہ کر خطّاطی پر توجّہ مرکوز کرلی۔

س: یہ خطّاطی کا فن کس سے سیکھا؟

ج: یوں سمجھ لیں کہ بچپن ہی سے خطّاطی کا شوق تھا کہ اسکول میں تختی لکھتے ہوئے بہت مزہ آتا۔پھر بڑے بھائی نے لکھنے میں بہت رہنمائی کی، تو اسکول میں ہمارے استاد، عتیق احمد ہر ہفتے خطّاطی کا مقابلہ کرواتے اور جیتنے والے طالبِ علم کو پانچ روپے انعام بھی دیا کرتے۔رفتہ رفتہ شوق بڑھتا گیا۔ جب ہائی اسکول پہنچا، تو خود ہی پین کاٹ کر لکھنا شروع کردیا کہ تختی کا کام تو ختم ہوچکا تھا۔ 

پھر بانس کے قلم سے لکھنا شروع کیا۔بی ایس سی اور ماسٹرز کے دوَران بھی خطّاطی کا سلسلہ جاری رہا۔مَیں نے باقاعدہ طور پر کسی کی بھی شاگردی اختیار نہیں کی، البتہ بہت سے خطّاطوں سے تعلقات ضرور تھے اور اُن کا کام دیکھنے کا موقع ملتا رہتا تھا۔ مجھے لاہور کے محمّد علی زاہد کا کام بے حد پسند ہے اور بعض معاملات میں اُن سے اصلاح بھی لی۔

س: فنِ خطّاطی میں آپ کی انفرادیت کیا ہے؟

ج: دراصل پاکستان میں یہی تصوّر ہے کہ خطاّطی وہی ہے، جو صادقین یا گل جی نے کی۔ بلاشبہ، وہ اعلیٰ پائے کی خطّاطی ہے، تاہم ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ مغربی دنیا میں مقبول خطّاطی درحقیقت وہ پینٹنگز ہیں، جن میں خطّاطی کے حروف و الفاظ بھی استعمال کیے گئے۔ مطلب، بنیادی طور پر اُن میں پینٹنگ کے اصولوں کا اطلاق ہوا، خطّاطی کے اصول و ضوابط کا کچھ خاص خیال نہیں رکھا گیا۔

یعنی صادقین اور گل جی نے پینٹنگ کے اصولوں کے مطابق کام کیا ہے اور اُن کی خطّاطی ، بنیادی طور پر مصوّرانہ خطّاطی ہے۔ اِس سے لوگوں کو یہ تو پتا چلا کہ خطّاطی بھی ایک بہت بڑا فن ہے اور اُنھیں پذیرائی بھی ملی، مگر جو حقیقی خطّاطی ہے، جو سعودی عرب، تُرکی یا ایران میں ہوتی ہے، وہ یہ نہیں ہے۔روایتی خطّاطی باقاعدہ اصول و ضوابط کی پابند ہے۔ جیسے نستعلیق، بہت اچھا خط ہے اور اردو، فارسی دونوں میں مستعمل ہے، جب کہ اب عربی میں بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔ 

پھر نسخ ہے، جس میں قرآنِ پاک لکھا جاتا ہے۔ خطِ ثلث ہے، جس سے غلافِ کعبہ وغیرہ پر خطّاطی کی گئی ہے، تو وہی اصل خطّاطی ہے اور مَیں یہی خطّاطی کرتا ہوں۔ اِس میں دو امور اہم ہیں۔ ایک تو اصولوں کا بہت خیال رکھنا پڑتا ہے اور دوم، کمپوزیشن ، جو خط سے بھی مشکل کام ہے۔ مثال کے طور پر آپ کوئی آیتِ مبارکہ لکھنا چاہتے ہیں، تو اس میں اصول تو تمام اپنانے ہوں گے، مگر اسے اُس کمپوزیشن( انداز) میں نہیں لکھنا، جو پہلے اختیار کی جاچکی ہو۔

