ایسا نہیں کہ وارث شاہ کے دور میں پنجاب کسی اندرونی اور بیرونی یلغار اور خلفشار سے محفوظ مکمل پْرامن خطہ تھا۔تب بھی ظاہر پرستوں اور صوفیا کی چپقلش چلتی رہتی تھی،تب بھی تبلیغ ، سیاست اور تجارت کا چولا پہن کر آنے والے روشن خیال اوراجلی فضا میں تفریق اور تقسیم کا زہر بھرتے رہتے تھےلیکن اْن کی منہ زوری کومقامی لوگوں نے یہ اجازت کبھی نہ دی کہ وہ کھلے عام پنجاب کی قدروں کے خلاف کارروائیاں کر سکیں۔تب انسانی اور ثقافتی قدروں کا عروج تھا،وہ ثقافت جو انسان کے وجود میں خیر کی قوت کو متحرک کر کے دنیا کو خوبصورت بناتی ہے۔وارث شا ہ کے پنجاب میں ہندو ، مسلمان ،سکھ ،عیسائی اور دیگر مذاہب کے لوگ رواداری اور انسان دوستی کے اصولوں کے پیروکار تھے،پنجاب کی لازوال داستان ہیر رانجھا ،تاریخ ،ثقافت ،سیاست ،معاشرت اور مذہب کے حوالے سے اٹھارویں صدی کے پنجاب کی روشن جھلک ہے۔
جب مسلمانوں کے گھر پیدا ہونے والا رانجھا ترکِ خودی اور ذات کی تفہیم کے لئے ہندو جوگیوں کے ڈیرے پر جا کر جوگ لیتا ہے۔اس دور کا سماج کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والے صوفی ، سنت اور جوگی کا احترام کرتا تھااور سماج کی نیک ہستیوں کے خلاف جانے والوں کا محاسبہ کیا جاتا تھا۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ آج 21 ویں صدی کا پنجاب 18 صدی سے ہر شعبے میں ترقی یافتہ حالت میں ہوتا ،کیونکہ 19 ویں اور 20 ویں صدی سائنس اور ٹیکنالوجی کی صدی شمار کی جاتی ہیں۔لیکن ہماری بدقسمتی دیکھیے کہ علم تک رسائی کی اتنی شکلیں دریافت ہونے کے باوجود آج کا پنجاب 18ویں صدی والے پنجاب جیسا بھی نہیں ہے، ہر شعبے میں تنزلی نمایاں ہے ترقی صرف معیشت کے بڑھتے گھٹتے اعشاریوں تک محدود نہیں ہوتی ، اخلاقی قدروں کی پامالی معاشروں کو تباہ کر دیتی ہے۔آج یہ حالت ہے کہ صوفیا کی تعلیمات میں ڈھلے ہوئے کھلے ڈھلے پنجاب کا دَم گھٹنے لگا ہے ، اسےتنگ نظری کے فریم میں مقید کر دیا گیا ہے جو اس سے نکلنے کی کوشش کرتا ہے اس پر کوئی الزام یا فتویٰ صادر کر کے اس کی ہستی کو مٹا یا سوال بنا دیا جاتا ہے۔
مذاہب اخلاقی قدروں کا مصدر ہوتے ہیں انسان کے اندر کے شر کو قابو کرنے کے لیے مذہبی اقدار معاون ہوتی ہیں لیکن یہ کیسا وقت آگیا ہے کہ جانے کب کوئی اپنے ذاتی انتقام اور ذہنی انتشار کے باعث کسی بھی فرد پر سوشل میڈیا کی کوئی تکنیک استعمال کرتے ہوئے مذہبی گستاخی کاالزام عائد کر دے اور بپھرا ہوا اندھا بہرہ ہجوم اس فرد کو بے رحمی سے موت کے حوالے کر دے، ہجوم کے ہاتھوں لوگوں کے مرنے اور جلنے کے واقعات تو ظالم بادشاہوں کے دور میں بھی نہیں تھے تو کیا یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ ریاست تماشائی کےکردار سے نکلنے کو تیار نہیں ہو رہی ورنہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ لوگ دن دہاڑے قانون کو اپنے ہاتھ میں لیں ،بے گناہ کی زندگی سے کھیلیں اور پھر اپنے جرم پر فخر کی تصویریں سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔
ملک کو نفرت اور شدت کا اکھاڑہ بنا کر خوف کی فضا تان دی گئی ہے ۔ریاست کو سوچنا ہوگا ، اپنی رِٹ قائم کرنی ہوگی ، لاقانونیت کو نظر انداز کیا جاتا رہا تو پھر کوئی بھی محفوظ نہیں رہ سکتا۔وارث شاہ کے عرس کے حوالے سے ان کی فکر کے مختلف پہلوؤں کواُجاگر کرنے اور سماج میں رواداری پھیلانے کے لئے وجدان انسٹیٹیوٹ آف صوفی ازم نے ورلڈ سنٹر فار پنجابی کے تعاون سے ایک روزہ وجدان وارث شاہ کانفرنس کا انعقاد کیا۔محققین نے ہیر وارث شاہ کی تاریخی ، سماجی اہمیت ، فلسفیانہ افکار ، اس کے ادب و ثقافت پر اثرات کا عمدہ جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ اس تشویش کا اظہاربھی کیاکہ وارث شاہ نے جس پنجاب کے مختلف عقائد لوگوں کو کنبے کی لڑی میں پرو کر پنجابی سماج کو آفاقی قدروں سے جوڑا اور اسے وسعت سے ہمکنار کیا ۔آج وہی پنجاب فرقہ پرستی اور بنیاد پرستی کا شکار ہو کر ادب و ثقافت سے دور ہوتا جا رہاہے۔افتتاحی تقریب کے صدر صاحبزادہ مسعود احمد عالم پوری نے کانفرنس کا افتتاح کیا ،دیگر مقررین میں ڈاکٹر رزاق شاہد ،ڈاکٹر کلیان سنگھ کلیان،ڈاکٹر عباد نبیل شاد،ڈاکٹر جواز جعفری ،پروفیسر زبیر احمد ،نین سْکھ، ڈاکٹر محمد جواد ،ستونت کور ،ڈاکٹر سعادت علی ثاقب ،ڈاکٹر شبنم اسحق، ڈاکٹر ظہیر وٹو ،علی عثمان باجوہ ، عتیق انور راجہ، ممتاز ملک ، رخشندہ نوید ، بینا گوئندی ،محمد عباس مرزا ، الطاف چیمہ ، انجم قریشی ، بِیا جی ، خالد نصر شامل تھے ،عدیل برکی ، تیمور افغانی،شبانہ عباس نے ہیرکی گائیکی سے خوب سماں باندھا۔ وارث شاہ کی فکر ، احساس اور تخیل میں رچا پنجاب ہم سب کی بقا کا ضامن ہے ، آئیے سب مل کر عملی طور پر اس روادار اور انسان دوست پنجاب کے لئے کاوش کریں۔