ساڑھے چار دہا ئیاں قبل جب امریکہ، سوویت کی جنگ نے افغانستان کو اپنی لپیٹ میں لیا تو پاکستان نے آگے بڑھ کر ہر طرح سے افغانستان کی مدد کی اور اسکے شہریوں کو بہت بڑی تعداد میں اپنے ہاں نہ صرف پناہ دی بلکہ ان کیلئے ہر قسم کی سہولیات کا انتظام بھی کیا۔ پندرہ اگست 2021ء کو جب طالبان نے دوحہ معاہدے کے تحت کابل کا کنٹرول حاصل کیا، تو اس وقت کی پاکستانی حکومت اور دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کی قیادت اور دانشوروں نے مسرت کا اظہار کیا۔ اس وقت کے وزیر اعظم نے تو اعلان کیا کہ طالبان نے غلامی کی زنجیریں توڑ دی ہیں جبکہ طالبان کے پاکستان میں موجود ساتھیوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ اب افغانستان میں موجود دہشت گردوں کا خاتمہ ہو جائے گا، مگر ایسا نہ ہو سکا۔ پاکستان گزشتہ کچھ عرصے سے دہشتگردی کی ایک نئی لہر کا شکار ہے جس پر قابو پانے کیلئے سکیورٹی فورسز ملک بھر میں کارروائیاں کر رہی ہیں۔ امن دشمن عناصر پاکستان کو کمزور اور غیر مستحکم کرنے کیلئے ملک کے مختلف حصوں میں تخریب کاروں کو استعمال کررہے ہیں اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) افغانیوں کی مدد سے دہشتگردوں کا بھرپور ساتھ دے رہی ہے۔افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان میں دہشتگردی میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ افغانستان کی طالبان حکومت نے اپنی جانب سے اس غیر قانونی اور ممنوعہ خطرناک مصنوعات کی اسمگلنگ روکنے کی بھی کوئی کوشش نہیں کی ہے۔ ہمیں پاکستانی بہادر فوج کا ہر طرح سے ساتھ دینا چاہیے تاکہ دہشتگردی پر قابو پاکر ملک کے استحکام اور ترقی کی راہ ہموار کی جا سکے۔
بجلی کے بڑھتے ہوئے نرخوں نے ملک میں سماجی بد امنی پیدا کی ہے اور 350ارب ڈالر کی معیشت کی صنعتیں بند ہو گئی ہیں۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ اسکی ناقابل برداشت قیمتوں اور اسکے ساتھ اووربلنگ نے گھریلو ،صنعتی اور کاروباری سمیت تمام صارفین کو پریشان کر کے رکھ دیا ہے۔ مڈل اور لوئر کلاس صارفین کا عرصہ حیات تنگ ہو چکا ہے۔ اس صورتحال کی بنا پر پاور کمپنیوں سے کیے گئے معاہدوں کی شرائط میں قومی مفادات کے مطابق تبدیلی ناگزیر ہے۔ حکومت کی جانب سے معاہدوں میں جن تبدیلیوں کا مطالبہ کیا جا سکتا ہے ان میں ضمانت شدہ ریٹرن میں کمی ڈالر کے نرخوں کو محدود کرنا اور غیر استعمال شدہ بجلی کی ادائیگی کی شرط کاخاتمہ شامل ہے۔ یہ شرائط یقیناً منصفانہ اور معقول ہیں جن پر جلد از جلد سمجھوتہ ہو جانا چاہیے۔ صرف 8%ادائیگی میں کمی مسئلےکاحل نہیں ہے۔
پاکستان میں اس وقت ٹیکسٹائل کی چار سو سے زائد انڈسٹریز کام کر رہی ہیں۔ ٹیکسٹائل کے شعبے کو مزید بہتر کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ پاکستان کی کل بر آمدات میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ دنیا کے تمام بڑے ٹیکسٹائل برانڈز پاکستان میں تیار ہوتے ہیں لیکن کوئی بھی صنعتی پالیسی اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک مقابلاتی نرخوں پر بجلی اورگیس کی بلا تعطل فراہمی جدید صنعتی انفراسٹرکچر اور مواصلاتی نیٹ ورک، ہنر مند، تجربہ کار ورکرز دوستانہ ٹیکس نظام نہ پایا جاتا ہو۔ پاکستان میں حکومت کا خاطر خواہ ٹیکس ریونیو اکٹھا نہ کرنے کے پیچھے غیر موثر ٹیکس اصلاحات ہیں۔ بہت سے سروس سیکٹرز اور کاروبار آج بھی ٹیکس نیٹ سے باہر ہیں کاروباری حضرات اور ٹیکس حکام کی ملی بھگت اور سسٹم میں موجود خامیوں کی وجہ ٹیکس کی چوری ہوتی ہے ٹیکس کے محکمے میں بھی ریفارمز کی شدید ضرورت ہے۔ صحت، گورننس، بجلی کی فراہمی، صاف پانی کی فراہمی، مقامی حکومتوں کا قیام یاجو بھی شعبہ زندگی ہو ان سب میں دیانتداری اور ایمانداری سے کام کرنا ہو گا۔ ہم میں ایک دوسرے کو برداشت کرنے اور ساتھ چلنے کا جذبہ ہونا چاہیے، جو جمہوریت کی کامیابی کیلئے بہت ضروری ہے، کیونکہ جمہوریت بھی اتحاد و یکجہتی میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔ پاکستان کے اندورنی اور بیرونی خطرات سب کے سامنے ہیں۔ بلوچستان کے لوگوں کیساتھ بیٹھ کر انکے مسائل کا حل نکالنا چاہیے۔
پاکستان کاشمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جن کے معاشی مسائل میں اس لیے مسلسل اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے کہ وہاں سرکاری خزانے کا ایک بڑاحصہ اشرافیہ ہڑپ کر جاتی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ معیشت کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کیلئے سب سے پہلے تو اپنے اخراجات میں کمی لائے اور اشرافیہ کو سرکاری خزانے سے دی جانے والی مراعات و سہولیات ختم کرے۔ اس سے اگلا مرحلہ سرمایہ کاری ہے اور قرض صرف اس صورت میں لیا جانا چاہیے جب معاملات کو چلانے کیلئے ہمارے پاس قرض لینے کے سوا اور کوئی چارہ نہ ہو۔ اسٹیٹ بینک کی جانب سے پالیسی ریٹ (شر ح سود) میں 2فیصد کی کمی ایک خوش آئند اقدام ہے اس سے معاشی سرگرمیوں کو فروغ ملے گا مہنگائی میں کمی آئے گی۔ سیاسی ہم آہنگی اور استحکام بھی ازحد ضروری ہے اسکے بغیر معاشی تبدیلی ممکن نہیں۔ پاکستان میں موجودہ محاذ آرائی کی سیاست معاشی بحالی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کو سیاسی تنازعات ختم کرنے اور معاشی مسائل پر اپنی پالیسیوں کو ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے۔