وقت کا پہیہ تیزی سے چل رہا ہے۔ میاں شریف کو ہم سے جدا ہوئے 20بر س ہورہے ہیں۔وہ نہایت تحمل مزاج، دور اندیش، خدا ترس، اصول پسند، وقت کے پابند، سچے، پرہیز گار، اللہ اور رسول سے محبت کرنے والی شخصیت تھے۔ بھارتی پنجاب کے ایک گائوں جاتی امرا میں محمد رمضان اور مہراں بی بی کے گھر میں پیدا ہونے والا یہ شخص اپنے باقی6بھائیوں کا لاڈلا بھائی’’باؤجی‘‘ اپنے بھائیوں کی طرح قیام پاکستان سے قبل ہی لاہو ر میں قسمت آزمائی کیلئے آ گیا ۔ سب بھائی چاہتے تھے کہ ان کا یہ بھائی تعلیم حاصل کرے، ہماری طرح مزدوری نہ کرے۔ یہ سب بھائی ایک ہندو کی بھٹی پر ملازم تھے ایک دن مٹی اور توڑی سے بھرے ٹوکرے اٹھانے پر ہندو سے جھگڑا ہو گیا اور سب بھائیوں نے نوکری چھوڑ دی ’’باؤ جی‘‘ نے چند سو روپے کسی سے ادھار لے کر ایک بھٹی خریدی اور سات بھائیوں کے چودہ ہاتھوں نے مل کر کام شروع کر دیا یہ لوگ دن رات بھول گئے۔
اتفاق اور اتحاد کے باعث اللہ تعالیٰ نے انکے کاروبار کو جمع کی بجائے ضرب کی شکل میں ترقی دی اور یہ لوگ ساٹھ کے عشرے میں اتفاق فاؤنڈری کی شکل میں پاکستان کے بہت بڑے فولادی کارخانے کے مالک بن گئے۔ 1972ء میں اس فاؤنڈری کو اُس وقت کی حکومت نے قومی تحویل میں لے لیا۔ خاندان کے سب لوگ پریشان تھے کہ اب کیا کیا جائے ، سب کاروبار ختم ہو گیا۔ لیکن اس باہمت شخص نے اگلے روز صبح ہی معمول کے مطابق شہباز شریف سے کہا کہ ’’شہباز تیار ہو جاؤ کام پر جانا ہے۔‘‘ شہباز نے پوچھا کونسا کام ہمارے پاس کچھ نہیں رہا۔ جواب دیا، ’’دفتر موجودہے آؤ چلتے ہیں کوئی نئے کام کا آغاز کرتے ہیں‘‘۔ تین سال کے اندر ہی پھر اپنے پاؤں پر کھڑے ہو گئے۔ کچھ ہی عرصے میں جاوید پرویز کارپوریشن، نواز شہباز لمیٹڈ، اتفاق برادر، اتفاق ٹیکسٹائل، اتفاق شوگر مل لگا ڈالی۔
جب ارادے مضبوط اور نیک ہوں تو سب کام مکمل ہو جاتے ہیں جنرل ضیاء الحق کے دور میں اتفاق فانڈری اُن کو واپس مل گئی اسطرح میاں صاحبان کی یہ محنت ایک بڑ ے گروپ میںبدل گئی۔ میاں شریف نے اپنے بڑے بیٹے میاں نواز شریف کو میدان سیاست میں اتارااُن ہی کی رہنمائی میں میا ں نوازشریف ترقی کرتے چلے گئے پہلے وزیر پھر وزیر اعلیٰ اور پھر 3بار وزیر اعظم منتخب ہوئے ۔میا ں شہباز شریف بھی5 بار وزیر اعلیٰ پنجاب منتخب ہوئے ۔و ہ اب وزیر اعظم ہیں۔ میں ان چند لوگوں میں شامل ہوں جنہوں نے میا ں شریف کو بہت قریب سے دیکھا۔ میاں صاحب سے میری پہلی ملاقات میاں نواز شریف، میاں شہباز شریف کی شادی میں ہوئی ۔ جب میں بمشکل 10 سال کا تھا۔ میاں شریف کو پہلوانی کا بہت شوق تھا وہ پہلوانوں کی بڑی عزت کرتے تھے، دوسرے کلثوم نواز کے خاندان کا تعلق بھی پہلوانوں کے خاندان سے تھا۔ مجھے یاد ہے کہ اس وقت انہوں نے مجھے پہلوانوں سے ملوایا جو دوسرے شہروں سے ولیمہ میں شرکت کیلئے آئے تھے۔ دونوں بھائیوں کے ولیمے میں اسٹیج پر دولہاؤں کی جگہ پہلوان بیٹھے تھے۔ 1986ء میں جب میں نے اکنامکس میں ماسٹر کیا تو میاں صاحب نے میرے والد (حشمت اللہ خاں) کو کہا کہ میں منصور کو اپنے ساتھ رکھوں گا ۔میاں شریف نہ صرف خود پابند صوم صلوۃ تھے بلکہ تمام خاندان کیلئے بھی یہی حکم تھا اپنے سات گھروں کیساتھ ایک مسجد اور ایک مدرسہ بھی بنوایا۔ میاں شریف غریبوں، بیواؤں اور یتیموں کی امداد اسطرح کرتے کہ دوسرے ہاتھ کو بھی علم نہ ہوتا۔ ساری زندگی انہوں نے اپنی جیب میں ایک روپیہ بھی نہ رکھا، جیب میں ہمیشہ ایک پنسل اور چھوٹا سا کاغذ کا ایک ٹکڑا نوٹ کرنے کیلئے ہوتا تھا۔ 1986ء میں اتفاق ہسپتال کی بنیاد رکھی وہ باقاعدگی سے روزانہ ہسپتال آتے اور مریضوں کے پاس جا کر عیادت اور مالی مدد کرتے۔ فروری 1997ء شریف میڈیکل سٹی کی بنیاد ر کھی وہ روزانہ دونوں ہسپتالوں کا دورہ کرتے اور مریضوں کی تعداد کا ریکارڈ رکھتے تھے۔ انہوں نے ساری زندگی اسلامی تعلیمات کے مطابق گزاری۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے محنت کرو باقی سب اللہ پر چھوڑ دو وہ ہی رزق دینے والا ہے۔ 12اکتوبر 1999ء کے فوجی آپریشن کے وقت میاں شریف کے بیٹے اور پوتوں کوجیلوںاور میاں شریف کو انکے گھر پر ہی قید کر دیا گیا۔ اس دوران میری 19اکتوبر 1999ء کو ان سے ملاقات ہوئی میں وہ واحد شخص تھا جو 12اکتوبر کے بعدفوج کی اجازت سے ان کو ملا۔ اُس وقت انکے چہرے پر کسی قسم کی کوئی پریشانی اور تشویش نہ تھی۔ وہ اسی طرح ملے جیسے انکا طریقہ تھا۔ وہ نواز شریف اور شہباز شریف سے ملنے کبھی جیل نہیں گئے۔ 20اکتوبر 1999ء کو مجھے بھی فوجی حکومت نے Detainکیا اور ایک عرصے تک پاکستان کی مختلف ایجنسیاں مجھ پر اپنی کارروائی کرتی رہیں۔ جب رہائی ملی اور گھر پہنچا تو سب سے پہلے میاں صاحب نے ہی فون کیا اور خیریت دریافت کی،یہ انکی محبت تھی۔ 10دسمبر 2000ء کو اُنکو اوراُن کے خاندان کو سعودی عرب جلاوطن کر دیا گیا۔ ان کی وطن سے محبت کایہ عالم تھا کہ انہوں نے لاہور میں تدفین کی وصیت کی تھی۔ 29اکتوبر 2004ء کو اُن کا انتقال ہوا انکی نمازجنازہ خانہ کعبہ میں ادا کی گئی۔ اس وقت کی حکومت نے ان کی وصیت کا احترام تو کیا مگر اُنکے خاندان کو تدفین میں شرکت کی اجازت نہ دی میاں شریف ایک انتہائی پر عزم، بامعنی، جدوجہد سے بھر پور بامقصد زندگی گزارنے کے بعد اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ مگر ان کی یاد ہمیشہ ہمارے دل میں رہے گی۔