جہاندیدہ ڈیڈلاک کو خاطر ہی میں نہیں لاتے کہ وہ راستہ نکالنے یا بنانے کا ہنر رکھتے ہیں۔ اپنی ذاتی تمنا پر کنٹرول کیلئے جو لوگ صحیح طرح اپنے اندر جھانک لیتے ہیں وہ سوسائٹی اور سیاست میں اطمینان کے قریب تر ہوتے ہیں! ڈیڈلاک کو تعطل اور بن بست سمجھئے۔ اسمارٹ ڈیڈلاک پر شکیل بدایونی کا ایک مصرع صادق آتا ہے:’’جہاں بے خودی میں قدم لڑکھڑائے وہی راہ مجھ کو دکھائی گئی ہے‘‘… کسی بھی ریاست میں کسی ترمیم کا جو ڈیڈلاک ہوتا ہے وہ 26ویں ترمیم ہو یا بھلے ہی 36ویں ترمیم اس میں ہمیشہ ہی اپوزیشن اور حکومت کیلئے بہرصورت مختلف دکھ سکھ ہوتے ہیں۔ ترمیم ہو جائے تو اکثر حزبِ اختلاف دکھ اٹھاتی ہے نہیں تو حزبِ اقتدار کو دکھ اٹھانا پڑتا ہے۔ کہیں حزبِ اقتدار دکھ کو ’’سیریس‘‘ بھی لے لیتی اور استعفیٰ کی سوچ میں پڑ جاتی ہے۔ یہ سوچ مشکل ہے سوچ کو بھی ارتقائی راستوں پر چلانا پڑ جاتا ہے کہ فی زمانہ چلن درست رہے، تبھی اپنے جذبات پر کنٹرول اور سوسائٹی کے سنگ رہنے کا معاملہ جاندار بنتا ہے۔ امریکہ میں سینکڑوں ترامیم ناکام رہی ہیں سو، دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے، یہی نہیں دل کے خوش رکھنے کو مغلوب کیلئے بھی یہ خیال اچھا ہے! مرکز والے لاک اینڈ لاکڈ میں جتنا بھی ’’پیار‘‘ مولانا کیلئے دل میں رکھیں یہ انکی مرضی لیکن جمہوریت کا بین الاقوامی ڈے پاکستان میں یوم فضل الرحمٰن بنا رہا۔ درویش نے جنگ، 5نومبر 2023(قبل از انتخابات) کی کالمانہ سرخی میں عرض کردیا تھا ’’مولانا سیاست کے ٹِچ بٹن مگر اقتدار کا لالچ نہیں!‘‘ پس یہ ثابت ہوا کہ سیاست میں گر کسی کو سیاست کا مولانا نہ مانیں تو بعض اوقات گُرو بھی ماننا پڑ سکتا ہے۔ ایک اسمارٹ ڈیڈلاک کے سامنے کی سعادت مریم نواز کے اعزاز میں بھی آئی ہے، جب سیاسی یا انتظامی بَند باندھنے میں اپنے خاص الخاص پوشیدہ تاہم واضح اتحادی ہوں تو ایسے تعطل کو اسمارٹ ڈیڈلاک کہنے میں کیا حرج ہے۔ راقم سمجھتا ہے اصولی معاملہ کو الگ مقام پر رکھا جائے اور قانونی معاملہ کو الگ جگہ ۔ گویا پاکستان کی تاریخ میں بالعموم اور پنجاب کی تاریخ میں بالخصوص پہلی دفعہ ہے کہ پچیس سے زائد وائس چانسلرز کی بھرتیوں کا اعزاز کسی وزیرِ اعلیٰ اور اسکی بیوروکریسی کو ملا ہے۔ بسم اللہ بہت اچھی تھی، کسی کی سفارش مانی نہ گئی، نوجوانوں اور بزرگوں کو برابر مواقع ملے، سیکرٹری سرچ کمیٹی جھکا نہ بِکا، سرچ کمیٹی کے پرانے کلاکار بیوروکریٹس بھی مثبت ثابت ہوئے، وزیرِ اعلیٰ تک کم و بیش آدھے امیدواران کی سمری گئی ، اب قانوناً ہر یونیورسٹی کے 3کے پینل سے وزیراعلیٰ نے ایک کو چننا تھا اور سمری چانسلر کے پاس جانی تھی، گورنر صاحب نے مہر تصدیق ثبت کرنی تھی (یہ قانون ہے)۔