• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کے حالیہ مسائل کو تاریخ کے آئینے میں دیکھنا شروع کروں تو ایسے لگتا ہے جیسے اس ملک کے بڑے عہدیدار، اس کے حکمران، اس میں فیصلے کرنے والے لوگ، ملک کا نہیں سوچتے۔ کس کس کا نام لکھوں؟ سوائے ایک آدھ کے سب چہروں پر مفادات کے داغ ہیں، سب کے اعمال ایسے ہیں جیسے وہ سب کچھ اپنی ذات کے لئے کرتے رہے، اگرچہ پاکستان بڑی قربانیوں کے بعد بنا مگر اس دیس کو ایسی نظر لگی کہ نحوست کا کھیل اب بھی جاری ہے۔ تاریخ کے جس ورق کو بھی جھاڑ کر پڑھوں، اس پہ ذاتی مفادات کے دھبے ہیں، کچھ اوراق پر مفادات کی گھناؤنی کہانیاں ہیں، سر شرم سے جھک جاتا ہے، کیسے کیسے بڑے عہدیدار کتنے لالچی تھے، اپنے پیارے وطن کا خوبصورت بدن نوچتے رہے۔ قائد اعظم کی نافرمانی سے شروع ہونے والا سفر ہنوز جاری ہے، لیاقت علی خان کی سازشی موت سے شروع ہونے والا سفر بھی جاری ہے، ابتدائی برسوں میں کس طرح سیاستدانوں اور سول بیورو کریسی نے اقتدار کو گھگو گھوڑا سمجھ رکھا تھا، بعد میں گھگو گھوڑوں کے اس کھیل میں عدالتی اور عسکری شخصیات بھی حصے دار بن گئیں، جاگیردار شروع دن ہی سے اس سارے کھیل کا حصہ تھے، گھگو گھوڑوں کے اس کھیل کا خمیازہ بہت سخت بھگتنا پڑا، آدھا ملک گنوانا پڑا۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد تاریخ کا نیا سفر شروع ہوا، اقتدار کی نئی مسافت جمہوریت کی لاش پہ شروع ہوئی، پاکستان کے سول حکمران بھی ڈکٹیٹروں سے کم نہ تھے، انہوں نے آتے ہی نیشنلائزیشن کی پالیسی اپنا کر معیشت کی شہ رگ کاٹ دی، جس کا خمیازہ ہم آج بھی بھگت رہے ہیں، نوجوانوں کو نہ سہی بوڑھوں کو تو کم از کم یاد ہوگا کہ ہماری بٹالہ انجینئرنگ ٹاٹا برلا سے کہیں آگے تھی، ہمارے پانچ سالہ منصوبے کی نقل دنیا کے کئی ملکوں نے کی، آج وہ ہم سے کہیں

آگے ہیں۔ ابھی پاکستان کو دولخت ہوئے دس برس بھی نہیں بیتے تھے کہ گھر کے آنگن میں آمریت کے بادل گرجنے لگے، دھوپ نکلی تو پتہ چلا کہ آمریت کے سائے بڑے طویل ہیں، آمریت کی اس کوکھ سے جو سیاسی قیادتیں متعارف کروائی گئیں، ان کی لاٹری لگ گئی، ڈالر پرواز کرنا شروع ہوا، 1990ء تک ہم سارک ممالک میں آگے تھے مگر افسوس کہ اس دوران ہمارے سرکاری اداروں میں بربادیوں کا کھیل شروع ہو چکا تھا، اس سے زیادہ افسوس اس بات پر ہے کہ ہمارے ہاں جتنے بھی بڑے عہدیدار، حکمران اور طاقتور لوگ آئے، بیشتر نے بس اپنی تجوریاں بھرنے کے لئے عشق کی حد تک کام کیا، بعض تو اس سلسلے میں جنونی ثابت ہوئے، بڑے بڑے قرضے دیئے گئے اور پھر معاف کر دیئے گئے، زیادہ دکھ کی بات تو یہ ہے کہ ان کرداروں نے ملکی دولت لوٹ کر بیرونی دنیا میں پہنچائی۔ میرے نزدیک ایسا کرنا کم از کم وطن سے محبت تو نہیں ہو سکتا۔ انہی کالے کرتوتوں کا ثمر ہے کہ آج وطن عزیز قرضوں کے بوجھ تلے ہے، ملکی خزانہ خالی ہے، حیرت ہے گھگو گھوڑوں کا کھیل اب بھی جاری ہے۔ آج رنجیدہ دل خون کے آنسو روتا ہے، ایک تازہ رپورٹ نے پرانے زخموں کو چھیل کے رکھ دیا ہے، ہماری پاکستان ایئر لائن نے سنگار پور اور ایمیریٹس جیسی ایئر لائنز بنائیں، ہمارا بوئنگ طیارہ بیجنگ ایئر پورٹ پر کھڑا ہوا تو چینی ہاتھ لگا کر دیکھتے تھے کہ جہاز ایسا ہوتا ہے مگر آج حالت یہ ہے کہ پشاور کی پرواز کو کراچی پہنچا دیا جاتا ہے، پی آئی اے کو ایک سال میں آٹھ ارب کا نقصان ہوتا ہے، بنگلہ دیش ایئر لائن چھ ماہ میں ساڑھے آٹھ ارب سے زیادہ منافع کماتی ہے جبکہ افغان ایئر لائن چھ مہینوں میں گیارہ ارب نفع کماتی ہے، کیا ہمارے لئے یہ مقام شرمندگی کا نہیں؟؟ کاش! ہمارے بڑے عہدیدار ملک کا سوچتے، کاش! حکومتیں کرنے والے وطن کی مٹی سے اس قدر محبت کرتے کہ آج ہمارے سامنے ناکامیوں کی کانٹوں بھری داستان نہ ہوتی بلکہ خوشبوؤں سے بھرا خوبصورت باغ ہوتا۔ بقول ڈاکٹر خورشید رضوی

بس دریچے سے لگے بیٹھے رہے اہل سفر

سبزہ جلتا رہا اور یاد وطن آتی رہی

تازہ ترین