• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مولانا نور الدین عبد الرحمٰن المعروف ’’جامی‘‘ (آخری قسط)

مولانا جامی کی برجستہ صفات میں سے تنہائی پسندی اور مادّی دنیا سے قطع تعلقی ہے۔ ان کی سرشت میں درویشی ہی درویشی تھی اور اس کے تمام آثار یعنی تواضع، انکساری، فروتنی، بے ریائی، خلوص و عقیدت اور بذلہ نفسی، جملہ حرکات و سکنات میں نمایاں تھے۔ انھوں نے ہرگز مرشد و رہبر ہونے کا دعویٰ نہیں کیا، حالاں کہ روحانی سلوک میں وہ مرشد بھی تھے اور راہبر بھی۔ ذاتی اذکار و ریاضت میں مشغول رہ کر بھی زندگی کے ضروری امور سے کبھی صرفِ نظر نہیں کیا۔ 

شرعی آداب کا کامل طور پر لحاظ رکھتے ہوئے ہمیشہ شریعت پر عمل کرتے، لیکن اُن فضائل و صفات عالی سے بھی آراستہ تھے، جو صوفی مشائخ اپنی تعلیم میں ہمیشہ اپنے پیروئوں کو اختیار کرنے کی تاکید کرتے ہیں اور اس حیثیت میں بھی ان میں ظاہر فروشی تھی، نہ ریاکاری۔ مولانا نے اپنی زندگی میں جو اسفار کیے، ان میں پہلا سفر پانچ سال کی عُمر میں اپنے والد نظام الدین احمد کے ساتھ ہرات کا تھا۔ دوسرا سفر سمرقند تھا۔ تیسرے سفر میں سمرقند سے ہرات لوٹ آئے۔ 

چوتھے سفر میں ہرات سے مَرو گئے۔ پانچواں اور چھٹا سفر، حضرت خواجہ احرارؒ کے دیدار کی غرض سے تھا، جب کہ ساتواں اور آخری سفر حجازِ مقدّس کا تھا۔مولانا فخر الدین علی صفی نے ’’رشحات عین الحیات‘‘ میں اس آخری سفر کے بارے میں کچھ اہم اور دل چسپ تفصیلات بیان کی ہیں۔ لکھتے ہیں۔ ’’877ھ میں مولانا جامی، سفر ِحجاز کی تیاریاں کر رہے تھے، تو خراسان کے بعض بزرگوں نے اس سفر سے صرفِ نظر کرنے کی درخواست کی اور کہا کہ ’’آپ کی توجّہ سے کتنے ہی غریب اور ضرورت مند لوگوں کی حاجات پوری ہوجاتی ہیں اور آپ کی ہمّت کی برکت سے جو ضروری امور بادشاہوں کے درباروں اور رئوسا کے گھروں سے لوگوں کے حق میں انجام کو پہنچتے ہیں، وہ پیادہ حج کے برابر ہیں۔‘‘

جامی نے جواب دیا۔ ’’چوں کہ اس طرح کے پیادہ حج ہم نے بہت کیے ہیں، اس لیے بہت تھک گئے ہیں۔ اب جی چاہتا ہے، سوار ہوکر بھی حج کریں۔‘‘ جب آپ ہرات سے روانہ ہوئے،تو نیشاپور سے مختلف مقامات سے ہوتے ہمدان پہنچے۔ ہمدان کے حاکم ،شاہ منوچہر نے کمال عقیدت مندی و خلوص کا اظہار کیا اور تین روز تک انھیں اہلِ قافلہ کے ساتھ روکے رکھا، پھر شاہانہ ضیافتوں سے خاطر مدارات کے بعد اپنے ملازموں اور نوکروں کی ایک بڑی جماعت ان کے ساتھ کردی۔ جنہوں نے سلامتی کے ساتھ ان کے قافلے کو کردستان کے دشوار گزار علاقہ عبور کرواکے بغداد کی سرحد تک پہنچایا۔ 

