کہتے ہیں وقت بدلنے میں دیر نہیں لگتی۔ یکم جنوری دو ہزار چوبیس ماہرِ اقتصادیات محمد یونس کے لئے ایک تکلیف دہ دن تھا۔ انہیں اُس دن بنگلہ دیش کی ایک عدالت نے ان کے اس کارنامہ پرانہیں چھ ماہ قید کی سزا سنا دی جس پر دنیا نے انہیں نوبل پرائز دیا تھا۔ اس سزا کے پس منظر میں شیخ حسینہ واجد تھی ۔سات جنوری کو وہ چوتھی بار انتخابات جیت کر بنگلہ دیش کی وزیر اعظم بن چکی تھی مگر وقت نے کچھ یوں کروٹ لی کہ وہی سزا یافتہ محمد یونس بنگلہ دیش کے سربراہ بن گئے اور حسینہ واجد کو بھارت میں پناہ لینا پڑی ۔عوام نے اس کے باپ شیخ مجیب الرحمن کے مجسمے توڑ دئیے ۔پھر سے قائد اعظم محمد علی جناح کے نام کے نعرے گلی کوچوں میں گونجنے لگے ۔اس وقت بھارت بنگلہ دیش کا اسی طرح مخالف بن چکا ہے ۔جیسے وہ پاکستان کا دشمن ہے۔ پچھلے دنوں ڈھاکہ یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر شاہد الزّمان نے فوجی افسروں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت ہندوستان کے خلاف بنگلہ دیش کو تحفظ درکار ہے۔ اس لئے اسے پاکستان سے دفاعی معاہدہ کرنا چاہئے تاکہ بھارت کو معلوم ہو جائے کہ بنگلہ دیش تنہا نہیں ۔ ایٹمی پاکستان بنگلہ دیش پر انڈین جارحیت برداشت نہیں کرے گا۔ ڈاکٹر شاہد الزّمان کی اس تجویز کی حمایت شرکا نے بھرپور تالیوں سے کی۔ شیخ حسینہ کے دور میں پاکستان کو بنگلہ دیش میں سرکاری طور ہمیشہ انڈین نقطہ نظر سے دیکھا گیا اورانیس سو اکہتر کی پاک بھارت جنگ کے تناظر میں دشمن قرار دیا گیا۔ حالانکہ وہ ایک فوجی شکست تھی ۔جس میں بنگلہ دیش کےلوگوں کوجتنی تکلیف ہوئی اس پر آج بھی ہم من حیث القوم شرمندہ ہیں لیکن اس میں پاکستان کے عوام کا کوئی قصور نہیں ۔ذوالفقار علی بھٹو نےبنگلہ دیش کا دورہ کیا تو کہا کہ پہلے دنیا میں ایک پاکستان تھا۔ اب دنیا میں دو پاکستان ہیں۔
سقوط ڈھاکہ کے چند سال بعد بنگالیوں کو احساس ہو گیا تھا کہ ہم بھارتی دام ِ ہم رنگ زمین کا شکار ہو گئے ہیں۔ شیخ مجیب الرحمن نے بھارتی بالا دستی تسلیم کر کے بنگال آزاد نہیں کرایا بلکہ بھارتی غلامی میں جکڑ دیا ہے ۔اسی نفرت کے سبب 1975 میں بنگلہ دیش کی فوج نے جنرل ارشاد کی قیادت میں شیخ مجیب کی حکومت کا تختہ الٹ دیا ۔شیخ مجیب سمیت سارے خاندان کو مار دیا گیا۔ا س وقت حسینہ واجد جرمنی میں تھی اس لئے بچ گئی۔بھارت نے چھ سال تک اس کی ذہن سازی کی ،اسے سرمایہ فراہم کیا اور بڑی کامیابی سے میدان ِ سیاست میں لانچ کیا۔ وہ جیسے ہی کامیاب ہوئی اس نے بھارتی ایجنڈے پر چلتے ہوئے پاکستان دشمنی کا آغاز کیا۔ اکہتر کے معاملات کوبہت بڑھا چڑھا کرپیش کیا گیا ۔ متحدہ پاکستان کی سیاسی جدوجہد کرنے والے بنگالیوں پر جنگی جرائم میں مقدمات چلائے، جماعت اسلامی کے عمر رسیدہ 80، 90سالہ بوڑھوں کو بھی پھانسیوں پر لٹکا دیا۔ کوٹہ سسٹم کا اجرا کیا گیا جس کے مطابق سرکاری ملازمتوں میں بنگلہ دیش کی آزادی میں حصہ لینے والوں اور پاکستان مخالف ذہن رکھنے والوں کی اولادوں کے لئے کوٹہ مختص کر دیا گیا، جس کے خلاف آخر کار وہ نوجوان میدانِ عمل میں آ گئے۔ جنہیں رضاکار کہا جاتا تھا۔ رضا کار کا مطلب تھا پاکستان کے رضا کار۔ طلبا نے اسی کو اپنی تحریک کا سلوگن بنا یا ۔’’تم کون ہم کون، رضا کار رضا کار‘‘۔ حسینہ واجد نےطاقت کا بھرپور استعمال کیا، چند ہی دِنوں میں 200 سے زائد نوجوان شہید ہو گئے، ہزاروں زخمی ہوئے،ہزاروں جیل بھجوا دیئے گئے۔ حالات بگڑتے ہوئے دیکھتے ہوئے سپریم کورٹ نے مداخلت کی اور یہ کوٹہ سسٹم ختم کر دیا مگر نوجوانوں نے اس وقت تک چین کا سانس نہیں لیا جب تک شیخ حسینہ کو بھارت نہیں پہنچا دیا۔ وہاں قائد اعظم محمد علی جناح کی تصاویر پھر سے آویزاں ہونے لگیں ۔ان کی یاد میں تقاریب کا اہتمام کیا جانے لگا۔
بھارت نے اس انقلاب کا الزام پاکستان پر لگایا اور شور مچایا کہ بنگالی مسلمان وہاں کی ہندو آبادی کے ساتھ ظلم کررہے ہیں ۔ وہاں مندر جلائے جا رہے ہیں ۔یہ ہو رہا ہے وہ ہو رہا ہے ۔بھارتی اسمبلی میں تقریروں میں یہاں تک کہا گیا کہ بھارت کو فوری طور پر بنگلہ دیش پر حملہ کر دینا چاہئے ۔ڈاکٹر محمد یونس کی عبوری حکومت قائم ہوتے ہی وہاں سیلاب آ گیا۔ پاکستانی حکومت نے مدد کی پیش کش کی اور پاکستانی عوام نے سیلاب زدگان کی بھرپور مدد کی۔
دونوں ممالک کے سربراہان میں پہلا اہم ترین رابطہ بھی امریکہ میں ہوا۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے سربراہ محمد یونس سے ملاقات کی اور انہیں دورہ پاکستان کی دعوت دیتے ہوئے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو فروغ دینے پر اتفاق کیا۔ ملاقات میں وزیراعظم نے بنگلہ دیش اور پاکستان کے مابین مشترکہ عقیدے، تاریخ اور ثقافت پر مبنی مضبوط برادرانہ تعلقات پر روشنی ڈالتے ہوئے دو طرفہ تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کے لیے دونوں ممالک کے مل کر کام کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ شہباز شریف نے دونوں ممالک کے عوام کے درمیان موجود خیرسگالی سے استفادہ کرتے ہوئے پارلیمانی تبادلوں، باہمی عوامی روابط، کھلاڑیوں، ماہرین تعلیم، فنکاروں اور طلبہ کے تبادلوں کے ذریعے مراسم کے ایک نئے دور کے آغاز کا فیصلہ کیا۔ شہباز شریف نے ڈاکٹر محمد یونس کو پاکستان کا سرکاری دورہ کرنے کی دعوت دی جس سے علاقائی تعاون اور دونوں ممالک کے مابین بات چیت میں مثبت پیش رفت ہوسکے گی۔اس سے پہلے وزیر اعظم شہباز شریف اپنے وفد کے ساتھ رات کو نیو یارک میں بنگلہ دیش کے چیف ایڈوائزر ڈاکٹر محمد یونس کی دعوت پر ان کے ہاں گئے اور بنگلا دیش کے اقوام متحدہ کی رکنیت کے 50برس مکمل ہونے کی تقریب میں شرکت کی۔ جہاں ڈاکٹر یونس نے وزیرِ اعظم شہباز شریف اور پاکستانی وفد کے اعزاز میں عشائیہ بھی دیا۔