• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ان دنوں اسٹیبلشمنٹ کے ستائے اور ناجائز مال بنائے روشن خیال جماعتوں کے رہنمائوں سے اگر سوال کیا جائے کہ آپ کے ہوتے ہوئے چراغوں میں روشنی کیوں نہیں ہے، تو مولویوں کی طرح پیٹ پر ہاتھ پھیر کر بزبانِ غالب کہہ دیتے ہیں
دل تو دل، وہ دماغ بھی نہ رہا
شورِ سودائے خطّ و خال کہاں
ایسا آساں نہیں لہو رونا
دل میں طاقت، جگر میں حال کہاں
اگرچہ بعض لبرل دانشور اور صحافی ملکی اور غیر ملکی ایجنسیوں کے تنخواہ داروں کیلئے میدان خالی کرنے کیلئے تیار نہیں لیکن لبرل جماعتوں کے ضعف کا بہرکیف اب حال یہ ہے کہ نہ صرف وہ اپنے نظریات پر شرمندہ شرمندہ نظر آتی ہیں بلکہ انہوں نے عافیت اسی میں جان لی ہے کہ بنیاد پرستوں کے اڑوس پڑوس میں ہی مسکن بنا لیا جائے اور تو اور سکہّ بند ترقی پسند پیپلز پارٹی اور اے این پی بھی اب اگر مگر پر گزارہ کرنے پر مجبور ہیں۔ بھٹو دور میں افغانستان کے معزول بادشاہ ظاہر شاہ کے حمایتی اسلامی انتہا پسندوں سمیت گلبدین حکمت یار کو پشاور میں لا بسانا اور پھر محترمہ بے نظیر بھٹو کے دور میں جنرل نصیر بابر کے ہاتھوں طالبان کی تخلیق کی ’’بدعتوں‘‘ کو اگر ایک طرف رکھ دیا جائے تو محترم آصف زرداری کے دور تک بہرصورت پیپلزپارٹی سیکولرازم کے حوالے سے ہی معروف ہے۔ مشرقی پاکستان میں اپنے ہی بھائیوں کیخلاف مہم جوئی کے نتیجے میں پیدا صورتحال کے تناظر میں معروضی جبر نے جرنیلوں کو بھٹو مرحوم کو اپنا حلیف بنانے پر مجبور کیا۔ اس دور کے استثنائی معروضیت کے سوا آصف زرداری کے دور تک کبھی بھی پیپلز پارٹی کو قبول نہیں کیا گیا اور جب جب بادل ناخواستہ ایسا ہوا، تو موقع ملتے ہی شب خون مارنے میں لمحہ برابر دیر بھی نہیں کی گئی۔ ایسے تمام ادوار مظلومیت میں ایک سے بڑھ کر ایک تھے لیکن زرداری صاحب کا دور اس کی انتہا تھا۔ ہاں اگر اس دور میں کرپشن پر قابو پا لیا جاتا کیونکہ باقی کچھ اگر پی پی رہنمائوں کے اختیار میں نہیں تھا تو کم ازکم اپنے آپ پر تو ان کا اختیار تھا کہ وہ خود کو کرپشن سے بچائے رکھتے، اگر ایسا ہو جاتا، تو صوفیوں کی سر زمین کے یہ سیاستدان بقول غالب آج ولی کہلاتے۔
زیر نظر کالم کا خیال ہمیں پچھلے دنوں کراچی پریس کلب میں ادارہ تعلیمات بھٹو شہید نامی تنظیم کے تحت ’اسلام کیلئے بھٹو کی خدمات‘‘ کے موضوع پر سیمینار کی روداد پڑھ کر آیا۔ عنوان کیلئے ’’مولوی‘‘ کا استعارہ ہم نے یاسر پیرزادہ صاحب کے اس کلاسیکل کالم سے مستعار لیا، جسے حالیہ دنوں میں سب سے زیادہ پڑھے جانے کا اعزاز حاصل ہوا ہے۔ سیمینار میں کہا گیاہے کہ بھٹو کی اسلام کیلئے بے تحاشا خدمات ہیں، ختم نبوت کے مسئلے کا حل ان کا کریڈٹ ہے، مرحوم نے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دے کر اسلام کے تشخص کو تحفظ فراہم کیا، اسلامی دنیا کو متحد اور اسلام دشمنوں کے سامنے اسلامی قوت کا مظاہرہ کیا، اکابر علماء ان کے اسلامی خدمات کے معترف تھے وغیرہ وغیرہ۔ سیمینار میں پی پی کے علاوہ مذہبی جماعتیں بالخصوص جماعت اسلامی اور جے یو آئی بھی موجود تھیں جنہوں نے پیپلزپارٹی کو یاد دلایا کہ وہ اپنے قائد کی ’’تعلیمات‘‘ پر عمل پیرا ہوتے ہوئے ملک میں اسلامی تعلیمات کے فروغ کیلئے کام کریں۔ سبحان اللہ!! بات اگر حقیقی اسلام کی ہو تو پھر تو کوئی تنازع ہے ہی نہیں کہ اسلام خود مساوات، عدل، برداشت، رواداری، احترام رائے اور اقلیتوں و خواتین کے حقوق کا ضامن ہے لیکن بات سے بات اس وقت نکلتی ہے جب جعلساز مصنوعی اور خود ساختہ سوچ برائے فروخت لئے بازار میں موجود ہوں، فی زمانہ دنیا کے کسی بھی اسلامی ملک میں اگرچہ اسلامی نظام نافذ نہیں ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ دنیا کے کسی بھی ملک میں اسلام کا اس قدر استحصال نہیں ہو رہا جس طرح ہمارے ہاں ہو رہا ہے ایسی کون سی واردات نہیں ہے جو اسلام کے اس قلعے میں مظلوم اسلام کے ساتھ نہیں کی گئی۔ یہ سارا کچھ ’’لبرل فاشسٹ‘ نہیں کر رہے بلکہ وہی کررہے ہیں جو اس کا ’’استحقاق‘‘ رکھتے ہیں؟ لبرل قوتوں کیخلاف جو ’’جہاد‘‘ برپا ہے اور اس میں سامراجی اور مارشل لائی کاسہ لیس جس طرح اپنا حصہ بقدر جثہ ڈال رہے ہیں، یہ اس لئے نہیں ہے کہ ایسے عناصر کے پیٹ میں مروڑ اس لئے ہو رہی ہے کہ ان سے اسلام کی مخالفت برداشت نہیں ہو رہی کہ لبرل کی جانب سے اسلام کی مخالفت کا تو شائبہ تک نہیں ملتا، اصل میں واقعہ یہ ہے کہ چونکہ لبرل دانشور و لکھاری جھوٹ کو بے نقاب کرتے ہوئے انہیں للکار رہے ہیں کہ اسلام کے مقدس نام پر اپنا دو نمبر سودا نہ بیچیں، تو یہ چیخ اٹھتے ہیں اور اپنی مخالفت کو اسلام کی مخالفت باور کراتے ہوئے عوام کو یہ جتلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ دیکھیں یہ لبرل فاشسٹ اسلام کیخلاف بول رہے ہیں!! یہ آزمودہ نسخہ 6دہائیوں سے بروئے کار ہے۔ اب تو ان کا جھوٹ سچ پر اس قدر غالب آگیا ہے کہ یہ جس وقت چاہیں اپنے پسند کے غازی و شہید کو قبولِ عام کا درجہ دے دیتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ بعض جیالوں نے بھی عافیت اسی میں جانی ہو کہ عظیم سیکولر رہنما ذوالفقار علی بھٹو کو بھی مولوی کا ’’برقع‘‘ پہنا دیا جائے۔ یہاں مولوی سے مراد وہ مولوی صاحبان نہیں ہیں جو دین پر عمل اور اس کی تعلیمات کے مبلغ ہیں، کہ ایسی ہستیاں قابل قدر ہیں بلکہ مذہب کا لبادہ اوڑھے وہ عناصر ہیں جن کی غلط تعبیر و تشریح کے نتیجے میں 98 فیصد مسلمانوں کے اس ملک میں ہنوز ہر ایک کا اپنا اپنا اسلام ہے اور مسلمان ،ملت واحدہ کی منزل سے کوسوں دور ہیں، ہم ملک کو ترقی پسند خطوط پر استوار نہ کرائے جانے کے عمل میں ایسے مولویوں کے ساتھ ان ترقی پسندوں کو بھی رکاوٹ سمجھتے ہیں جو ڈرائنگ رومز میں ساغر و مینا لئےاسلام کو کوستے ہوئے خلا میں انقلاب برپا کرتے رہے ہیں۔ باالفاظ دیگر خالص مولوی اور خالص سیکولر دونوں کا نقطہ نظر قابل احترام ہے۔ معاملہ اس وقت نزاعی صورت اختیار کر لیتا ہے جب ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور ہوتے ہیں۔ اب صحابہ کے دور کا اسلام ملاحظہ فرمائیں کہ حج اور جہاد کرنے والے ہزاروں، لیکن کسی صحابی نے اپنے مبارک نام کے ساتھ ایسا کوئی بقہ لاحقہ نہیں لگایا جو ہمارے ہاں تو یہ وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں۔ کہنا یہ مقصود ہے کہ اسلام کے مقدس نام پر جس انتہا پسند سوچ نے وطن عزیز کا محاصرہ کر لیا ہے اس کے جبر و ستم سے بچنے کیلئے لبرل تنظیمیں و رہنمائوں نے یا تو گوشہ نشینی اختیار کر لی ہے یا مخمصے کا شکار ہیں جبکہ رجعت پسند اپنی سوچ کو قومی باور کرانے کیلئے قائداعظم و قائد عوام کو بھی تھیو کریسی کا جامہ پہنانے کے لئے پہلے سے زیادہ سرگرم ہیں۔
تازہ ترین