• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اردوزبان کے مایۂ ناز غزل گو شاعر، نثر نگار اور براڈ کاسٹر ، تابش دہلوی نے 9؍نومبر 1911ء کو دہلی کے ایک علمی و ادبی گھرانے میں جنم لیا۔ اُن کا اصل نام سیّد مسعود الحسن اور تخلّص، تابش تھا۔ انھوں نے 1932ء میں پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز کیا اور 1939ء میں ممتاز نثرنگار اور براڈ کاسٹر پطرس بخاری اُنھیں آل انڈیا ریڈیو لے آئے۔ کچھ عرصہ پروگرام انائونسر کے فرائض انجام دینے کے بعد اُردو میں خبریں پڑھنا شروع کردیں، جس کا سلسلہ پاکستان ہجرت کے بعد 1963ء تک ریڈیو پاکستان سے خبریں پڑھنے تک جاری رہا۔ بعدازاں، ریڈیو پاکستان کے مختلف شعبوں میں بطور سینئر پروڈیوسر فرائض انجام دیتے رہے اور 1980ء میں ریٹائر ہوگئے۔ 

مخصوص لب و لہجے کے حامل، تابش دہلوی نے شاعری میں فانی بدایونی سے اصلاح لی۔ پہلا شعر محض تیرہ برس کی عُمر میں کہا، جب کہ پہلی غزل 1931ء میں دہلی کے شہرئہ آفاق جریدے ’’ساقی‘‘ میں شائع ہوئی۔ اُنھوں نے غزل اورنظم کے ساتھ نعت، قصیدہ گوئی اور مرثیے میں بھی طبع آزمائی کی۔ تابش دہلوی کے شعری مجموعے نیم روز، چراغِ صحرا، غبارِ انجم، ماہ شکستہ، تقدیس اور دھوپ چھائوں اور کلیات ’’کشتِ نوا‘‘ کے نام سے شائع ہوئے۔ 

جب کہ اُن کی نثر کی کتاب ’’دیدباز دید‘‘ بھی خاص و عام میں مقبولیت کی سَند رکھتی ہے۔ تابش دہلوی کو اُن کی علمی و ادبی اور براڈ کاسٹنگ کے ضمن میں پیش کی جانے والی خدمات پر متعدد اعزازات سے نوازا گیا، جس میں حکومتِ پاکستان کی جانب سے عطا کردہ ’’تمغہ امتیاز‘‘ بھی شامل ہے۔ دبستانِ دہلی کے اس آخری چراغ نے 23ستمبر 2004ء کو داعیٔ اجل کو لبیک کہا۔

تابش دہلوی کے درجنوں شاگردو اور بے شمار لوگوں نے اُن سے شاعری میں اصلاح لی۔ اور راقم کو اُن کا ایک ادنیٰ شاگرد ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ اُن کی برسی کی مناسبت سے یہ زیرِ نظر مضمون ’’تابش دہلوی اور اُن کا طرزِ اصلاح‘‘ کے عنوان سے نذرِقارئین ہے، جس میں تابش صاحب کی اصلاح کے معیارات، پیمانوں کا کسی قدر احاطہ کیا گیا ہے۔

اللہ سبحانہ تعالیٰ نے اپنے بندوں میں سے کچھ کو خداداد صلاحیتوںاور ذہانت سے سرفراز فرمایا ہے۔ تاہم، خداداد ذہانت کے باوجود کسی بھی فن کے نقطۂ عروج و کمال تک پہنچنے کے لیے رہنمائی و دست گیری کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اس عہدِ جدید میں، جہاں محیّرالعقول ٹیکنالوجی، ذہنِ انسانی کو ایک لمحہ سکون و قرار سے نہیں بیٹھنے دیتی، اور جو انسان، ہر لمحہ خُوب سے خُوب ترکی تلاش میں ارض و سما اور وسیع و عریض کائنات کی تحقیق وجستجو میں سرِگرداں رہتا ہو، اس کی تحقیق بغیر کسی رہنما اور استاد کے منزلِ مراد تک نہیں پہنچ سکتی۔ سائنسی علوم اور تیکنیک میں تو استاد و رہنما کی ضرورت ہوتی ہی ہے، مگر علم و ادب کا شعبہ بھی ایک ایسا شعبہ ہے، جہاں حروف شناسی اور قلم گیری کا تصوّر بغیر استاد و علم، رہنما و راہبر کے، محال و ناممکن ہے۔ 