یکم جمادی الاول کو انھوں نے بغداد میں پڑائو ڈال دیا اور چندروز بعد حضرت امام حسینؓ کے روضۂ اقدس کی زیارت کی غرض سے حلہ روانہ ہوئے۔ جب کربلا پہنچے، تو یہ غزل لکھی، جس کا مطلع ہے؎ کردم زدیدہ پای سوی مشہد حسین..... ہست ایں سفر بہ مذہب عشاق فرضِ عین۔ پھر مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوئے اور سفر کے دوران ایک قصیدہ لکھا، جس میں رسول اکرمﷺ کے معجزات کا ذکر ہے۔ مولانا جامی، بائیس روز بعد مدینہ پہنچے۔ روضۂ اقدس پر حاضری کے بعد مکّہ تشریف لے گئے، جہاں پندرہ دن قیام اور حج کے بعد مدینہ لوٹ آئے۔

روضۂ نبویؐ کی زیارت کے بعد شام چلے گئے اور پینتالیس روز تک دمشق میں قیام کے دوران قاضی القضاۃ،( اُس عہد کے مشہور محدث اور مستند اُستاذِ حدیث قاضی محمد حیصری)ؔ سے احادیث سننے کے بعد سندِ حدیث حاصل کی۔ قاضی القضاۃ نے دمشق میں اقامت کے دوران اُن کی خاطرداری اور میزبانی کی۔ وہاں سے حلب گئے ، تو حلب کے سادات و ائمہ اور قضاۃ نے اُن کی خدمت میں تحائف و ہدایا پیش کیے۔ قیصرِ روم نے بھی مولانا جامی کو روم آنے کی دعوت دی، لیکن بوجوہ دعوت قبول نہ کرسکے اورخراسان کا رُخ کیا۔

حضرت مولانا جامی کا شب و روز کا طریقہ یہ تھا کہ جب خفتن کی نماز پڑھ لیتے، تو ساعت بھر لوگوں کے ساتھ گفتگو کرتے اور جب مجلس سے اُٹھتے، تو اس جماعت کے طریق کے مطابق شغل اختیار فرماتے اور کہتے۔ ’’سونے سے قبل اس طرح کی ریاضت بہت اہم ہے، تاکہ ساری رات اس کی برکت جاری رہے۔‘‘ وہ ریاضت سے فراغت کے بعد استراحت کرتے، اوائل ایّامِ مشغولیت میں استراحت بہت کم کرتے اور بے دار ہونے کے بعد نماز و مراقبے میں رہتے اور فرماتے کہ ’’صبح کی مشغولیت کی برکت پورے دن تک جاری رہتی ہے۔‘‘ 

صبح کی نماز کے لیے تجدید وضو کرتے، جب نماز سے فارغ ہو جاتے تو ایک نیزے کے سورج کی بلندی تک مراقبے میں رہتے اور دوسرے اوقات میں مراقبے اور مطالعہ و تصنیف میں مشغول رہتے۔ مولانا کے بیٹھنے کا طریقہ، تشہد میں بیٹھنے کے مثل تھا، تعظیماً حق سبحانہ تعالیٰ کے لیے اور احتراماً لوگوں کے لیے۔ آپ قبلہ رو ہو کر بیٹھنے کی کوشش کرتے اور بیش تر اوقات زمین پر بیٹھا کرتے۔ اکثر کشادہ آستین والی قبا پہنتے اور لباس میں زینت سے احتراز کرتے۔

بہر صورت، آپ دل کش دکھائی دیتے۔ کبھی قبا پہنتے اور کبھی جبّہ، کبھی دستار کا شملہ ڈال دیتے اور کبھی نہ ڈالتے۔آپ کی صحبت میں رہنے کی ایک خاصیت یہ تھی کہ جو آپ کے پاس آتا، وہ ہر طرح کی تنگیِ خاطر اور غم و اندوہ سے آزاد ہوجاتا، خوشی و مسّرت سے کِھل اُٹھتا۔ جو کوئی آپ کی خدمت میں آتا، کیا ادنیٰ، کیا اعلیٰ اُس کی خدمت کرنےبیٹھ جاتے۔

