بجلی کی قیمت میں مسلسل اضافے سے جہاں عام شہری پریشان ہیں وہیں انڈسٹری کو بھی پیداواری لاگت میں اضافے کے باعث مشکلات کا سامنا ہے۔ ان حالات میں عام شہریوں، کاروباری افراد، صنعتی حلقوں اور سیاسی جماعتوں کی طرف سے نجی بجلی گھروں سے معاہدوں پر نظرثانی کا مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ نجی بجلی گھروں سے کئے گئے معاہدوں میں انہیں پیدا کی گئی بجلی کی ادائیگی کرنے کی بجائے پیداواری صلاحیت کی بنیاد پر ’’کیپسٹی چارجز‘‘ کی ادائیگی کی گارنٹی دی گئی ہے۔
ان یکطرفہ معاہدوں کے تحت نجی بجلی گھر بجلی پیدا کریں یا نہ کریں لیکن انہیں اپنی نصب شدہ پیداواری صلاحیت کی بنیاد پر ’’کیپسٹی چارجز‘‘ کی مد میں ادائیگی ہوتی رہتی ہے۔ اس پر مستزاد یہ ہے کہ یہ ادائیگیاں مقامی کرنسی یعنی روپے کی بجائے ڈالر میں کی جاتی ہیں جس کی وجہ سے صارفین کو ناصرف غیر استعمال شدہ بجلی کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑتی ہے بلکہ انہیں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں ہونے والی کمی کا اضافی بوجھ بھی برداشت کرنا پڑتا ہے۔ علاوہ ازیں بہت سے نجی بجلی گھر درآمدی فیول پر چلائے جاتے ہیں اور اس فیول کی درآمد پر بھی زرمبادلہ خرچ ہوتا ہے اس طرح یہ معاہدے کسی بھی شکل میں صارفین کیلئے منصفانہ قرار نہیں دیئے جا سکتے ۔ علاوہ ازیں جس وقت نجی بجلی گھروں سے یہ معاہدے کئے گئے تھے اس وقت پاکستان میں بجلی کا بحران تھا اور کئی کئی گھنٹے کی طویل لوڈشیڈنگ کے باعث حکومتوں کو عوام کی جانب سے بجلی کی فراہمی میں اضافے کے دبائو کا سامنا تھا۔ اس وقت حالات یہ ہیں کہ ملک میں بجلی کی نصب شدہ پیداواری صلاحیت ہماری ضرورت سے زیادہ ہے جبکہ مہنگی بجلی کی وجہ سے عام آدمی کی زندگی براہ راست متاثر ہو رہی ہے۔ اسے اپنی ضرورت کے مطابق بجلی کے استعمال میں اضافی قیمت کی ادائیگی کا بوجھ اٹھانا پڑ رہا ہے جس کی وجہ سے اس کی قوت خرید ختم ہو کر رہ گئی ہے اور وہ اپنی آمدن کا بڑا حصہ بجلی کے بلوں کی ادائیگی پر خرچ کرنے پر مجبور ہے۔ یہ وہ حالات ہیں جس کی وجہ سے گزشتہ چند مہینوں میں کئی شہری اپنی زندگیوں کا خاتمہ کر چکے ہیں۔ اس صورتحال سے بچنے کیلئے ماضی کی حکومتیں نجی بجلی گھروں کو ادائیگیاں موخر کرتی رہی ہیں جس کی وجہ سے گردشی قرضے میں اضافہ ہوتا رہا۔
اس وجہ سے پاکستان میں گردشی قرضوں کا بوجھ مسلسل بڑھ رہا ہے جس سے نہ صرف ملک کی معیشت پر دباؤ ناقابل برداشت ہو چکا ہے بلکہ توانائی کے شعبے میں بھی مسائل بڑھتےجا رہے ہیں۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ بجلی کی مد میں اخراجات کو کم کرنے کیلئے صاحب حیثیت طبقے کی بڑی تعداد تیزی سے شمسی توانائی پر منتقل ہو رہی ہے جبکہ کمرشل اور انڈسٹریل صارفین کی طرف سے بھی سولر انرجی پر منتقلی کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے۔ اس صورتحال میں بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی طرف سے فراہم کی جانے والی بجلی کی مانگ میں مسلسل کمی ہو رہی ہے۔ اس کے باوجود افسوسناک بات یہ ہے کہ نیشنل گرڈ سے بجلی کی مانگ میں اس کمی کا بوجھ بھی ان صارفین پر منتقل ہو رہا ہے جو وسائل نہ ہونے کی وجہ سے شمسی توانائی پر منتقل ہونے کی استطاعت نہیں رکھتے۔