مطلب اپنی الگ کمپوزیشن یا مخصوص انداز اختیار کرنا ہوتا ہے۔ مَیں خطِ ثلث میں کام کرتا ہوں۔ میری خطّاطی کی ایک پہچان تو منفرد کمپوزیشن ہے اور دوم، سونے کے ورق کے ساتھ کام، جو کہ ظاہر ہے، خاصا مشکل اور بے حد پیچیدہ کام ہے۔ جب ہم کلامِ الہٰی کی خطّاطی کرتے ہیں، تو جیسے یہ کلام سب سے اعلیٰ و ارفع ہے، تو اس کے لیے میڈیم بھی اعلیٰ سے اعلیٰ اختیار کیا جانا چاہیے۔ اِسی لیے مَیں سب سے بہترین میڈیم، جو مجھے میسّر ہو سکتا ہے، استعمال کرتا ہوں۔

جہاں تک اشعار کی بات ہے، تو مَیں اشعار کے الفاظ کی بجائے اُن میں موجود افکار و خیالات کی عکاّسی کرتا ہوں۔ دیکھیں، ایک حُسن ہے مادّے یا فطرت کا، جیسے پہاڑ، درخت، آب شاریں، آسمان، پرندے وغیرہ۔یعنی اُن کا مادّی وجود ہے، جب کہ معرفت یا صوفیانہ فلاسفی مادیت نہیں، روحانیت پر مبنی ہے، تو خطّاطی کے حروف بھی مادّی وجود نہیں رکھتے، جیسے ج، ا، ن، ق وغیرہ۔ اِسی لیے کہتے ہیں کہ’’ خطّاطی، روح کی جیومیٹری ہے۔‘‘پھر یہ کہ جب تک آپ اپنی رُوح سے نہیں جُڑیں گے یا رُوح کے ساتھ شناسائی نہیں ہوگی، خطّاطی کی کمپوزیشن نہیں ہو سکتی۔تو مَیں نے حروف کی خطّاطی کی ہے، نہ کہ پورا شعر لکھ دیا یا مصوّری کی طرف چلا گیا۔

س: اب تک کتنی نمائشوں میں اپنے فن پارے پیش کرچُکے ہیں؟

ج: میرے فن پاروں کی پہلی نمائش 2007ء میں اُس وقت ہوئی، جب مَیں گورنمنٹ کالج یونی ورسٹی، لاہور کا طالبِ علم تھا۔ اُس نمائش کا موضوع’’ صوفی ازم‘‘تھا۔ مَیں نے پڑھا تھا کہ بلّھے شاہ کہتے ہیں۔’’ عِلموں بس کریں او یار!‘‘ تو مَیں نے سوچا، وہ ایسا کیوں کہتے ہیں، جب کہ باقی دنیا تو علم کو پاور کہتی ہے۔ اِس تحقیق نے مجھے تخلیق کے سفر پر ڈالا۔ مَیں سمجھا، وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ کبھی اپنے قلب کی طرف بھی توجّہ دو، جو محبّت کا پیاسا ہے، ہر وقت علم ہی کو خود پر نہ لادے رکھو۔ دل تعلق مانگتا ہے، دلیل نہیں۔ 

عقل، دلیل سے کاٹ دیتی ہے، جب کہ دل، محبّت سے لوگوں کو جوڑ دیتا ہے۔علم اِتنا کافی ہے، جو بندے کو اللہ سے جوڑے۔اِسی طرح اُنھوں نے’’ اِک نقطے وچ گل مُکدی اے‘‘ میں ایک خاص پیغام دیا ہے۔ میری دوسری نمائش’’عکس‘‘ اسلام آباد میں 2015ء میں ہوئی، جس کا موضوع’’ ھو‘‘ تھا۔

اِس میں قرآنِ پاک کی اُن آیات کا انتخاب کیا گیا تھا، جو لفظ’’ ھو‘‘ سے شروع ہوتی ہیں، جب کہ سلطان باہو کے کلام میں بھی یہ لفظ کثرت سے استعمال ہوا ہے۔ ’’ھو‘‘ میں دراصل دوئی، ایک خاص قسم کا درد ہے اور اُس وقت مَیں بھی درد کی ایک کیفیت سے گزر رہا تھا۔ 