یہ ضروری نہیں کہ ہر کس و ناکس کو علمِ لدنی (وہ علم، جو بغیر ریاضت و مجاہدےکے حاصل ہو، انسان کو اس کے لیے تگ و دو نہ کرنا پڑے۔ اسے لدنی اِسی لیے کہا جاتا ہے کیوں کہ یہ براہِ راست اللہ تعالیٰ کی طرف سے حاصل ہوتا ہے اور انسان کی محنت کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں ہوتا) تفویض کیا جائے، ہر چند کہ شعراء خود کو وہبی قلم کار تصوّر کرتے ہیں اور مضامین، شعرِ غیب سے نازل ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں، مگر اس اعتراف سے بھی گریز نہیں کرتے کہ وہ ’’تلامیذالرحمٰن‘‘ ہیں۔ 

اگر اس جملے کے حقیقی معانی و مطالب پر غور کیا جائے، تو یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہوجائے گی کہ شعراء خود کو ’’اللہ تعالیٰ کا تلمیذ‘‘ تصوّر کرتے ہیں، جس سے استاد و شاگردی کے نظریے کو تقویت پہنچتی ہے۔ پس یہ بات بغیر کسی بحث و تمحیص کے پایۂ تحقیق کو پہنچتی ہے کہ ہر علم وفن کے حصول کے لیے عموماً اور کسی خاص شعبے میں مہارتِ تامّہ کے حصول یا نقطۂ عروج پر پہنچنے کے لیے خصوصاً خداداد ذہانت و فراست کے باوصف کسی صائب الرائے کا مشورہ اور رہنمائی، فن کار یا فن پارے کو مقبولیتِ عام اور شہرتِ دوام عطا کرنے میں ممد و معاون ثابت ہوتی ہے۔

خواہ وہ علمائے دین، فقہ تفسیر کے امام ہوں، سائنس داں ہوں یا علوم و معارف کے رخشندہ ستارے، یا انجینئر، وکلاء، طبیب، حکیم، موسیقار، شہ سوار، غرض یہ کہ ہر شعبۂ حیات میں استاد کی اہمیت و ضرورت کا اعتراف و اقرار لازمی ہے۔ سقراط و افلاطوںاور ارسطو جیسے مفکّرین کا سلسلۃ الذہب۔ ائمہ اربعہ کے مذاہب۔ صوفیاء کرام کے چاروں سلسلے، سبھی استاد و تلمیذ کے رشتۂ روحانی میں منسلک ہیں۔ 

شمس تبریز و مولانا جلال الدین رومی، امامِ اعظم اور امام محمد نظام الدین اولیاء اور خسرو اس کی زندہ وپائندہ مثالیں ہیں۔ اسی طرح شعر و ادب میں مصحفی و انشاء، ذوق و غالب داغ ومیر، آتش و ناسخ کے تلامذہ کے سلسلے، جن سے اردو شاعری کی دنیا جگمگا رہی ہے، بطور مثال پیش کیے جاسکتے ہیں۔

یہ اور بات ہے کہ موجودہ عہد، احسان ناشناس لوگوں سے بھرا پڑا ہے، ہر شخص بذاتِ خود استاد بنا پھرتا ہے، حالاں کہ ان میں سے اکثر مبادیاتِ شاعری ہی سے نابلد اور اردو شاعری کی ابجد ہّوز سے بھی ناواقف ہیں۔ مجھے علم ہے کہ حضرت تابش دہلوی نے کیسے کیسے خود ساختہ استادانِ شعر و غزل کو مشورے دیئے اور اُن کے اشعار کو اپنی اصلاح سے اس قابل کردیا کہ اہلِ علم کی داد ِتحسین کے مستحق ٹھہرے۔

