• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈاکٹر اطہر رانا، فیصل آباد

عام طور پر صبر سے مراد فقط خاموش رہنا یا کم گوئی لیا جاتا ہے، جب کہ درحقیقت صبر کے معنی خاصے وسیع ہیں۔ اسی لیے تو کہا جاتا ہے کہ ’’صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے۔‘‘ قرآنِ مجید کی سورۃ البقرہ میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ ’’مشکل اور کٹھن گھڑی میں صبر اور نماز سے مدد لو۔‘‘ لُغت میں صبر کے معنی کسی ناگوار عمل یا شے کو برداشت کرنے، ارادے کی مضبوطی اور عزم کی پُختگی کے ہیں، جس کے ذریعے انسان اپنی نفسانی خواہشات کے آگے بند باندھتا، مشکلات و مصائب کا مردانہ وار مقابلہ کرتا اور زندگی اپنے ضمیر کے مطابق بسر کرتا ہے۔

ابو سعيد خدریؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا،”جب ابنِ آدمؑ صبح کرتا ہے، تو سارے اعضاء زبان کے سامنے عاجزی کے ساتھ التجا کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہمارے سلسلے میں اللہ سے ڈر۔ ہم تجھ سے متعلق ہیں۔ اگر تو سیدھی رہی، تو ہم بھی سیدھے رہیں گے اور اگر تو ٹیڑھی ہوگئی، تو ہم بھی ٹیڑھے ہو جائیں گے۔‘‘ اس حدیث شریف کا مفہوم یہ ہے کہ جس شخص کی زبان ضابطے کے تحت ہو، تو اس کا پورا بدن ہی امن و عافیت میں رہتا ہے۔ اس ضمن میں حضرت سلیمانؑ کا فرمان ہے کہ ’’زیادہ بولنے سے کوئی نہ کوئی گناہ سرزد ہوجاتا ہے۔ 

جو شخص اپنے منہ اور زبان کو روکے، تو وہ دانا ہے۔ جاہل کے دل میں جو ہوتا ہے، وہ زبان پر لے آتا ہے۔‘‘ صحابی رسول ؐ اورخلیفۂ اوّل، حضرت ابو بکر صدیقؓ اپنی زبان کو چوٹی سے پکڑ کر فرماتے تھے کہ ’’اس نے مُجھے کئی جگہوں پر پھنسایا ہے۔‘‘ اسی طرح حضرت عُمر فاروقؓ کا ارشادِ گرامی ہے کہ ’’ جس شخص نے اپنا راز پوشیدہ رکھا، گویا اُس نے اپنی سلامتی کو اپنے قبضے میں رکھا۔‘‘ 

حضرت عثمان غنیؓ کا فرمودہ ہے کہ ’’ خاموشی غصّے کا بہترین علاج ہے۔‘‘ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قولِ زرّیں ہے کہ ’’ آدمی کی قابلیت اُس کی زبان کے نیچے پنہاں ہوتی ہے۔‘‘ اور مزید یہ کہ ’’ جب تک کوئی بات تمہارے منہ میں بند ہے، وہ تمہاری ملکیت ہے۔ جوں ہی وہ تمہارے منہ سے نکلی، وہ تمہاری مالکن بن جاتی ہے۔‘‘

صبر کے حوالے سے ایک مشہور ولندیزی مقولے کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ ’’صبر ، علم اور ذہانت سے زیادہ قیمتی شے ہے کہ جو ہماری منزل تک پہنچنے کی راہ ہم وار کرتا ہے۔‘‘ جب کہ مشہور مغربی مفکّر و فلسفی، فرینکلن کا مشہور قول ہے کہ ’’صبر کرنے والا شخص وہ سب کچھ حاصل کر سکتا ہے، جس کا وہ خواہش مند ہوتا ہے۔‘‘ ایک مصنّف و محقّق نے صبر کی صفت کو کچھ اس انداز سے بیان کیا ہے کہ ’’ جو صبر کرتا ہے، اُسے سب کچھ مل جاتا ہے۔‘‘

قصّہ مختصر، مذکورہ بالا فرمودات اور اقوال سے یہی سبق ملتا ہے کہ ہمیں کم بولنا چاہیے۔ نیز، یہ ایک عام تجربے کی بات ہے کہ کسی مشکل، مسئلے یا اُلجھن کی صُورت میں صبر و سکون سے غوروخوض کرنے سے بہترین تجویز یا حل از خود دماغ میں عود کر آتا ہے۔ 

جرمن زبان میں کہا جاتا ہے کہ ’’تقریر چاندی اور خاموشی سونا ہے۔‘‘ ہمارے پیارے نبی حضرت محمدﷺ کی پوری حیاتِ طیّبہ و طاہرہ صبر و استقامت اور قناعت سے مملو ہے۔ آپؐ انتہائی جامع اور مختصر گفتگو فرمایا کرتے تھے۔سو، ہمیں بھی آپؐ کی پیروی کرتے ہوئے صبروشُکر، قناعت ومتحمل مزاجی اور کم گوئی جیسی صفات ہی اختیار کرنی چاہئیں۔