اُن دِنوں پرویز رشید وفاقی وزیرِ اطلاعات و نشریات تھے اور ہماری دعوت پر اُنھوں نے اس نمائش کا افتتاح کیا، جس کی زبردست میڈیا کوریج بھی ہوئی اور اُسے دیکھ کر گھر والے بھی بہت خوش ہوئے اور کہا کہ’’ٹھیک ہے، اب یہی کام کرلو۔‘‘ اِس نمائش کے بعد مجھے پہلی بار پاکستان سے باہر بھی مدعو کیا گیا۔ نیز، 2017ء سے ہر سال نبی کریمﷺ کی ولادتِ باسعادت کی مناسبت سے9 سے 12 ربیع الاوّل، اسلام آباد کے سینٹورس مال میں اپنی انفرادی نمائش کرتا آ رہا ہوں۔

س: آپ کو پاکستان میں پہلی قومی و بین الاقوامی خطّاطی کانفرنسز کے انعقاد کا اعزاز بھی حاصل ہے،وہ کیا قصّہ ہے؟

ج: 2015ء کی نمائش کے بعد مَیں اپنے گاؤں میں تھا کہ ایک روز موبائل فون پر پیغام ملا۔’’ الجزائر میں او آئی سی کے اشتراک سے خطّاطی کی ایک بین الاقوامی کانفرنس ہو رہی ہے، کیا آپ پاکستان کی نمائندگی کے لیے اُس میں شریک ہوسکتے ہیں؟‘‘ اُنھوں نے کسی ذریعے سے میرا کام دیکھا تھا۔ بہرحال، جب تصدیق ہوگئی کہ وہ واقعی وہاں کی وزارتِ ثقافت کے حکّام ہیں، تو پھر مَیں نے بھی بات آگے بڑھائی۔ 

یوں چند دنوں میں ویزے، ٹکٹ کے امور طے ہوگئے۔ وہاں45ممالک کے خطّاط آئے ہوئے تھے۔ مجھے خیال آیا کہ جب ایک چھوٹا مُلک اِتنا بڑا ایونٹ منعقد کرسکتا ہے، تو ہم ایسا کیوں نہیں کرسکتے؟ اِس ضمن میں سینیٹر عرفان صدیقی صاحب سے ملاقات کی اور پھر اُن کی دل چسپی اور تعاون سے حکومتی سطح پر’’ ن والقلم‘‘ کے عنوان سے 2017ء میں پہلی’’قومی خطّاطی کانفرنس‘‘ ہوئی۔

اُسے مَیں نے ہی آرگنائز کیا اور اُس میں مُلک بَھر کے خطّاط مدعو کیے گئے۔ یہ پانچ روزہ نمائش، دراصل عالمی نمائش کی ریہرسل تھی۔ پھر اُسی برس اگست میں ہم نے پہلی بین الاقوامی نمائش کا انعقاد کیا، جس میں تُرکی، ایران، الجزائر، مراکش، تنزانیہ اور عرب امارات سمیت 33 ممالک کے خطّاطوں کا کام سامنے آیا۔ اور مسلم لیگ نون کی حکومت نے ایک ہفتے تک غیر مُلکی مہمانوں کی میزبانی کی۔

س: آپ کے کام کی کس کس انداز سے پذیرائی ہوئی اور ایک فن پارہ موماً کتنے تک میں فروخت ہوتا ہے؟

ج: وزیرِ اعظم ہاؤس سمیت کئی اہم سرکاری دفاتر میں میرے فن پارے آویزاں ہیں۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے مزارِ مبارک پر’’مقام صاحب الزماں‘‘ میں میرے دو فن پارے لگائے گئے ہیں۔ امامِ کعبہ کو اپنا کام پیش کیا، تو اُنھوں نے اُسے بہت سراہا۔ 

میاں محمّد نواز شریف نے تُرکی کے صدر، طیّب اردوان کو میرا فن پارہ پیش کیا، جب کہ صدر ممنون حسین نے مجھے ایوارڈ سے بھی نوازا۔ اِس کے علاوہ، عوام کی جانب سے ملنے والی پذیرائی تو میرا اثاثہ ہے۔ پھر کینیڈا، امریکا اور آسٹریلیا میں میرا کام جا رہا ہے اور جہاں تک قیمت کا تعلق ہے، تو ایک فن پارے کی دو سے چھے لاکھ تک قیمت ہوتی ہے۔

