• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مئی 2013ء کے انتخابات سے جو سیاسی تبدیلی رونما ہوئی ، اُس کے اچھے اثرات ظاہر ہونے لگے ہیں ۔ وزیراعظم نوازشریف اور اُن کے رفقائے کار نے کرپشن کی غلاظت میں لت پت ہونے کے بجائے بنیادی مسائل حل کرنے پر توجہ دی۔ وہ کامیاب سفارت کاری کی بنا پر ملکی معیشت میں خاصا استحکام لے آئے ہیں اور توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لیے دن رات جتے ہوئے ہیں۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ شہبازشریف جوانوں کی طرح توانائی کے چشمے تعمیر کرنے میں سرگرداں ہیں اور چین کے تعاون سے چنیوٹ میں دنیا کی سب سے بڑی سٹیل مل لگانے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ ڈالر کی قیمت کم ہونے سے یہ توقع کی جا رہی ہے کہ عوام پر مہنگائی کا بوجھ بتدریج کم ہو گا۔ حکومت کی سنجیدہ کوششوں سے متاثر ہو کر بیرونی سرمایہ کار پاکستان کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں۔ اقتصادی ماہرین کے تجزیوں میں یہ واضح اشارے مل رہے ہیں کہ عالمی سطح پر ڈالر کمزور ہو رہا ہے اور عالمی سرمایہ دار اور صنعت کار پاکستان کو سب سے نفع بخش ملک تصور کر رہے ہیں کہ طالبان سے معاملات طے پا جانے کے بعد یہاں امن قائم ہو گا اور پوری دنیا کے لیے یہ اقتصادی کوریڈور ثابت ہو گا۔ بھارت نے حقیقت پسندی سے کام لیا ٗ پاکستان سے دوستانہ تعلقات کی اہمیت کا گہرائی سے جائزہ لیا اور دیرینہ مسائل کے منصفانہ تصفیے پر سرگرمی دکھائی ٗ تو لاہور عالمی اور علاقائی تجارت کا بہت بڑا مرکز بن جائے گا۔ ہم اِس شہر میں دور دراز سے آنے والے لوگوں کی بڑے پیمانے پر آمدورفت دیکھ رہے ہیں جو انتظامی سطح پر نہایت اچھی منصوبہ بندی کا تقاضا کر رہی ہے۔
اِن تبدیلیوں کے پہلو بہ پہلو علمی ٗ ثقافتی اور فکری تغیرات بھی اپنا نقش جما رہی ہیں۔ پہلے ایوانِ صدر عجیب و غریب مشاغل کا مرکز تھا جبکہ علم و تہذیب اور شعروسخن کے دلدادہ اور خوش طبع جناب سید ممنون حسین کے یہاں آنے سے ایک انقلاب آ چکا ہے۔ اب وہاں فکری اور شعری محفلیں منعقد ہوتی رہتی ہیں۔ دانش وروں ٗ ادیبوں اور صحافیوں کے ساتھ قومی امور پر مکالمے جاری ہیں جو قومی وحدت کو تقویت پہنچا رہے ہیں۔ وہ سفارتی سطح پر بھی حد درجہ متحرک ہیں اور سعودی فرماں رواؤں سے تعلقات میں گرمجوشی پیدا کرنے میں بہت اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ وہ مختلف شہروں میں تقریبات میں بھی حصہ لیتے ہیں اور اپنے ہم وطنوں تک حیاتِ نو اور اُمید کا پیغام پہنچا رہے ہیں۔ اُن کے خیالات میں صاف گوئی اور دوراندیشی کے جھرنے پھوٹ رہے ہیں۔ اُنہوں نے چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری فیصل آباد سے خطاب کرتے ہوئے نہایت فکر انگیز نکات اُٹھائے ہیں۔ وہ کہہ رہے تھے کہ ’’ایک زمانہ تھا کہ ہمارے معاشرے میں بدعنوان لوگ نکو بنے رہتے تھے اور اب یہ بدعنوان لوگ معاشرے کے سینے پر مونگ دل رہے ہیں۔ میں پوری قوم سے کہوں گا کہ اِن بدعنوان لوگوں کو نہ صرف بے نقاب کریں بلکہ معاشرے میں اُن کی سرگرمیاں مشکل بنا دیں۔ یہ بات میرے لیے بڑی پریشان کن ہے کہ قانون شکنی ہمارے قومی رویے میں شامل ہو گئی ہے۔ صورتِ حال اتنی بگڑ چکی ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کو اِس کی غلط روی کی طرف متوجہ کرے ٗ تو جواب میں وہ کہتا ہے کہ قانون پر عمل کرنا صرف میری ذمہ داری نہیں۔ میں فیصل آباد کی تاجر اور صنعت کار برادری کو مشورہ دوں گا کہ وہ فیصل آباد میں بین الاقوامی معیار کے تعلیمی اداروں کی داغ بیل ڈالیں۔ میں آپ کا ساتھ دوں گا۔ میں جانتا ہوں کہ بھارت کے ساتھ تجارت کی صورت میں شروع میں پاکستانی تاجروں اور صنعت کاروں کو کچھ پریشانیاں ہوں گی ٗ لیکن آپ باصلاحیت لوگ ہیں ٗ مسائل پر جلد قابو پا لیں گے۔ اگر ہم افریقہ اور جنوبی ایشیا پر توجہ دیں ٗ تو یوں ہم ایک نیا جہاں دریافت کر لیں گے۔ میں جلد نائیجریا کے دورے پر جا رہا ہوں۔ اِس دورے کا واحد مقصد پاکستان کی تجارت کو فروغ دینا ہے ٗ آپ بھی میرے ساتھ چلیں‘‘۔