انھوں نے بہت سے ایسے شعراء کو اپنی فاضلانہ بصیرت سے لائق و فائق بنایا، جو آج مسندِ صدارت پر جلوہ افروز ہو کر شعر و شاعری پر فلسفیانہ گفتگو کے ساتھ حاکمانہ طرز اختیار کرکے اپنی دانش وَری اور دیدہ وَری کا سکّہ بٹھاتے ہیں۔ مَیں نے ان کے یہاں بڑے بڑے ذی علم اور قادرالکلام شعراء کو آتے اور اُن سے مشورہ کرتے دیکھا اور سُنا ہے، مگر استاد کے امتثالِ امر کے باعث اُن تمام حضرات کا نام لینا یا ریکارڈ پر لانا مناسب نہیں سمجھتا ۔تاہم، یہاں میں صرف اپنے کلام پر استاد کی اصلاح کے چند نمونے پیش کر رہا ہوں ۔

حضرت تابش دہلوی سے میری پہلی ملاقات 1956ء میں حضرت حسنین زیبا ردولوی کے گھر پر ہوئی تھی۔ حسنین زیبا ردولوی نے میرے دادا حضرت وحید الٰہ آبادی، استاد اکبرالٰہ آبادی کے کلام کا انتخاب بابائے اُردو مولوی عبدالحق کی ایما پر کیا تھا، جسے ’’انجمن ترقیِ اُردو ہند‘‘ نے 1938ء میں شائع کیا۔ اسی حوالے اور نسبت سے وہ مجھ سے واقف تھے۔ اُن کے دولت کدے کی اُسی ادبی محفل میں، مَیں نے حضرت تابش دہلوی سے درخواست کی کہ ’’مَیں الٰہ آباد کار رہنے والا ہوں، شعرو سخن سے شغف رکھتا ہوں اور اپنے کلام کو قابلِ اصلاح تصوّر کرتا ہوں۔‘‘ 

جواباً حضرت تابش دہلوی نے بڑے شفیق لہجے میں اتوار کی صبح دس بجے اپنے مکان، واقع جہانگیر روڈ آنے کی دعوت دی۔ گھر پر پہلی ملاقات میں تعارف اور رسمی بات چیت کے بعد مَیں ہر اتوار کو صبح دس بجے حضرت تابش دہلوی کے یہاں پابندی سے حاضر ہونے لگا۔ اس دوران حضرت تابش دہلوی کی شاعری، متانت، سنجیدگی اور رکھ رکھاؤ سے بے حد متاثر ہوا۔ مجھے اُن کی سرپرستی و رہنمائی میں علم وادب کے بڑے دقیق و نازک نکتے سمجھنے اور برتنے کا گُر حاصل ہوا۔ 

کراچی میں اپنے قیام کے دوران 1956ء سے 1978ء تک اُن کی سرپرستی میں معروف شاعر و ادیب، فضل احمد کریم فضلی، ڈاکٹر انعام الحق اور یاور عباس کے دولت کدے پر منعقد ہونے والے ماہانہ مشاعروں کے علاوہ دیگر علمی وادبی انجمنوں میں شرکت کی سعادت حاصل کی۔ تابش دہلوی ہی کی وساطت سے مجھے خلقِ مجسّم استادڈاکٹر اسلم فرخّی سے نیاز مندی کا شرف حاصل ہوا، جن کی محبتوں اور عنایات کے بوجھ تلے آج تک دبا ہوا ہوں۔

