• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ستّر کی دہائی میں پنجاب میں مذہبی قدامت پرست طاقتیں مضبوط ہونا شروع ہو گئی تھیں۔ ان کی بڑھتی ہوئی طاقت کے ردعمل میں ذوالفقار علی بھٹو نے اسلامائزیشن کاسلسلہ شروع کرتے ہوئے جمعہ کو چھٹی، شراب اور ریس پر پابندیوں جیسے اقدامات کئے تھے پھر جس طرح سے قومی اتحاد نے بھٹو حکومت کا خاتمہ کیا اور ضیاء الحق نے بنیاد پرستی کو معاشرے پر لاگو کیا، تاریخ کا حصہ ہیں ۔ اسّی اور نوّے کی دہائی تک پنجاب اور کافی حد تک خیبرپختونخوا میں مذہبی انتہا پسندی اور فرقہ واریت کی وبا پھیل چکی تھی۔ اس زمانے میں سندھ اور بلوچستان میں روایتی مذہبی ہم آہنگی نظر آ رہی تھی۔ ہمارے سندھی دوست بڑے فخر سے کہتے تھے کہ سندھ صوفیاء کی دھرتی ہے اور یہاں پنجاب کی طرح کی انتہاپسندی اور فرقہ واریت ممکن نہیں ہے لیکن ہمارا خیال تھا کہ یہ صرف عارضی سکون ہے اور سندھ بھی پنجاب کی طرح مذہبی انتہا پسندی کی لپیٹ میں آجائے گا۔پنجاب بھی ساٹھ کی دہائی تک صوفیاء کی دھرتی سمجھا جاتا تھا لیکن پھر اس میں تبدیلی آنا شروع ہوئی۔
اگر غور کیا جائے تو پورے شمالی ہندوستان میں پنجاب صوفی اسلام کی بنا پر مہمیز تھا۔ یہاں سب سے زیادہ صوفی شعراء نے جنم لیا۔ تیرہویں صدی کے بابا فرید، پندرھویں صدی کے بابا گرونانک اور شاہ حسین، اٹھارویں صدی کے بلھے شاہ اور وارث شاہ جیسے بڑے صوفی شعراء پنجاب میں پیدا ہوئے۔ ساٹھ کی دہائی تک پنجاب کے زرعی معاشرے میں عوام صوفیاء کے اسلام کے پیروکار تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب صوفیاء کا کلام ہر جگہ پڑھا اور سنا جاتا تھا۔ اس کھلی فضا میں فلمی صنعت بھی اتنی مضبوط تھی کہ ہر ہفتے دو چار فلمیں ریلیز ہوتی تھیں پھر پولیٹیکل اکانومی (سیاسی معیشت) کی تبدیلیوں کی بنا پر روایتی طرز فکر ختم ہوناشروع ہو گیا۔ روایتی ہم آہنگی مفقود ہونے لگی اور نئی سرمایہ دارانہ، تاجرانہ معیشت نے بے یقینی کی صورتحال پیدا کردی۔ ایک طرح سے روحانی اور فکری خلا پیدا ہونا شروع ہوا جس میں قدامت پرست انتہا پسندی ابھر کر سامنے آئی۔ اس بدلتی ہوئی صورتحال میں افغان جہاد نے جلتی پر تیل کا کام کیا لیکن یہ رجحان اس سے پہلے ستّر کی دہائی میں شروع ہو چکا تھااس لئے اسے کلیتاً افغان جہاد کی پیداوار نہیں کہا جا سکتا۔
سندھ جاگیرداری کے زیر اثر زیادہ روایتی تھا۔ وہاں سے آبادی باہر کے ملکوں میں زیادہ جانا شروع نہیں ہوئی تھی۔ شہروں کی طرف منتقلی کا عمل بھی کافی سست تھا۔ اس لئے وہاں ایک کافی مدت تک روایتی ہم آہنگی قائم رہی لیکن پچھلی ایک ڈیڑھ دہائیوں میں سندھ کی صورت حال بھی تبدیل ہو کر پنجاب اور باقی ملک کے مماثل ہوگئی ہے۔ اب وہاں بھی زمانہ کہنہ کے رواج واپس آرہے ہیں ۔ اس کے علاوہ مذہبی منافرت اور فرقہ پرستی کی تخریبی طاقتیں شورش برپا کر رہی ہیں۔ کاروکاری، عورتوں کو زندہ دفن کرنا، ونی، وٹہ سٹہ جیسے رواج عام ہو رہے ہیں۔ ہندو عورتوں کو زبردستی مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے، مندروں پر حملے کئے جاتے ہیں اور فرقہ وارانہ فسادات بھی جگہ جگہ پھوٹ رہے ہیں۔عورتوں کے خلاف سخت ترین سزاؤں کا نظام انگریز کے آنے سے پہلے بھی تھالیکن اس پر پابندیاں لگا دی گئی تھیں۔ ان پابندیوں کی وجہ سے ایسی سزاؤں میں کافی کمی آگئی تھی لیکن اب جب پرانا نظام ٹوٹ پھوٹ کاشکار ہو گیا ہے تو قدامت پرستی کے یہ عفریت دوبارہ سے زندہ ہو رہے ہیں۔ کہا جاتا ہے خواتین کے خلاف جرگوں کے قوانین ایک مخصوص قومیت کے قبائل میں عام ہے لیکن اگر غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ رجحان پنجاب اور دوسرے علاقوں میں بھی موجود ہے۔ اس کا تعلق قدامت پرستی اور حکومتی عملداری کے فقدان سے ہے۔