س: پرائمری اسکول میں استاد سے صرف تختی لکھنا سیکھی اور آ کام میں اِس قدر مہارت آگئی، تو یہ سب کیسے ممکن ہوا؟

ج: شوق، ریاضت اور عشق سے۔ ابتدائی دنوں میں قومی ٹی وی کی سحری نشریات میں وصی شاہ کے ساتھ لائیو کیلی گرافی کا موقع ملا۔ مَیں اُن دنوں اسلام آباد میں ملازمت کر رہا تھا، جب کہ پروگرام لاہور مرکز سے ہوتا تھا۔ تو مَیں روزانہ شام چھے بجے ٹرین کے ذریعے اسلام آباد سے لاہور جاتا، رات گیارہ بجے وہاں پہنچتا، ضروری تیاری کے بعد رات ایک بجے اسٹوڈیو پہنچ جاتا۔

صبح پانچ بجے تک لائیو نشریات میں اپنے فن کا مظاہرہ کرتا، پھر سحری اور نماز کے بعد سیدھا ریلوے اسٹیشن جاتا اور صبح گیارہ بجے اسلام آباد اپنا آفس جوائن کرلیتا۔ شام کو پھر وہی شیڈول ہوتا۔ یوں روزے کی حالت میں تین ہفتوں تک روزانہ اِسی طرح سفر کیا اور نیند ٹرین میں پوری کی۔

س: اب خطّاطی روحانی تسکین کے لیے کرتے ہیں یا یہ ذریعۂ معاش ہے؟

ج: مَیں کمرشل نہیں، پروفیشنل آرٹسٹ ہوں۔ کمرشل آرٹسٹ مارکیٹ کی ڈیمانڈ کے مطابق کام کرتا ہے، جب کہ پروفیشنل آرٹسٹ اپنے مَن کے مطابق۔ مارکیٹ اُس کی طرف آئے، نہ آئے، اُسے اس سے سروکار نہیں ہوتا۔ مَیں نے ہمیشہ اپنی مرضی اور انداز سے کام کیا اور الحمدللہ، مارکیٹ میں بھی جگہ بن گئی۔

س: عموما! آرٹ گیلریز خطّاطوں کا استحصال کرتی ہیں اور نئے لوگوں کو آگے نہیں آنے دیتیں، کیا یہ تاثر درست ہے؟

ج: نہیں، ایسا نہیں ہے۔ مَیں گیلریز کے کردار کو منفی طور پر نہیں دیکھتا۔ دیکھیں، خطّاطی ایک فن ہے اور مارکیٹنگ ایک بالکل الگ شعبہ۔ اگر آپ کمرشل کام کرنا چاہتے ہیں، تو اپنی آرٹ گیلری بنالیں، نوآموز فن کاروں سے بھی کام لے کر بیچیں۔ یعنی خود مِڈل مین بن جائیں۔ لیکن اگر آپ صرف آرٹسٹ ہی ہیں اور آپ کی سب سے بڑی صلاحیت تخلیقیت ہے، تو پھر اپنے کام کے معیار میں اضافے پر فوکس رکھیں۔ گیلریز حق تلفی نہیں کرتیں، بلکہ آپ کی برانڈنگ کر رہی ہوتی ہیں۔ 

آپ کا کام لوگوں تک پہنچاتی ہیں۔ میری پہلی کاوش ایک گیلری ہی نے فروخت کی تھی۔ اگر وہ اس رقم میں سے بیس، تیس ہزار رکھ لیں، تو اس میں اعتراض کی کیا بات ہے۔ لوگوں نے مجھے گیلری ہی کے ذریعے دیکھا، ورنہ اگر لوگ خود مجھے تلاش کرتے، تو پچاس، سو ہی مجھ تک پہنچ پاتے، لیکن گیلری نے میرا کام پانچ ہزار افراد تک پہنچا دیا۔ ہماری خوش قسمتی ہے کہ پاکستان میں آرٹ اسٹیبلشمینٹ زیادہ مضبوط نہیں۔