اس وقت مالیاتی بحران کی وجہ سے ہمارا ملک ایک طرف عالمی مالیاتی اداروں اور دوست ممالک کا دست نگر بنا ہوا ہے اور دوسری طرف توانائی کے بحران کی وجہ سے ملک میں معاشی سرگرمیاں منجمد ہیں۔ علاوہ ازیں بجلی کی ترسیل اور تقسیم کے نظام میں خرابیوں کے باعث ہونے والے نقصانات اور بجلی چوری کی مد میں ہونے والا نقصان بھی صارفین کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نجی بجلی گھروں سے معاہدوں پر نظرثانی کے ساتھ ساتھ بجلی کی ترسیل اور تقسیم کے نظام میں اصلاحات بھی ضروری ہیں۔ پاور سیکٹر کی یہ صورتحال برسہا برس سے اسی طرح چلی آ رہی ہے لیکن ماضی میں ہر حکومت نے سیاسی دبائو اور دیگر وجوہات کی بنا پر اس معاملے کو زیر التوا رکھا جس کی وجہ سے آج صورتحال اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ گھریلو صارفین سے لے کر صنعتکاروں تک ہر کوئی بجلی کے بھاری بلز سے عاجز آ چکا ہے۔ نجی بجلی گھروں سے یکطرفہ معاہدوں کی وجہ سے پاکستان کی برآمدات پر بھی منفی اثر پڑا ہے اور عالمی سطح پر پاکستانی مصنوعات کی مانگ میں کمی آئی ہے۔ بجلی کے مہنگے ہونے سے برآمدات پر اثرات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سال 2020 سے 2022 کے دوران زیرو ریٹڈ برآمدی صنعتوں کو 9 سینٹ فی کلو واٹ کے علاقائی مسابقتی توانائی ٹیرف پر بجلی فراہم کی جا رہی تھی۔ اس دوران ٹیکسٹائل کی برآمدات میں 54 فیصد کا ریکارڈ اضافہ دیکھنے میں آیا اور پاکستان کی ٹیکسٹائل برآمدات دو سال میں 12.5 ارب ڈالر سے بڑھ کر 19.3 ارب ڈالر ہو گئی تھیں۔ تاہم گزشتہ سال حکومت کی طرف سے علاقائی مسابقتی توانائی ٹیرف ختم کرکے برآمدی شعبے کیلئے بجلی کے نرخ 14سینٹ فی کلو واٹ سے زیادہ کر دیئے گئے جسکے بعد ٹیکسٹائل کی برآمدات دوبارہ کم ہو کر 16.6ارب ڈالر پر آ گئی ہیں۔ ان حالات میں ضروری ہے کہ انڈسٹری اور عام صارفین کی معاشی مشکلات کو کم کرنے کیلئے نجی بجلی گھروں سے معاہدوں پر نظرثانی کی جائے۔ اس سے ملک کے معاشی استحکام میں اضافہ ہو گا اور سستی بجلی کی دستیابی سے صنعتوں کی پیداواری لاگت میں بھی کمی آئے گی اور معاشی سرگرمیوں میں بھی اضافہ ہو گا۔ حکومت کو یاد رکھنا چاہیے کہ نجی بجلی گھروں سے معاہدوں پر نظرثانی ملکی معیشت، توانائی کے شعبے اور عوام کے فائدے کیلئے ضروری ہے۔ اس سے نہ صرف بجلی کی قیمتوں میں کمی آئے گی بلکہ گردشی قرضوں کو کم کرنے، شفافیت بڑھانے اور معاشی ترقی کے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