• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ضعیف العمر افراد: معاشرے کا بیش قیمت اثاثہ

بوڑھے والدین سمیت تمام بزرگ شہری خصوصی توجّہ اور عزّت و تکریم کے مستحق ہیں
بوڑھے والدین سمیت تمام بزرگ شہری خصوصی توجّہ اور عزّت و تکریم کے مستحق ہیں

ہر سلیم الفطرت انسان میں اپنے والدین سے محبّت اور بڑھاپے میں اُن کی خدمت کا جذبہ بہ درجۂ اتم پایا جاتا ہے اور ایک مسلمان کا اپنے والدین کے ساتھ حُسنِ سلوک یہ ہے کہ وہ بڑھاپے اور ضعیفی کے زمانے میں ان کی خُوب خدمت کرے، کیوں کہ اس کا یہی عمل اُس کے جنّت میں داخلے کا ذریعہ بنے گا، جب کہ اس کے برعکس بوڑھے والدین کے آرام و سکون کا خیال نہ رکھنا اور اُن کی کفالت میں کوتاہی برتنا جنّت سے محرومی کا سبب بن جائے گا۔ 

دینِ اسلام میں ضعیف والدین کی خدمت و کفالت کی اہمیت کا اندازہ سورۃ الاسراء کی ان آیات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ’’اور تیرے ربّ نے حُکم دیا ہے کہ بجز اس کے کسی کی عبادت مت کرو، اور تم (اپنے) ماں باپ کے ساتھ حُسنِ سلوک کیا کرو، اگر تیرے پاس ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں، سو ان کو کبھی (ہاں سے) ہوں بھی مت کرنا اور نہ ان کو جھڑکنا، اور ان سے خوب ادب سے بات کرنا، اور ان کے سامنے شفقت سے، انکساری کے ساتھ جُھکے رہنا اور یوں دُعا کرتے رہنا کہ اے پروردگار! ان دونوں پر رحمت فرما، جیسا کہ انہوں نے مُجھے بچپن میں پالا پوسا۔‘‘ قرآنِ کریم کی ان آیات سے پتا چلتا ہے کہ اولاد کو اپنے والدین کا خدمت گزار ہونا چاہیے۔ 

نیز، معاشرے کا مجموعی رویّہ ایسا ہونا چاہیے کہ جو اولاد کو والدین سے بے نیاز اور غافل نہ کرے، بلکہ اُسے ان کا احسان مند بنائے اور بڑھاپے میں بالکل اُسی طرح ان کی خدمت کرنا سکھائے، جس طرح بچپن میں وہ اس کی پرورش اور ناز برداری کر چُکے ہیں۔ واضح رہے کہ مذکورہ بالا آیات ہی کی روشنی میں بعد ازاں والدین کے وہ شرعی حقوق و اختیارات مقرّر کیے گئے کہ جن کی تفصیلات ہمیں حدیث اور فقہ میں ملتی ہیں۔ نیز، اسلامی معاشرے کی اخلاقی تربیت اور مسلمانوں کے آداب و تہذیب میں والدین کے ادب، اطاعت اور ان کے حقوق کی نگہ بانی کو ایک اہم عُنصر کی حیثیت سے شامل کیا گیا۔

دینِ اسلام نے نہ صرف ضعیف العمر والدین کی خدمت کا حُکم دیا ہے بلکہ تمام معمّر افراد کی سیوا اور ان کی عزّت و تکریم کو باعثِ برکت قرار دیا ہے۔ نبیٔ کریم ﷺ کی حیاتِ مبارکہ کا بہ غور مطالعہ کرنے سے پتا چلتا ہے کہ آپ ﷺ عُمر رسیدہ افراد کا بے حد ادب و احترام فرمایا کرتے تھے، جس کی ایک جھلک ہمیں فتحِ مکّہ کے بعد رُونما ہونے والے واقعات میں بھی نظر آتی ہے۔ 

