فرانسیسی پارلیمنٹ نے ایک قانون کی منظوری دی ہے جس کے تحت ایسے مریض جن کے تندرست ہونے کی امید باقی نہ رہے وہ مزید علاج معالجہ یا ڈاکٹروں پر ’’بوجھ‘‘ بننے کی بجائے اپنی زندگی کے خاتمے کا فیصلہ خود کر سکیں گے۔ اس قانون کے تحت ڈاکٹر حضرات جب یہ سمجھیں گے کہ مریض کیلئے ادویات موثر نہیں رہیں اور انکے ذریعے مریض کو محض مصنوعی طریقے سے زندہ رکھا جا رہا ہے یا رکھا جا سکتا ہے تو وہ میڈیکل امداد بند کر سکیں گے۔اس قانون کے تحت انتہائی علیل یا ناقابل برداشت درد، تکالیف یا مصائب کے شکار مریض علاج بند کرنے کی درخواست کرنے کا استحقاق رکھیں گے اور ڈاکٹروں کو مریض اور میڈیکل ٹیم کے مشورے کے بعد مریض کی خواہش و امنگوں کو پورا کرنا پڑے گا ایسے مریض جو مستقل ’’کومہ‘‘یا بے ہوشی کی حالت میں ہیں اور ٹیکنیکل طور پر’’مردہ‘‘ ہیں ان کے لواحقین علاج بند کرنے اور مریض کو ان تمام دکھوں سے مکتی یا نجات دلانے کی درخواست کر سکیں گے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ یہ قانون یو تھنیزیا سے مختلف ہے اس میں ڈاکٹروں کو عملی طور پر مریض کی زندگی کا خاتمہ کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ یہ قانون نہ صرف فرانس بلکہ ہالینڈ اوربلجیم میں بھی لاگو ہے یہی وجہ ہے کہ گزشتہ برس ایک اطالوی وزیر نے ہالینڈ کی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے یوتھینزیا سے متعلق قوانین کا ہٹلر اور نازیوں کی پالیسیوں سے موازنہ کیا تھا جس پر ڈچ حکومت سخت برہم اور سیخ پا ہوئی تھی (یاد رہے ’’گے میرج‘‘ اور یوتھینزیا کے قوانین کا اطلاق دنیا بھر میں سب سے پہلے ہالینڈ نے اپنے ملک میںکیا تھا)۔ ہالینڈ کے وزیر اعظم اور اس کی کابینہ نے اٹلی کے وزیر کے بیان کو ناقابل قبول اور شرمناک قرار دیا تھا اپنے بیان میں اطالوی وزیر کارلو نے یہ کہا تھا کہ ہالینڈ کے یوتھینزیا کے قوانین اور کج خلقت بچوں کو ہلاک کر دینے کے بحث و مباحثے کے ذریعے یورپ میں نازی سوچ ابھر رہی ہے، میرے حساب سے اطالوی وزیر کو ایسا دقیا نوسی بیان یا انٹرویو دینا ہی نہیں چاہیے تھا۔ بنی نوع انسان کی اصلاح کیلئے ضروری ہے کہ اب اس’’میڈیکل علم‘‘ کا ازسر نو جائزہ لیا جائے۔’’انسانی نوع کی اصلاح کا علم‘‘ کا مطلب ہے جین (GENE) کے استعمال سے یا علاج معالجہ سے نسل انسانی کو بہتر بنایا جائے یہی وجہ ہے کہ ہالینڈ کے بعد بلجیم کے 75فیصد ڈاکٹر حضرات ایسے ہیں جو ایسے بیمار اور لاعلاج بچوں کو جن کے بچنے کی امید انتہائی موہوم ہوتی ہے انہیں موت کی نیند سلانا چاہتے ہیں ایک سروے کے مطابق بلجیم میں ایک برس کے دوران 143بچوں کو ڈاکٹروں نے ناقابل برداشت تکالیف سے نجات دلادی اور وہ نہایت پرسکون طریقے سے اپنے دکھوں سے نجات پاگئے۔ بلجیم میں 2002میں لاعلاج امراض کا شکار ہونیوالے مریضوں کو ان کی اور ان کے لواحقین کی اجازت سے انتہائی نرمی کے ساتھ موت کی نیند سلانے کی قانونی طور پر اجازت دی جا چکی ہے تاہم اس قانون کے تحت بچوں کو’’ہلاک‘‘ نہیں کیا جا سکتا۔ اس سروے کے دوران 121ڈاکٹر خواتین و حضرات سے سوالات پوچھے گئے جن میں 79فیصد نے بتایا کہ یہ ان کی پیشہ ورانہ ذمہ داری ہے کہ وہ مریض کو غیر ضروری دکھوں اور تکالیف سے نجات دلانے کیلئے اسے آسان موت دیں۔ یہاں یہ بات بھی بے حد اہم ہے کہ یونیورسٹی آف برسلز نے ایک تحقیق کی تھی جس کے دوران فلینڈرس کے علاقے میں جولائی 2023ءمیں اس ایک سال کے دوران 12 ماہ کی عمر کے اندر اندر مرنے والے 292بچوں کے ڈیتھ سرٹیفکیٹ حاصل کیے گئے اور ان کا علاج کرنیوالے 175ڈاکٹروں کو سوال نامے ارسال کیے گئے اس تحقیق کے بعد یہ نتائج سامنے آئے کہ ڈاکٹروں نے ان 76فیصد بچوں کو ہلاک کرنیکا فیصلہ کیا جو لا علاج قرار پا چکے تھے جبکہ 29فیصد کو موت کی آغوش میں سلانے کا فیصلہ ان کی آئندہ زندگی کا انتہائی پست معیار اور ابنارمل ہونے کے باعث کیا، ڈاکٹروں کے خیال میں یہ انکی اور معاشرےکی بھلائی کے خیال سے کیا گیا۔ کچھ عرصہ قبل انتہائی تکلیف دہ اور لاعلاج مریضوں کو ان کی موت کا اختیار دینے کی حمایت میں مہم چلانے والے لندن کے گروپ ڈگنیٹی ان ڈائنگ کے تحت کیے گئے ایک سروے کے دوران ہر چار میں سے تین افراد نے ’’موت کے حق‘‘ کے بل کو درست قرار دیا اور کہا کہ ایسے لوگوں کو سکون کی موت سے ہمکنار کرنا ایک درست اور رحمدلانہ اقدام ہوگا۔ سروے کیلئے رائے دینے والوں میں سے 33فیصد افراد چرچ آف انگلینڈ سے وابستگی رکھنے کا دعویٰ کرتے تھے جبکہ 9فیصد نے اپنا تعلق رومن کیتھولک سے بتایا۔ سب سے زیادہ تعداد ان 40فیصد رائے دہندگان کی تھی جن کا کہنا تھا کہ ان کی کسی مذہب سے وابستگی نہیں۔ یہاں ہم ’’مشرقیوں‘‘ کیلئے ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ سروے میں انکشاف کیا گیا کہ چرچ میں حاضری اور چندہ دینے والے 35 فیصد افراد نے چرچ جانا اور چندہ دینا چھوڑ دیا ہے اور اسکی وجہ وہ مذہبی گروپوں کی جانب سے لا علاج مریضوں کو مرنے میں مدد دینے سے متعلق بل کی مخالفت کو قرار دیتے ہیں۔ اندازہ کیجئے بنی نوع انسان کی اصلاح کیلئے ’’مغرب‘‘ خدا کے کاموں میں مداخلت سے بھی باز نہیں آتا اور چرچ کے پادری کو چندہ دینے سے بھی انکار کر دیتا ہے۔