اگر گورنر صاحب کو تحفظات ہوں تو قانون کہتا ہے وہ اپنا نوٹ لکھ وزیرِ اعلیٰ ہاؤس کو نظر ثانی کا کہہ سکتے ہیں ۔ اب وزیرِ اعلیٰ کی مرضی ہے وہ چانسلر کی ایڈوائس مانیں نہ مانیں۔ یہاں دو صورتیں ہیں، 1۔ اگر مخصوص ایام سے دن اوپر ہو جائیں تو سمری مانی گئی۔ 2۔ اگر سمری واپس وزیرِ اعلیٰ کے پاس جاکر دوبارہ گورنر ہاؤس واپس آ جائے وہ سمری تبدیل شدہ ہو یا غیر تبدیل شدہ پس 18 ویں ترمیم کے تناظر میں وزیرِ اعلیٰ کا فیصلہ حتمی ہے! کہانی کا ایک رخ یہ بھی ہے کہ وزیرِ اعلیٰ نے 3 مرحلوں کے پہلے فیز کے سرچ کمیٹی کی جانب سے چنے گئے ناموں میں سے 4 ناموں پر سوالیہ نشان کندہ کر دیا، سرچ کمیٹی کے چنے گئے ناموں پر سوال اٹھانا یا مسترد کرنا بھی وزیرِ اعلیٰ کا یقینی استحقاق ہے۔ لیکن یہاں چار لوگوں پر سوال کندہ ہونا، مسترد ہونا ان پر دھبہ نہیں؟ کہا یہ جاتا ہے کہ خفیہ ایجنسیوں کے ’’کریکٹر سرٹیفکیٹس‘‘ ان مضروب امیدواران کے حق میں نہیں۔ سوال یہ کہ ایجنسیوں کی مرتب کردہ رپورٹس سرچ کمیٹی کو قبل از چناؤ کیوں نہ ملیں، ملیں تو مدنظر کیوں نہ رکھا؟ (یہ اخلاقی و روایتی پہلو ہے)۔ پھر سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ سرچ کمیٹی اور ٹاپ کلاس پروفیسرز کا وقت کیوں ضائع کیا گیا؟ جنکا وقت ضائع کیا گیا وہ بھی تو پہلے مرحلے میں شارٹ لسٹ وزیراعلیٰ ہی کی ٹیم نے کئے تھے! دوسری کیٹگری میں خواتین کی یونیورسٹیاں تھیں وہ سمری بھی اسمارٹ ڈیڈلاک کی نذر ہے اس میں کسی خاتون پر وزیراعلیٰ کی جانب سے بہرحال کوئی تحفظات نہیں تھے۔ تیسری کیٹگری چھوٹی یونیورسٹیوں کی ہے جنکے انٹرویوز جاری ہیں۔ بہرحال وزیرِاعلیٰ مریم کی نیت پر شک نہیں تاہم انکے مشیران میں ہائر ایجوکیشن کو سمجھنے والا شاید کوئی نہیں، جس وزیر کو ایڈیشنل چارج دیا ہے وہ بھی نہیں۔ کوئی رانا مشہود دریافت کرنا پڑیگا، رانا مشہود سے پچھلے دنوں انکے وزیراعظم آفس میں راقم نے کہا آپ نے وفاقی مشیری میں پنجاب ہائیر ایجوکیشن سے بے وفائی کی ہے! وفاقی حکومت کو ’’ترمیم کَشی‘‘ میں اسمارٹ ڈیڈلاک کے سبب شکست ہوئی ہے۔ سرچ کمیٹی میں حاضر سروس بیوروکریٹ درست تھے، پرانے بیوروکریٹس کی جگہ ماہرِ تعلیم لائے جاتے! متعلقہ سرچ کمیٹی کے کنوینر تفتیش زدہ نہ تھے؟ انکوائریاں نہیں سزا دیکھتے ہیں! عزت مآب گورنر پنجاب کو قانون پہلے دیکھنا چاہئے عین وقت پر نہیں۔ بہرحال الیکشن 2024ء سے قبل ہم نے ایک کالم میں زرداری صاحب سے درخواست کی تھی موقع ملا تو پنجاب کو زیرک گورنر ہی نہیں اچھا چانسلر بھی دیجئے گا کہ تحقیقی گلشن کا کاروبار بھی چلے!