مَیں تلہ گنگ کے ایک ایسے غیر معروف آرٹسٹ کو جانتا ہوں، جس کی ایک گیلری نے نمائش کروائی اور تین دنوں میں اُسے کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔ ایسی گیلریز بہت کم ہیں، جو صرف معروف آرٹسٹس ہی کے بَل پر چلتی ہیں اور نئے افراد کو موقع نہیں دیتیں۔ کووِڈ کے دِنوں میں کئی خطّاطوں کے مالی حالات بہت خراب تھے، جن کی گیلریز نے مدد کی۔

س: آپ کی پہلی آمدنی کتنی تھی؟

ج: مَیں نے اسلام آباد کی ایک گیلری کو اپنا کام دِکھایا، تو اُنھوں نے میرے دو فن پارے اپنے پاس رکھ لیے اور اگلے ہی دن فون آگیا کہ آپ کا کام ایک لاکھ، ساٹھ ہزار روپے میں فروخت ہوگیا ہے، جب کہ مَیں پچاس ہزار کی بھی توقّع نہیں کر رہا تھا۔ اُس وقت ملازمت بھی نئی نئی چھوڑی تھی، جیب بھی خالی تھی، تو اس اچانک آمدنی سے بہت خوشی ہوئی، جس کی لذّت آج تک محسوس کرتا ہوں۔

س: ایک اچھے خطّاط میں کیا خوبیاں ہونی چاہئیں؟

ج: سب سے پہلے تو وہ تخلیقی مزاج کا حامل ہو۔ سیکھنے کے لیے تو کسی کے بھی کام کی نقل کی جاسکتی ہے، مگر جب آپ خود کو آرٹسٹ کہلاتے ہیں، تو پھر کری ایٹیو ہونا چاہیے۔ پھر یہ کہ مطالعہ، مشاہدہ اور مجاہدہ ضروری ہے۔نیز، چوں کہ آپ الفاظ و حروف کے ساتھ جُڑتے ہیں، جو عموماً کلامِ الہٰی پر مشتمل ہوتے ہیں، تو وجود کے ساتھ خیال کی پاکیزگی بھی ضروری ہے۔ اس سے ایک تو یہ کام آسان ہوجاتا ہے اور پھر اس کے روحانی فیض سے بھی لُطف اندوز ہوا جاتا ہے۔ 

اگر خیال میں پاکیزگی نہیں، تو ذات میں بھی پاکیزگی نہیں ہوگی۔ ہاں، اگر کوئی شخص درست نیّت سے یہ کام کرتا جائے، تو اس کی برکت سے بھی وہ پاکیزہ ہوجاتا ہے۔ تیسری صفت صبر و استقامت ہے۔ اگر کام مارکیٹنگ یا مقبولیت کے لیے کرنا ہے، تو پھر خطّاطی چھوڑ کر کوئی اور کام کرلیں، لیکن اگر خطّاطی ہی کرنی ہے، تو پھر مقبول ہونے کے لیے نہیں، بارگاہِ الہٰی میں قبول ہونے کے لیے کیجیے۔ جب قبولیت ہوگئی، تو پھر مقبولیت کی کیا فکر۔

س: پاکستان میں حکومتی سطح پر خطّاطی سِکھانے کے کتنے ادارے ہیں اور کیا آپ بھی یہ فن منتقل کر رہے ہیں؟

ج: ایک بھی ادارہ نہیں ہے۔ ہم اسلام آباد میں ایک ادارہ بنوانے میں کام یاب ہوگئے تھے، جس کے لیے عرفان صدیقی صاحب نے شاہد خاقان عباسی کی کابینہ سے منظوری بھی لے لی تھی، مگر نون لیگ کی حکومت کے خاتمے کے بعد کام رُک گیا۔ یونی ورسٹیز میں خطّاطی کا چارسالہ ڈگری پروگرام ہونا چاہیے، جس میں سرچ، تھیو فلاسفی، تاریخ، تہذیب اور مستقبل سب آجائے گا۔ خطّاطی ڈپلومیسی کا بھی ایک اہم ٹُول ہے۔ 