سندھ اور دوسرے جاگیردارانہ علاقوں میں حکومتی رٹ بہت کمزور ہو چکی ہے۔ ستّر کی دہائی سے پہلے نوکر شاہی کا راج تھا اور جاگیردار اس کے تابع تھا لیکن جمہوریت کا جاگیردارانہ علاقوں میں یہ منفی نتیجہ نکلا کہ تمام طاقت جاگیردار کے ہاتھوں میں آگئی ہے۔ اب جاگیردار اپنی مرضی کے افسران اور حکومتی کارندے منتخب کرتا ہے۔ اس لئے افسر شاہی جاگیرداروں کے تابع ہو چکی ہے۔ اب ہر جاگیردار کاعلاقہ اس کی اپنی ریاست بن چکا ہے جس میں وہ سیاہ و سفید کا مالک ہے۔ یہ ہے وہ صورتحال اور ماحول جس میں ظالمانہ جرگے انسانیت سوز فیصلے کرتے ہیں۔
مذہبی انتہا پسندی اور فرقہ واریت کو بھی بہت سے دوست باہر سے کی جانے والی سازش قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک مخصوص ملک اور ملک کے مقتدر حلقے ایک منصوبے کے تحت سندھ میں مخصوص انداز فکر کے مدرسے کھول کر مذہبی انتہا پسندی اور منافرت کو ہوا دے رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ یہ دعویٰ ایک حد تک درست ہو لیکن یہ بنیادی تبدیلیوں کی اساس نہیں ہے۔ سندھ سے بہت پہلے یہ سارا کچھ پنجاب اور ملک کے مختلف حصوں میں ہو رہا ہے۔ سیاسی معیشت میں سست رو تبدیلی کی وجہ سے یہ رجحان دیر سے سندھ میں پہنچا ہے لیکن اب اس جن کو بوتل میں بند نہیں کیا جا سکتا۔پنجاب میں ستّر کی دہائی سے بہت بڑی تعداد ترک وطن کر کے دوسرے ملکوں میں روزگار کی تلاش میں نکل پڑی تھی۔ اندرون علاقہ بھی دیہات سے شہروں کی طرف ترک مکانی کا بہت بڑا سلسلہ شروع ہوچکا تھا۔ مشینی کاشت سے پرانے تمام معاشی رشتے تبدیل ہو رہے تھے۔ اب زرعی شعبے کی اہمیت کم ہونا شروع ہو چکی تھی اور کیش اکانومی (نقدی معیشت) ہر طرف اپنے پنجے گاڑ رہی تھی۔ اس بنیادی معاشی تبدیلی سے پرانے اعتقادات کا نظام بھی ختم ہو رہا تھا۔ جیسا کہ پہلے کہا جا چکا ہے کہ ایک خلا پیدا ہو گیا تھا جسے قدامت پرستی اور انتہا پسندی نے پُر کیا ۔ یہ عمل پاکستان میں ہی نہیں بلکہ دنیا کے مختلف ملکوں بشمول ہندوستان اور مشرق وسطیٰ میں بھی ہوا ہے۔
سندھ کی پولیٹیکل اکانومی بھی اب تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے۔ شہروں کی طرف نقل مکانی سے نئے طبقات جنم لے رہے ہیں خاص طور پر ایک اپنی طرز کا درمیانہ طبقہ پیدا ہورہا ہے۔شہروں میں اتنی تیزی سے باہر سے آنے والے لوگوں کی وجہ سے ان کی ہئیت ترکیبی بدل گئی ہے۔ اب وہ پرانا محلے داری اور آپسی ہم آہنگ رشتوں کا نظام ختم ہو رہا ہے۔ شہروں میں نئے آنے والے ایک دوسرے کے لئے اجنبی ہیں۔ ان اجنبی لوگوں کے ہجوم ایک دوسرے کو مذہبی منافرت اور فرقہ پرستی کا نشانہ بنانے سے گریز نہیں کرتے۔ آپ سندھ کے پسماندہ ترین علاقے تھر کو ہی لیجئے۔ ایک اندازے کے مطابق وہاں سے پچیس تیس ہزار لوگ کراچی میں روزی کما رہے ہیں اور اپنی ترسیلات تھر بھیج رہے ہیں۔ اس سے علاقے کی معیشت میں کافی بنیادی تبدیلیاں آنا شروع ہو چکی ہیں۔ یہ وہ معاشی تبدیلیاں ہیں جو پورے سندھ میں نئے طرح کے مذہبی رجحانات کی بنیاد بن رہی ہیں۔
سندھ میں پہلے سے ہی لسانی اور قومیتی تضادات ملک کے دوسرے حصوں کی نسبت کہیں زیادہ ہیں۔ اب اگر اندرون سندھ اور شہروں میں لاقانونیت اور مذہبی انتہا پسندی میں اضافہ ہوتا گیا تو یہ ایک ناقابل تصور المیے کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔ اس کا واحد حل گُڈ گورننس ہے جوکہ فی الحال کہیں نظر نہیں آتی۔
تازہ ترین