• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بابر سلیم خان، سلامت پورہ، لاہور

عظیم ناول نگار و افسانہ نگار، لیو ٹالسٹائی 9 ستمبر 1928ء کو رُوس کے ایک علاقے، یاسنایا پولیانا میں پیدا ہوئے۔ 1862ء میں جب ٹالسٹائی کی عُمر 34 برس ہوئی، تو انہوں نے 18 سالہ صوفیہ بیرس سے پہلی ملاقات کے چند ہفتوں بعد ہی شادی کرلی اور اُسی برس اپنے عالمی شُہرت یافتہ ناول، ’’جنگ اور امن‘‘ پر کام کا آغاز کردیا۔ اس ناول کا پہلا مسوّدہ 1865ء میں مکمل ہوا۔ اس کے فوری بعد ٹالسٹائی نے اس کا از سرِ نو جائزہ لینا شروع کیا اور متعدد مرتبہ مسوّدے پر نظرِ ثانی کی۔ سات برس کے دوران انھوں نے یہ مسوّدہ آٹھ بار لکھا۔

1870ء کی دہائی میں ٹالسٹائی کے ایک اور ناول، ’’اینا کرینینا‘‘ کی اشاعت نے اُن کی مقبولیت میں بےپناہ اضافہ کردیا۔ تاہم، اس موقعے پرٹالسٹائی اپنے اشرافیائی پس منظر اور بڑھتی ہوئی مقبولیت کے باعث بےچین رہنے لگے۔ اس دوران اُن کے ذہن میں رُوس میں رائج مذہب سے متعلق کئی سوالات نے جنم لیا اور انہوں نےخیال ظاہر کیا کہ رُوس میں مروّجہ مذہب حقیقی مذہبی تعلیمات کی تشریح سے مطابقت نہیں رکھتا۔ ٹالسٹائی نے ریاست کے کردار اور مِلکیتی حقوق کے تصوّر پر بھی تنقید کی، جس پراربابِ اختیار نےاُن کی کڑی نگرانی شروع کردی اور آرتھوڈوکس چرچ نے اُن سے قطع تعلقی کرلی۔ 

بہرکیف، ٹالسٹائی کی روحانیت میں دل چسپی روز بہ روز بڑھتی چلی جا رہی تھی، یہاں تک کہ 1880ء کی دہائی میں وہ راہبوں کی مانند زندگی بسر کرنےلگے۔ رہبانیت اختیار کرنے کے نتیجے میں اُن کی ازدواجی زندگی بھی متاثر ہوئی، تو انہوں نے اپنی بیٹی کے ساتھ اپنی ہم شیرہ کی مختصر سی جاگیر میں رہنے کا فیصلہ کیا۔ 20 نومبر 1910ء کو نمونیا کے باعث اس عظیم ناول نگار و افسانہ نگار کی موت واقع ہوگئی۔ گو کہ ٹالسٹائی کو اُن کی علمی خدمات پر اُن کی زندگی میں کوئی ایوارڈ نہیں دیا گیا، مگر انہیں 1902ء کے نوبیل پرائز برائے لٹریچر کے لیے نام زد ضرور کیا گیا۔

ٹالسٹائی نے پوری زندگی اپنے خود ساختہ اصولوں کے تحت گزاری اور انہوں نے ان اصول و ضوابط کی ایک طویل فہرست بھی مرتّب کر رکھی تھی۔ مثال کے طور پر رات دس بجے سونا اور صبح پانج بجے بے دار ہونا۔ دو گھنٹے سے زیادہ قیلولہ نہ کرنا۔ کھانے میں اعتدال کا مظاہرہ اور میٹھے سے پرہیز کرنا وغیرہ۔ نیز، اُنھوں نے اپنی اخلاقی و دنیاوی ناکامیوں کی بھی ایک طویل فہرست مرتّب کر رکھی تھی۔

ناقابلِ اشاعت نگارشات اور ان کے تخلیق کار برائے ’’صفحہ متفرق‘‘

کِھلا گُلاب ،میرا وطن(اُمِّ بختاور)تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی قتل ہوئے (قاسم عبّاس، اونٹاریو،کینیڈا)جب پاکستانی ایئرپورٹ پر بھارتی پرچم لہرا یا گیا،معرکۂ عین جالوت(محمد عمیر جمیل،کراچی)منشیات کا خاتمہ، ہماری بقا(رفیع احمد)کمالِ صبر میں کردارِ کربلا (حسن عسکری کاظمی) نوجوان غیر ممالک کے ویزوں کے تلاش میں کیوں؟،پاکستانی نوجوانوں کی مُلک سے نقل مکانی(فیضان شفیق جمالی)اسلامی بینکاری کس طرح کا م کرتی ہے؟(محمد جبران) پاکستان کے سابق کرکٹرز، بجلی کے بھاری بھرکم بِل، ایک اہم وضاحت، گورنمنٹ ٹیچر ز سوسائٹی گل زار ہجری میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ(شہناز سلطانہ، رِمشاطاہر، سرجانی ٹائون، کراچی)، تجاویز برائے نئی پاکستانی کرنسی (طارق ثنائی، لاہور)ڈاکٹر منظور علی ویسریو کی لسانی و ادبی خدمات (ارشد حسین چنا)ساون، پاکستانی قوم سے خطاب، پنجابی مہینہ ’’بھادوں‘‘، بادشاہ اور رعایا پر ٹیکس (بابر سلیم خان، سلامت پورہ، لاہور) قیام ِ پاکستان ،تاریخ کے جھروکوں سے، سفیرِحسینؓ،مسلم بن عقیلؓ (ڈاکٹر ایم کے ریحان) آزادی کے اغراض و مقاصد،وہؐ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا(بنتِ صدیقی کاندھلوی)وائلڈ لائف کے اقدامات (مرزا محمد رمضان)نیٹو کا مستقبل خطرے میں (محمد کاشف) دہشت گرد کی پہچان (جرار اے جعفری) پاکستان بنتے دیکھا (محمد ایوب چوہدری ایڈووکیٹ) پانی زندگی ہے(مجاہد خان، گلشنِ اقبال، کراچی)بازی گرمَیں بازی گر، چائے (مبشّرہ خالد)، ادبی رپورٹ (عبدالرشید، لیاقت پور)ابنِ انشا کی یاد میں(عندلیب زہرا) چمکتے موتی (ابرار حسین) امرتا پریتم، وارث شاہ اور پنجاب کی دو مائیں (امجد چشتی) کچّے کے ڈاکو، ڈاکٹر اپنے پیشے کو بدنام نہ کریں(زاہد رؤف کمبوہ)پاکستان کی آزادی (احمد شفیق، کراچی) یومِ دفاعِ پاکستان، ہمّت و جرأ ت سے بھرپور دن (پروفیسر حکیم سید عمران فیاض)حجاب ڈے(طلعت نفیس) اسوۂ رسولؐ پر دَورِ حاضر میں عمل کی ضرورت، اسمٰعیل ہنیہ (ارسلان اللہ خان، حیدرآباد) حجاب میرا فخر، آزادی کی قیمت،نوجوان مُلک کا سرمایہ (صبااحمد) ڈاکٹر معین الدین کا ادبی سفر اور عالمی سطح پر پذیرائی (شجاعت حمیدی، کراچی) 7ستمبر، عشّاقانِ مصطفیٰؐ کے لیے یادگار دن(سلمان عثمانی) کیپیٹل ٹاک پر تبصرہ (منیبہ مختار اعوان، لاہور) لاپتا افراد(بلال بشیر، کراچی)۔

سنڈے میگزین سے مزید