پاکستان کی سب سے بڑی بد قسمتی یہ ہے کہ یہاں قانونی ، آئینی اور فطری سیاسی عمل کو ہمیشہ روکنے کی کوشش کی گئی ہے۔ جس کی وجہ سے معاشرتی اقدار کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے اور سیاست، جمہوری سوچ رکھنے والوں کی بجائے ایسے غیر سیاسی اور غیر جمہوری افراد کے ہاتھ میں چلی گئی ہے جنہوں نے اپنے وقتی ذاتی مفادات کی خاطر نفرت، تشدّد اور تقسیم کی سیاست کو فروغ دیا۔ یوں ہمارا ملک اس وقت دنیا کے ان ممالک میں سرِ فہرست ہے جہاں سب سے زیادہ سیاسی عدم استحکام اور اخلاقی ابتری پائی جاتی ہے ۔ جس کا حالیہ مظاہرہ 8ستمبر کو ہونے والے پی ٹی آئی کے اسلام آباد میں ہونے والے جلسے میں دیکھا جا سکتا ہے۔ جہاں کے پی کے وزیرِ اعلیٰ علی امین گنڈا پور سمیت کئی پی ٹی آئی رہنمائوں نے اپنے مخالفین خصوصاََ خواتین پر کئی غیر اخلاقی حملے کئے صرف یہی نہیں بلکہ پنجاب پر لشکر کشی تک کی باتیں کی گئیں۔ ہمارے ہاں سیاسی ماحول پہلے بھی کوئی بہت زیادہ حوصلہ افزا نہیں رہا لیکن عمران خان کی سیاست میں آمد اور ’’عمران پروجیکٹ‘‘ کی لانچنگ کے بعد سیاسی اخلاقیات جس تیزی سے زوال پذیر ہوئی ہیں اس نے معاشرتی تقسیم کو خطرناک حد تک گہرا کر دیا ہے اور لاقانونیت کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ علی امین گنڈا پور کا عمران خان کو بزورِ طاقت اڈیالہ جیل سے رہا کروانے کی دھمکی دینااور پنجا ب پر حملہ آورہونے اور راستے میں آنے والی ہر طاقت کو تہس نہس کر دینے کا اعلان کرنا جہاں انتہائی غیر ذمہ دارانہ طرزِ عمل کا مظاہرہ ہے وہاں لاقانونیت، تشدّد اور صوبائی نفرتیں بڑھانے کی ایک مذموم کوشش بھی ہے۔ عمران خان کی سیاست میں آمد کے موقع پر بعض خوش گمان لوگوں کا خیال تھا کہ جمہوریت کے گہوارے برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی کا سابق طالب علم اور ایک اسپورٹس مین ہونے کے ناطے سے ہماری سیاست میں بھی سنجیدگی، تہذیب اور وقار آئے گا لیکن عمران خان نے اپنے جلسوں میں مخالفین کے خلاف جو زبان استعمال کی، انکے نام بگاڑے اور اپنے پیروکاروں کو جس تنگ نظری، نفرت اور بد لحاظی کا سبق دیا۔ اس نے ثابت کردیا ہے کہ نہ تو اس پر آکسفورڈ اور برطانوی جمہوری روایات کا کوئی اثر ہوا ہے اور نہ ہی اسپورٹس مین ہونے کے باوجود، اس کھلاڑی میں اسپورٹس مین سپرٹ کا کوئی وجود ہے۔ اس کا سوشل میڈیا جھوٹ، افترا پردازی اور جعلسازی کا مرکز بن چکا ہے۔ دوسرے ممالک اور واقعات کو اپنے مقاصد میں استعمال کرنے میں تو اس کا کوئی ثانی ہی نہیں یہاں تک کہ سابق صدر عارف علوی نے بھی دوسرے مقامات اور مواقع کی تصاویر حالیہ جلسے کے حوالے سے سوشل میڈیا پر غلط طور پر لگا دیں اور جب ان فیک تصاویر کا بھانڈا پھوڑا گیا تو انہیں معذرت کے ساتھ ان تصاویر کو ڈیلیٹ کرنا پڑا۔ عمران خان نہ صرف خود جھوٹ بولنے (جسے یوٹرن قرار دے کر فرماتے ہیں کہ ہر بڑا لیڈر یوٹرن لیتا ہے) کو جائز سمجھتا ہے بلکہ اُن لوگوں کو پسند کرتا ہے جو نفرت، جھوٹ اور تقسیم کے ماہر ہیں۔ اس کےپونے چار سالہ دورِ اقتدار میں ایسے ہی غیر ذمہ دار افراد اس کے قریبی ساتھی تھے۔ جنہوں نے مخالفین کے خلاف جھوٹے مقدمات بنانے اور اس کے ذاتی اقتدار کو مضبوط بنانے میں ہر طرح کا غیر قانونی کردار ادا کرنے کا فریضہ نبھایا۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ انتظامی ابتری، معاشی تباہی، کرپشن میں 24درجے اضافے، اپنی زوجہ کے ذریعے حکومتی امور میں بدترین اقربا پروری اور تباہ کن خارجہ پالیسی، جس نے سی پیک جیسے منصوبے کو غیر فعال بنا دیا اور ہمیں اپنے دیرینہ دوست ممالک سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات اور چین سے دور کر دیا۔ عمران خان کو نجات دہندہ ثابت کرنے کیلئے اس کی سوشل میڈیا ٹیم نے نوجوان نسل کو گمراہ کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی ۔ کسی کو یہ سوچنے کے قابل نہیں رہنے دیا کہ جو شخص ریاست ِ مدینہ کا داعی ہے اور مذہب کو اپنے مذموم مقاصد کیلئے استعمال کر رہا ہے۔ اس نے لندن کے مئیر کے انتخابات میں اپنے ہم وطن مسلم امیدوار محمد صادق کی بجائے اپنے یہودی سابق برادرِ نسبتی زیک گولڈ سمتھ کی حمایت کیوں کی اور وہ اسکی انتخابی مہم چلانے بنفسِ نفیس لندن کیوں گیا۔ اس کے اپنے بچے یہودی خاندان میں کیوں پرورش پا رہے ہیں۔ اس کا جواب اب حال ہی میں اسرائیل ٹائمز میں چھپنے والے ایک آرٹیکل سے مل گیا ہے جس میں واضح طور پر لکھّا گیا ہے کہ عمران خان پاکستان کا وہ واحد سیاستدان ہے، جو اسرائیلی ریاست کو تسلیم کرنے میں یہودیوں کی مدد کر سکتا ہے۔ اس لیے یہودیوں کے تمام مغربی بہی خواہوں کا فرض ہے کہ چاہے وہ کچھ بھی کریں۔ عمران خان کو قید سے آزاد کروائیں اور اسے پاکستان میں برسرِ اقتدار لانے میں اس کی مدد کریں۔ یہی وہ الزامات تھے جو آج سے کئی سال پہلے حکیم محمد سعید اور ڈاکٹر اسرار احمد لگا چکے تھے لیکن دی اسرائیل ٹائمز اسرائیلی حکومت کا ترجمان اخبار ہے۔اس میں شائع ہونے والا یہ مضمون الزامات پر نہیں صیہونی ریاست کی خواہشات پر مبنی ہے۔ کیا عمران خان لورز پاکستان کو اب بھی عمران خان کی محبت پر قربان ہونے دیں گے تاکہ دورِ حاضر کے بدترین چنگیز خان اسرائیل کی بالادستی قائم ہو سکے جو غزہ کے پچاس ہزار سے زیادہ بیگناہ شہریوں کا قاتل ہے جس میں اکثریت معصوم بچوں کی ہے۔ آج کا شعر
ہر دور میں ہوا یہاں بچوں کا قتلِ عام
موسیٰ مگر فرعون سے مارا نہیں گیا