• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہماری کلاسیکی موسیقی کی روایت میں دو بھائیوں استاد نزاکت علی خان اور استاد سلامت علی خان کی جوڑی ہر لحاظ سے لاجواب سمجھی جاتی تھی۔ چھوٹے بھائی سلامت علی خان کو تو اہلِ فن تان سین ثانی پکارا کرتے تھے، یعنی ایک بے بدل گویا، جو گھنٹوں وِلمپت کرنے اور راگ کے بھید کھولنے پر قادر تھا، جو درُت میں لے کاری کو معجزے کی سطح پر لے گیا، گائیکی میں تاثیر دل گداز، تان پلٹا شمشیرِ آب دار، بلا شبہ، سلامت علی خان ایک مکمل گویا تھا۔ اساتذہِ فن کی نظر میں بڑے بھائی نزاکت علی خان بہت سریلے گائیک تھے مگر چھوٹے بھائی کے ہم سر نہیں تھے۔ خیر، پھر یوں ہوا کہ کسی معمولی خاندانی رنجش کی بنا پر نزاکت سلامت کی جوڑی ٹوٹ گئی، اس کے بعد سلامت علی خان نے اپنے بیٹوں شرافت اور شفقت کے ساتھ جوڑی بنانے کی بہت کوشش کی مگر بات کچھ بنی نہیں۔ ایک مرتبہ نزاکت علی خان بارے کسی نے سوال کیا تو سلامت علی خان صاحب کہنے لگے کہ وہ میرا گول کیپر تھا، اُس کی موجودگی میں میں بے خوف ہو کر کھیلتا تھا، وہ راگ کی حفاظت کرتا تھا، وہ بنیاد کی نگہ بانی کا فریضہ انجام دیتا تھا، میں میدان کا چکر لگا کر لوٹتا تو میرا گول کیپرمستعد کھڑا ہوتا تھا۔ یہ سچ ہے کہ نزاکت علی خان کے بغیر سلامت علی خان جیسا ’مکمل گویا‘ بھی ادھورا رہ گیا۔

ریاستِ پاکستان میں بھی کچھ ایسا ہی واقعہ رونُما ہوا ہے، نزاکت علی خان اور سلامت علی خان کی جوڑی ٹوٹ گئی ہے، سلامت علی خان کا گول کیپر اپنی جگہ سے ہٹ گیا ہے، سلامت علی خان نئی جوڑی بنانے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں، مگر بات کچھ بن نہیں پا رہی، نتیجہ یہ ہے کہ سلامت علی خان جیسا ’مکمل گویا‘ ادھورا ادھورا دکھائی دیتا ہے۔ 1958 میں جب پہلا ناگ راگ پیش کیا گیا اس وقت گول کیپر کے فرائض جسٹس منیر ادا کر رہے تھے اور اونچے سروں میں ’’من توپے واروں، تن توپے واروں‘‘ گنگنا رہے تھے، 1977میں جب ضیاالحق صاحب نے درت لے میں ریاکاری کا آغاز کیا تو ان کے گول کیپر جسٹس انوارالحق تھے جومسلسل ’’میں ناہیں سب توں‘‘ کا ورد کر رہے تھے، 1999میں جب مشرف صاحب نے کمانڈو راگ کے پلٹے آغاز کیے تو ان کے گول کیپر ارشاد حسن خان بہ زبان حال ’’نچ کے یار‘‘ منانے کی جستجو میں ہلکان ہو رہے تھے۔ باجوہ اور فیض صاحبان کو بھی ثاقب نثار، آصف سعید کھوسہ، اور عطا بندیال جیسے مستعد گول کیپر میسر تھے۔ ہماری تاریخ گواہ ہے کہ نزاکت سلامت کی جوڑی نے مل کر اس ملک کو دہائیوں تک ’کامیابی‘ سے چلایا ہے، مگر پھر ایک ’خاندانی تنازع‘ کے نتیجے میں بھائیوں کی یہ جوڑی ٹوٹ گئی، بات یہ ہے کہ جب جوڑی میں سے کسی ایک کے دل میں یہ آ جائے کہ اصل گویا تو میں ہوں اور میرے بغیر دوسرا کچھ بھی نہیں، تو پھر جوڑیاں ٹوٹ جایا کرتی ہیں، اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مکمل گویا بھی ادھورا رہ جاتا ہے۔