مثال کے طور پر حضرت ابو بکر صدیقؓ کے ضعیف والد آپ ﷺ کے دستِ مبارک پر اسلام قبول کرنے کے لیے مجلس میں لائے گئے، تو اس موقعے پر آپ ﷺ کی جانب سے اُن کی تعظیم سے متعلق حضرت ابوبکر صدیق ؓفرماتے ہیں کہ ’’مَیں اپنے والد، حضرت ابو قحافہ کو نبیٔ کریم ﷺ کی بارگاہ میں لایا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’آپ ؓ اپنے والد ِ بزرگوار کو گھر ہی میں رکھتے، مَیں خود وہاں آجاتا۔‘‘ (حاکم، المستدرک) حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺنے فرمایا:’’تمہارے بڑوں کے ساتھ ہی تم میں خیر و برکت ہے۔‘‘ (المستدرک 210:) اسی طرح ایک اور موقعے پر نبیٔ کریم ﷺ نے فرمایا کہ ’’وہ ہم میں سے نہیں جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور ہمارے بڑوں کی عزّت نہ کرے۔‘‘

ہر سال یکم اکتوبر کو معمر افراد کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ عُمر رسیدہ افراد کی اہمیت اور معاشرے کے لیے اُن کی خدمات کے اعتراف میں 1990ء میں اقوامِ متّحدہ کی ایک قرارداد کے نتیجے میں یہ دن منانے کا فیصلہ کیا گیا، جب کہ اس دن کو منانے کا مقصد معاشرے کو بزرگ افراد کی ضروریات، مسائل اور تکالیف سے متعلق آگہی فراہم کرنا اور لوگوں کی توجّہ بوڑھے افراد کے حقوق کی طرف دلانا ہے۔ 

ذیل میں دنیا کے مختلف خطّوں میں معمر افراد کے حوالے سے پائے جانے والے رویّوں کا مختصر جائزہ پیش کیا جا رہا ہے۔

برِصغیر پاک و ہند، عرب دُنیا اور تمام اسلامی ممالک میں 95فی صد بوڑھے والدین و دیگر معمر افراد کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ دُنیا کے ان حصّوں میں اولڈ ایج ہومز میں مقیم بزرگوں کی تعداد کُل آبادی کا فقط دو فی صد ہے، جب کہ مغربی ممالک میں یہ تناسب تقریباً 40فی صد ہے، کیوں کہ وہاں بوڑھے والدین اور دیگر معمر افراد کو اولڈ ایج ہومز بھیج دیا جاتا ہے، جو یقیناً ایک افسوس ناک اَمر ہے، کیوں کہ عام طور پر عُمر رسیدہ افراد کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچّوں کے درمیان رہتے ہوئے باقی ماندہ زندگی گزاریں اور اپنی نئی نسل کو دیکھ کر ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور دلوں کو طمانیت ملے۔ 

تاہم، اولڈ ایج ہومز میں بھیجے جانے والے بزرگوں کی یہ خواہش حسرت میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق جاپان میں رواں سال تنہا زندگی گزانے والے 37ہزار افراد کا انتقال ہوا اور ان میں سیکڑوں افراد کی لاشیں کئی ماہ بعد برآمد ہوئیں۔ ان میں سے تقریباً 30ہزار افراد عُمر رسیدہ تھے۔ 

یاد رہے کہ جاپان کی نصف آبادی ساٹھ سال سے زائد عُمر کے افراد پر مشتمل ہے اور مُلک میں بزرگوں کی آبادی کا اس حد تک بڑھ جانا جاپانی حکومت کے لیے کسی چیلنج سے کم نہیں۔ اس چیلنج پر قابو پانے کے لیے جاپانی حکومت کی جانب سے مختلف اقدامات کیے جا رہے ہیں، جن میں تیسرے بچّے کی ولادت پر والدین کو وظائف کی فراہمی بھی شامل ہے۔

دُنیا کے بعض ممالک میں معمّر افراد کے حوالے سے کچھ بھیانک روایات بھی رائج ہیں۔ مثال کے طور پر کینیا کے کلیفی ساحل پر عُمر رسیدہ افراد کو جادو ٹونے کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے ، لہٰذا اپنی جان بچانے کے لیے متعدّد بوڑھے افراد نہ چاہتے ہوئے بھی اپنے بال رنگنے پر مجبور ہیں۔ 

اسی طرح سوئٹزر لینڈ سمیت کئی ممالک میں خود کُشی کرنے کے باقاعدہ مراکز قائم ہیں اور یہاں اپنی زندگی کے خاتمے کے لیے آنے والے 90فی صد بوڑھے افراد ہوتے ہیں۔ بزرگ شہری ہمارے سماج کا عضوِ معطّل یا بوجھ نہیں، بلکہ ہمارے معاشرے کا اثاثہ ہیں اور ہر اعتبار سے تکریم کے مستحق ہیں۔