جب تک وہ خود اُٹھ کر چلا نہ جاتا، مجالس میں آپ نیچے دہلیز پر بیٹھنے کی کوشش کرتے۔ عام لوگوں کے ساتھ کھانا کھاتے اور کھانے میں بڑی بے تکلّفی سے کام لیتے، غذا بھی بے تکلّف ہی پسند فرماتے۔ اگر کسی شخص کو دنیوی امور میں محتاج پاتے، تو خفیہ طور پر اُس کی مدد کرتے۔ لوگوں کی مدد کرنے کے اخراجات میں سے فاضل رقم کو کارِخیرمیں صرف کرتے۔ انھوں نے ہرات میں ایک مدرسے کے علاوہ خیابان میں ایک مدرسہ اور ایک خانقاہ، جب کہ جام میں ایک جامع مسجد تعمیر کروائی اور مدرسۂ خیابان کے لیے اپنی بیش تر ملکیت وقف کردی۔

آپ کم سخن تھے اور فرماتے کہ’’ دوستو! کوئی بات کرو، ہمارے پاس کہنے کے لیے کوئی بات ہے نہیں۔‘‘، اورکبھی خود ہی بات شروع کیا کرتے۔ ایک رات فرمایا کہ ’’یار دوست، جو آپس میں باتیں کیا کرتے ہیں، اُن کو تو ایک دوسرے میں فنا ہو جانا چاہیے اور اپنی لذّتوں کو ایک دوسرے پر نثار کرنا چاہیے۔‘‘ مولانا جامی عزتِ نفس اور استغنا کی بلند صفتوں سے سرشار تھے۔ انھوں نے سلاطین و حکام اور امراء و وزراء کے سامنے کبھی کسی خواہش کا اظہار نہ فرمایا۔ حالاں کہ وہ اکثر ان کے پاس آ کر دامن بوسی کرتے۔ 

فرماتے تھے کہ ’’ہم نے جوانی کے ایّام میں بھی کبھی خود پر ذلّت و خواری کو اختیار نہیں کیا۔ ثمرقند اور ہرات کے اکثر علماء، فضلاء، مولانا قاضی روم اور مولانا خواجہ علی سمرقندی کے رکاب میں پیادہ چلا کرتے، لیکن ہم نے ہرگز ان کا ساتھ نہ دیا، بلکہ درس پڑھنے والوں کی عادت کے مطابق ہم ان کے گھروں کے دروازے پر بھی نہیں گئے۔ گو اس وجہ سے ہمارے وظیفے کی وصولی میں دقّتیں بھی آئیں۔‘‘

نعت گوئی سے متعلق ایک روح پرور واقعہ

حضرت مولانا جامی رحمۃ اللہ علیہ اپنی نعت ؎ تنم فرسودہ جاں پارہ.....ز ہجراں یارسول ؐ اللہ۔ لکھنے کے بعد جب حج کے لیے تشریف لے گئے، تو ان کا ارادہ یہ تھا کہ روضۂ اقدس کے پاس کھڑے ہو کر یہ نعت پڑھیں گے۔ چناں چہ حجِ بیت اللہ کے لیے گئے اور حج سے فارغ ہو کر مدینہ منورہ کی حاضری کا ارادہ کیا، تو امیرِ مکّہ کو خواب میں نبی اکرمﷺ کی زیارت ہوئی۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ ’’اسے یعنی جامی کو، مدینہ طیبہ کی جانب نہ آنے دیں۔‘‘ امیر مکّہ نے یہ خواب دیکھا، تو ممانعت کا حکم صادر کردیا۔ مولانا جامی، عاشقِ رسولؐ تھے۔