اب صورتِ حال یہ ہے کہ ریاست کے نزاکت سلامت ایک دوسرے کی ناک خاک آلود کرنے کی سعی میں ہمہ وقت مصروف ہیں، انہوں نے اپنے اپنے لشکر منظم کر لیے ہیں، اداروں سے سیاسی جماعتوں تک، ہر جگہ سے ان دو لشکروں کو کمک فراہم ہو رہی ہے، شوقِ تیغ بازی فزوں تر ہوتا جاتا ہے، چونچیں گم ہو چکی ہیں، دُمیں کٹ چکی ہیں، اور شمشیریں اب گردنوں کی طرف بڑھ رہی ہیں۔ آئینی ترامیم کے معاملے کو اسی پس منظر میں دیکھنا ہو گا۔ سُرعت سے ترامیم منظور کروانے کی خواہش رکھنے والوں کو سُبکی کا سامنا کرنا پڑا ہے، مگر کیا ترمیم پسند نچلے بیٹھ جائیں گے، سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، ایک جھڑپ میں پسپائی سے جنگ کا فیصلہ نہیں ہوا کرتا، اور جو اصحاب فریقین کی نفسیات سے واقف ہیں وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ پلٹ کر جھپٹیں گے، اور اس وقت تک جھپٹتے رہیں گے جب تک دشمن کو زیر نہیں کر لیتے یا خود پامال نہیں ہو جاتے۔

آئینی ترامیم کے حوالے سے اتنا کہنا ضروری ہے کہ ریاستی ڈھانچے میں کچھ برسوں سے عدالتیں یک سر بے مہار ہو چکی ہیں، وہ سرے سے کسی چیک اینڈ بیلنس کے نظام کو نہیں مانتیں، کروڑوں لوگوں کی نمائندہ پارلیمان کے پاس کیے ہوئے قانون پر دوچار جج کاٹا لگا دیتے ہیں، آئین کی تشریح تک رہنے کے بجائے خود ہی آئین لکھنے بیٹھ جاتے ہیں، حتیٰ کہ منتخب وزیرِ اعظم کو کان سے پکڑ کر حکومت سے نکال دیتے ہیں۔ ترامیم کی جزیات پر اختلاف ہو سکتا ہے مگر عدلیہ کے ان امراض کا علاج ضروری ہے۔ اکثردوست ترامیم کی ٹائمنگ، مسودے کو خفیہ رکھنےاور حکومتی عجلت کے حوالے سے سوال اٹھا رہے ہیں۔ حالتِ امن میں یہ تمام اعتراضات معقول گنے جائیں گے، مگر میدانِ جنگ میںیہ سوال سادہ لوحی کے باب میں رقم کرنا پڑیں گے۔ جنگ میں جب تیر چلتا ہے اور آپ کے سینے کی طرف بڑھ رہا ہوتا ہے تو فوراً ڈھال سامنے کی جاتی ہے، اسی کو پرفیکٹ ٹائمنگ کہتے ہیں۔ دو مہینوں سے اوپر ہوگئے اور مخصوص نشستوں پر آٹھ ججوں کا تفصیلی فیصلہ آج تک غیاب میں ہے، کس نے طے کی یہ ٹائمنگ؟ اسی فیصلے کی ایک وضاحت پچھلے ہفتے مجوزہ ترامیم سے ایک دن پہلے جاری کی گئی، کس نے طے کی یہ ٹائمنگ؟ اور اس وضاحتی فیصلے کو اس قدر خفیہ رکھا گیا کہ اسے پہلے نہ کاز لسٹ میں شامل کیا گیا، نہ فریقین کو بلا کر سنا گیا، تمام قوانین توڑکر، انتہائی عجلت میںیہ واردات کیوں ڈالی گئی، کس نے طے کی یہ ٹائمنگ؟

یاد رہے کہ جب نزاکت سلامت کی جوڑی ٹوٹ گئی تھی تو اس کے کچھ ماہ بعد ہی استاد نزاکت علی خان وفات پا گئے، اور استاد سلامت علی خان کو لقوہ ہو گیا اور وہ دوبارہ کبھی پہلے کی طرح نہ گا سکے۔

تازہ ترین