یہاں میں تابش دہلوی سے اپنے گہرے مراسم کا اظہار ضروری نہیں سمجھتا، بلکہ اس مختصر سی تحریر کو صفحہ ٔ قرطاس پر لانے کا مقصد محض یہ ہے کہ آئندہ آنے والے ادب کے طلبہ کے لیے اُن کے طرزِ اصلاح کے چند نمونے پیش کیے جائیں، جن سے وہ مستفید ہوسکیں۔ 

یاد رہے، تابش دہلوی کی اصلاحِ اشعار کا معیار انتہائی سخت تھا اور اُن کے اِسی سخت اور شدید اندازِ گرفت سے سہل پسند طبائع کے اکثر شعراء اُکتا کر بھاگ کھڑے ہوتے تھے کہ سَستی شہرت اور ’’کاتا اور لے دوڑی‘‘ کی نسل سے تعلق رکھنے والے اتنی کڑی گرفت کے متحمّل نہ ہوکر اُن کے دائرہ اصلاح سے نکل جانے ہی میں عافیت سمجھتے تھے۔ مناسب الفاظ اور ان کے موزوں استعمال پر تابش صاحب کی بڑی گہری توجّہ ہوتی تھی۔ 

ہر موزوں خیال شعر کہنا بہتر تصوّر نہیں کرتے تھے، اُن کی کوشش ہوتی تھی کہ شعر میں کوئی تو ایسی بات ہو، جس سے شاعر کا اپنا اسلوب متعین ہوسکے اور شعر خود پُکار اٹھے کہ میں کس شاعر کی تخلیق ہوں۔ اس سلسلے میں اکثر اوقات وہ حضرت فانی اور حضرت اصغر کا ذکر کرتے اور فرماتے کہ ’’اچھا شاعر ہونا آسان ہے، مگر بڑا شاعر بننا آسان کام نہیں۔ اس کے لیے خونِ جگر پلانا، نیندیں حرام، راتیں کالی کرنی پڑتی ہیں۔ ایک ایک لفظ کا مناسب استعمال اس طرح کیا جائے کہ اگر وہ لفظ وہاں سے ہٹالیا جائے اور اس کے بجائے دوسرا لفظ نظم کیا جائے، تو شعر کا حُسن غارت ہوجاتا ہے۔‘‘ 

جب بھی اُن سے گزارش کرتا کہ کبھی اپنی مشکل پسند سے طبیعت ماورا، مشاعرے کے مزاج کا خیال رکھ کر بھی غزل کہا کیجیے، تو ان کا ایک ہی جواب ہوتا۔ ’’مَیں مشاعرے کا شاعر نہیں ہوں، مَیں تو اس بات سے خوش ہوتا ہوں کہ خواہ ایک ہی آدمی میرے شعر کی تفہیم کرسکے، مگر وہ شعر کے نکات اور نازک معاملات سے واقفیت رکھتا ہو۔ اس میں شعر فہمی کی اعلیٰ حِس ہو۔ اگر وہ میرے شعر اور اس کے رموز و علائم سے واقف ہوگیا، تو مَیں سمجھتا ہوں کہ میری محنت وصول ہوگئی۔‘‘ 

یہی درس وہ اپنے شاگردوں کو بھی دیتے اور کبھی کبھی تمام کی تمام غزل یہ کہہ کر واپس کر دیتے کہ ’’ایک شعر بھی کام کا نہیں ہے۔‘‘ کبھی کبھی بادلِ ناخواستہ کچھ اصلاح کرکے غزل واپس کردیتے، البتہ اس پر یہ ضرور رقم کردیتے کہ ’’غزل نہایت کم زور ہے، پھر سے کہیے۔‘‘ اس موقعے پر مَیں نے اُن سے بارہا عرض کیا کہ ’’آپ ہم سے اُس معیار کی غزل کی توقع نہ کریں، جس معیار کی غزلیں آپ کہتے ہیں۔‘‘ مگر اُن کا جواب یہی ہوتا ہے کہ ’’مَیں آپ کی خوش نودی اور دل جوئی کے لیے آپ کے اشعار پر غلط مشورہ نہیں دوں گا۔

