اسلام آباد ہائی کورٹ میں پاکستان تحریکِ انصاف کے ایم این ایز کو پنجاب ہاؤس میں جبری حراست میں رکھنے کے خلاف درخواست پر سماعت چیف جسٹس عامر فاروق نے کی۔
دورانِ سماعت عدالتی حکم پر آئی جی اسلام آباد پولیس علی ناصر رضوی عدالت میں پیش ہوئے۔
آئی جی اسلام آباد نے عدالت کو بتایا کہ چاروں ایم این ایز سے متعلق پولیس افسران کی جانب سے رپورٹ آ گئی ہے، اورنگزیب کچھی اور عثمان علی سے متعلق پولیس رپورٹ مبہم تھی، دونوں ارکان سے متعلق رپورٹس پر متعلقہ پولیس کو کلیئر رپورٹس دینے کا کہا ہے۔
آئی جی اسلام آباد کی رپورٹ کے مطابق پولیس اورنگزیب کچھی اور علی عثمان کے گھر گئی تو دونوں گھروں پر تھے، پولیس ظہور قریشی کی رہائش گاہ گئی تو وہ نہیں ملے۔
آئی جی اسلام آباد کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ظہورِ قریشی کی اہلیہ نے کوئی بیان نہیں دیا، البتہ ڈرائیور نے بیرونِ ملک جانے کا بتایا، ظہور قریشی سے متعلق بتایا گیا کہ وہ بچے کے داخلے کے لیے کینیڈا گئے ہیں، 30 مئی کے بعد ان کے بیرونِ ملک جانے کی کوئی دستاویز نہیں۔
وکیل حسن شعیب نے عدالت سے استدعا کی کہ ان ارکانِ اسمبلی کا پروڈکشن آرڈر جاری کیا جائے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ جب دونوں گھر پر ہی موجود ہیں تو پروڈکشن آرڈر کیسے جاری کریں؟
چیف جسٹس اسلام آباد نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ دونوں ارکانِ پارلیمنٹ ہیں، ان کے ایسے پروڈکشن آرڈر جاری نہیں کیے جا سکتے۔
بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے کیس کی سماعت آئندہ ہفتے تک ملتوی کر دی۔