اِس عظیم قومی دردمندی اور حقیقت پسندی نے ایک اعتماد کی فضا پیدا کر دی ہے اور سول ملٹری ہم آہنگی بھی پروان چڑھ رہی ہے۔ جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف بغاوت کا مقدمہ بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق اختلافات کو ہوا دینے کا باعث بنا ہوا تھا ٗ مگر قانون کی حکمرانی کے سامنے سبھی نے سر تسلیم خم کر دیا ہے اور خوش گمانی یہی ہے کہ سارے مرحلے بخیر و خوبی طے پا جائینگے۔ ہماری بہادر افواج نے ہزاروںجانیں نچھاور کر کے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ داخلی اور بیرونی چیلنجز سے نبردآزما ہونے کا عزم اور حوصلہ رکھتی ہیں۔ اُنہوں نے تھرپارکر میں انسانی جانیں بچانے اور متاثرہ افراد کو امداد بہم پہنچانے میں حیرت انگیز مستعدی سے کام لیا ہے۔ فوج کے ڈاکٹر قریے قریے پہنچے ہیں اور جگہ جگہ میڈیکل کیمپ لگے ہوئے ہیں۔ فوجی اور نیم فوجی دستوں نے بلوچستان میں اواران کے علاقے میں زلزلہ آنے پر دستگیری کا فریضہ بڑی جاں فشانی سے ادا کیا تھا۔ فوجی قیادت سالہا سال سے اِس صوبے میں اعلیٰ معیار کے تعلیمی ادارے قائم کر رہی ہے جن میں بلوچستان کے ہزاروں نونہال جدید تعلیم و تربیت حاصل کر رہے ہیں۔ محبت بھرے رشتوں کی مہک دور دور تک پھیلتی جا رہی ہے۔ سیاسی قیادت ہر نازک معاملے میں عسکری قائدین کو مشاورت میں شریک رکھتی اور اُسکے مشوروں کو بڑی اہمیت دے رہی ہے۔ طالبان سے مذاکرات کے بارے میں یہ عناصر ہم آہنگ پائے جاتے ہیں جو یقینا ایک بہت بڑی قومی پیش رفت ہے۔
تبدیلی کا یہ منظر نامہ اِس اعتبار سے اہل وطن کی توجہ کا مرکز بن گیا ہے کہ جماعت اسلامی کے تیس ہزار کے لگ بھگ باشعور اور متوسط درجے سے تعلق رکھنے والے ارکان کی جانب سے ایک نئی تاریخ رقم ہوئی ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ اُنہوں نے اپنے امیر کو دوسری ٹرم کے لیے منتخب نہیں کیا جس میں ایک سے زائد پیغام چھپے ہیں۔ منتخب ہونے والے امیر جناب سراج الحق کو پہلی فرصت میں اُنہیں پڑھنے کی پوری کاوش کرنا ہو گی جن کی قیادت میں جماعت اسلامی خیبر پختونخواہ میں قابلِ ذکر پارلیمانی کامیابیوں سے سرفراز ہوئی تھی۔ فخر کا مقام یہ ہے کہ ملک میں ایک ایسی سیاسی جماعت اپنی اعلیٰ روایات کو مستحکم کر رہی ہے جو رنگ ٗ نسل ٗ زبان اور فرقہ پرستی کی تمام تر تعصبات سے بالاتر ہے اور ہر پانچ سال بعد اپنے امیر کا خفیہ رائے دہی سے انتخاب کرتی ہے۔ اِس مستحکم داخلی جمہوریت نے جماعت اسلامی کو ایک انفرادی شان اور قوت عطا کی ہے کیونکہ ہمارے ملک میں ایک بھی ایسی جماعت نہیں جس پر خاندانوں کا قبضہ نہ ہو۔عوام کے اندر جمہوریت کی پیاس بڑھتی جا رہی ہے اور یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ جماعت اسلامی کی قیادت ٗ اِس کی عظیم عوامی خدمات اور اس کے پروگرام کو قرار واقعی اہمیت دیں گے اور اِس میں شامل ہو کر وڈیروں ٗ سرمایہ داروں اور مخدوموں سے نجات پا سکیں گے۔ ایک اخباری رپورٹ کے مطابق پچھلے دنوں کراچی کے ایک لاکھ سے زائد شہری جماعت اسلامی کے رکن بنے ہیں اور ہدف پانچ لاکھ نفوس تک پہنچنے کا ہے۔ اِس طرح عوام کی اخلاقی تربیت کا دائر بھی وسیع ہو گا اور سیاسی عمل میں درمیانہ طبقہ ایک مؤثر کردار بھی ادا کر سکے گا۔ جناب سید منور حسن نے پانچ سال تک جماعت کی فکری اور تربیتی بنیادیں مضبوط کرنے پر بڑی توجہ دی اور اُن کا یہ کارنامہ تاریخ میں آب و تاب سے محفوظ رہے گا۔ہم جناب سراج الحق سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ وسیع مشاورت ٗسیاسی میانہ روی ٗجذبات میں اعتدال اور عوام کی خدمت کو اپنا شعار بنائیں گے ۔ سید منور حسن اور عمران خاں نے طالبان سے متعلق جو موقف اختیار کیا تھا ٗ آج وہی قومی موقف قرار پایا ہے جو اُن کی بالغ نظری کی شہادت دے رہا ہے۔
تازہ ترین