آپ مجھ سے مشورہ کرتے ہیں، تو ان اصولوں کو برتنا پڑے گا، جو مَیں بتاتا ہوں۔‘‘ اکثر اوقات ’’محنت، محنت، محنت‘‘ لکھ کر غزل بعداز تصحیح واپس کردیتے، جب میں اپنے کسی شعر پر استاد کے صحیح کے دو نشانات دیکھتا تو یہ سمجھ جاتا کہ اس میں استاد نے اچھی شاعری کی ضرور کوئی رمق ملاحظہ فرمائی ہے، جب ہی دو نشانات لگائے ہیں، ورنہ ’’غزل کم زور ہے، اشعار عامیانہ ہیں، اسے غزل کون کہے گا۔ 

خدارا ایسے اشعار کہنے سے گریز کیجیے، اور اپنی شاعری کو خراب نہ کیجیے شعر کہہ کر کبھی یہ بھی سوچا کہ ہر موزوں جملہ شعر نہیں ہوتا، اس غزل کو دوبارہ کہو۔‘‘ جیسے کلمات رقم کرکے غزل واپس کردیتے۔ ’’غور و فکر کیجیے، مطالعہ، محنت اور مشق‘‘ جیسے الفاظ تو اُن کی اصلاح شدہ غزلوں پر ضرور نمایاں ہوتے تھے۔

ذیل میں میرے چند اشعار پر تابش دہلوی صاحب کی، کی گئی اصلاح پیشِ خدمت ہے، جس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اصلاح کے بعدشعر کہاں سے کہاں پہنچ گیا۔ تابش صاحب کی اصلاح قوسین میں ہے۔

؎ واصل اِک لمحہ تصوّر کا رکھتا ہے وہ رعنائی..... جیسے ہو مِری اُن سے مدت کی شناسائی (جیسے ہو مِری اُن سے برسوں کی شناسائی)؎ اِک نظر جس نے تجھ کو دیکھا ہے .....عُمر بھر ہم نے اُس کو چاہا ہے (ہم نے اُس کو بھی دل سے چاہا ہے) ؎ ہم نے اکثر تری محفل میں یہی دیکھا ہے.....آگ لگ جاتی ہے، پروانے کو پروانے سے (آگ لگ جاتی ہے، پروانے میں پروانے سے) ؎ فن کی تذلیل ہوئی باہنروں کے ہوتے .....نغمگی ختم ہوئی نغمہ گروں کے ہوتے (نغمہ بے ربط ہوا، نغمہ گروں کے ہوتے) ؎ آوازِ بازگشت نہ ہو ڈوبنے کی یہ.....کچھ قہقہے سے جو لبِ ساحل سے آئے ہیں ((غرقاب ہونے کی نہ ہو آواز بازگشت..... کچھ نالے درد تک لب ساحل سے آئے ہیں) ؎ خس و خاشاک کی مانند پڑا رہنے دو .....خود بکھر جائوں گا مَیں، تُو نہ ہوا دے مجھ کو ( خود بکھر جاؤں گا، تو یُوں نہ اُڑا دے مجھ کو)۔

تابش صاحب کی رہنمائی اور سرپرستی جنہیں نصیب ہوئی، وہ خوش قسمت ہیں کہ اُنھیں الفاظ کے صحیح استعمال اور ان کے معنی و مطالب کے تمام رموز سے واقفیت و آگہی کے بعد اپنے کلام کو سخن سے بچا کر شعر کرنے کا سلیقہ آگیا۔ وہ فرمایا کرتے تھے کہ ’’سیدھے سادے لفظ زیادہ تاثیر پیدا کرتے ہیں ،جہاں خیال ارفع ہوں، وہاں دقیق الفاظ لانا مجبوری ہوتی ہے۔ کوشش کیا کریں کہ آپ کے مضامین میں بھی اپنے مضامین ہوں۔ اِس سے شاعری میں ندرت پیدا ہوتی ہے اور لوگ عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔‘‘