بھارت میں پچھلے سال حکومتی سرپرستی میں ایک نمائش ہوئی،جس میں دس ممالک کے خطّاط بُلوائے گئے۔ اُنھوں نے اس کے ذریعے خاص طور پر عربوں کو پیغام دیا کہ بھارت ایک ملٹی کلچرل مُلک ہے۔ مَیں400 سے زاید طلبہ کو آن لائن کورسز کی صُورت خطّاطی سِکھا چکا ہوں، جن میں آسٹریلیا، سنگاپور، بھارت، نیپال، روس، آئرلینڈ، سویڈن، دبئی، امریکا اور کینیڈا کے طلبہ شامل ہیں۔

کئی غیر مسلم بھی کیلی گرافی سیکھ رہے ہیں، خصوصاً کوِوڈ میں خطّاطی سیکھنے کا رجحان بڑھا اور خواتین اس میں بہت دل چسپی لے رہی ہیں۔ خود مَیں ایک ایسا ادارہ بنانا چاہتا ہوں، جس میں اسٹوڈیو بھی ہو اور گیلری بھی۔

س: اب تو دوپٹّوں وغیرہ پر بھی خطّاطی ہو رہی ہے، اِس ضمن میں آپ کی کیا رائے ہے؟

ج: یہ اس کا مقام نہیں ہے۔ جو فن ہمارے ماتھے کا جھومر ہو، اُسے یوں لباس بنانا مناسب نہیں۔ ہاں، برتنوں، آرائشی اشیاء وغیرہ پر خطّاطی کرکے اُنھیں سجاوٹ کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اب دیکھیں، اگر کوئی غلام علی خان جیسے بڑے گائیک کو کسی چورنگی پر بِٹھا کر کہے کہ یہاں سے بہت لوگ گزرتے ہیں، آپ یہاں بیٹھ کر گائیں، تو یہ اُن کا مقام تو نہیں۔ اس طرح تو آپ اُن کی شخصیت اور فن کا مذاق اُڑائیں گے۔ اِسی طرح خطّاطی بھی بہت بڑا فن ہے، اُس کے تقدّس و احترام کا خیال رکھنا چاہیے۔

س: پاکستان میں خطّاطی کا مستقبل کیا دیکھ رہے ہیں، اِس کے ذریعے روزی روٹی کمانا ممکن ہے؟

ج: جس معاشرے میں ڈھائی کروڑ بچّے اسکولز سے باہر ہوں، معاشرے میں علمی رویّے نہ ہوں، وہاں فن اور تخلیق کی بات کرتے ہوئے عجیب ہی محسوس ہوتا ہے۔ معاشروں کا تعلیم یافتہ اور تہذیب یافتہ ہونا ضروری ہے، جب کہ ہم تو ابھی تعلیم یافتہ ہی نہیں ہوئے، تو تہذیب سے جنم لینے والے علوم و فنون کی پزیرائی کیا کریں گے۔بہرحال، اِس پس منظر میں سفر مشکل تو ہے، مگر ناممکن نہیں۔ حکومت خطّاطی کی صرف چارسالہ ڈگری متعارف کروادے، اس کے بعد دیکھیے گا، معاشرہ کیسے بدل جائے گا۔ 

بیجنگ میں ہر اتوار کو’’ آرٹ بازار‘‘ کے نام سے ایک بازار لگتا ہے، تو ہمارے ہاں بھی بڑے شہروں میں عوامی مقامات پر ہر ہفتے ایسے بازار لگنے چاہئیں، جہاں دس، پندرہ خطّاط بٹھا دئیے جائیں اور لوگ اُن سے اپنے نام، شجرۂ نسب وغیرہ لکھوائیں۔ اِس سے نئی نسل میں شوق بڑھے گا اور لوگوں کو روزگار بھی ملے گا۔ جاپانی کیلی گرافی میں بھی ایسے کام ہو رہے ہیں۔

ویسے اگر معاشی پہلو ایک طرف رکھ کے انسانی اور اخلاقی پہلوؤں سے بات کریں، تو اچھے انسان ہوں گے، تو معاشرت بھی اچھی ہوگی کہ خطّاطی تخلیقی رویّوں کی پرورش ہی نہیں کرتی، فرد اور معاشرے کی تعمیر و اصلاح بھی کرتی ہے۔