اُن کے دل پر عشقِ نبیؐ اس قدر غالب تھا کہ چُھپ کر مدینے کی جانب چل پڑے۔ بعض سیرت نگار لکھتے ہیں کہ وہ قافلے کے ایک صندوق میں بند ہوگئے، لیکن امیرِ مکّہ کو پتا چل گیا، تو اس نے جانے نہ دیا۔ بعض یہ بھی لکھتے ہیں کہ بھیڑوں کے ریوڑ میں اُن کی کھال اوڑھ کر چلتے چلتے مدینہ طیبہ داخل ہوگئے، لیکن پھر بھی نہ پہنچ پائے، کیوں کہ امیر مکّہ کو ایک بار پھر نبی اکرمﷺ کی خواب میں زیارت ہوئی اور فرمایا ’’جامی کو میرے روضے پر نہ آنے دینا۔‘‘ جب اُس نے یہ حکم سُنا، تو اپنے آدمی دوڑادیئے کہ مولانا جامی کو مدینہ منورہ کے راستے سے پکڑ کر لے آئیں، جس کے بعد امیرِ مکّہ نے مولانا جامی رحمۃ اللہ علیہ پر سختی کی اور جیل میں بند کردیا۔ 

چناں چہ تیسری مرتبہ پھر امیرِ مکّہ کو حضور اکرمﷺ کی زیارت نصیب ہوئی۔ آپؐ نے فرمایا۔ ’’جامی کوئی مجرم نہیں، بلکہ اُسے ہم اس لیے اپنے روضے پر آنے سے روکتے ہیں کہ اُس نے کچھ اشعار لکھے ہیں، جنھیں میرے روضے پر کھڑے ہو کر پڑھنا چاہتا ہے۔ اگر یہ مدینہ پہنچ گیا اور میرے روضے پر حاضر ہوکر اس نے یہ اشعار پڑھے، تو مجھے باہر آکر اُس سے مصافحہ کرنا پڑے گا۔ لہٰذا اُسے کہو، لوٹ جائے، مَیں خود اُس سے ملوں گا۔‘‘چناں چہ امیرِ مکّہ نے مولانا جامیؒ کو قید خانے سے نکالا اور بڑی عزّت و تکریم سے پیش آیا۔

یوں جامیؒ دربارِ رسالت پر حاضری دیئے بغیر روتے ہوئے واپس لوٹ گئے۔ جامی کی وہ نعت اس طرح ہے ؎ تنم فرسودہ، جاں پارہ.....ز ہجراں یارسول ؐ اللہ(میرا جسم ناکارہ اور ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا ہے، آپؐ کی جدائی میں اے اللہ کے پیارے نبی ﷺ)دِلم پژمردہ آوارہ.....زعصیاں یارسول اللہؐ(میرادل بھٹک رہا ہے اور دل کا پھول مُرجھا چکا ہے، گناہوں کے بوجھ سے، اے اللہ کے پیارے نبیﷺ) چوں سوئے مَن گزر آری.....من مسکیں زناداری(کبھی خواب میں اپنا جلوہ دکھا دیں، اس عاجز، مسکین اور غریب نادار سائل کو) فدائے نقش نعلینت.....غمِ جاں یارسول اللہؐ(تو میں پھر آپ کے نقشِ پا پر فدا ہوجائوں گا، اے اللہ کے پیارے نبیﷺ) ذکردہ خویش حیرانم.....سیاہ شد روز عصیانم (میں نے جو کچھ کیا، بہت حیران ہوں، روزِ حساب میرا اعمال نامہ سیاہ ہوگا) پشیمانم پشیمانم.....پشیماں یارسول اللہؐ(مَیں انتہائی پشیمان اور سخت شرمندہ ہوں، پشیمان ہی پشیمان ہوں، اے اللہ کے پیارے نبیﷺ)ز جام محبت تو مستم.....بہ زنجیر تو دل بستم(آپؐ کی محبت میں ، مَیں مست ہوں، آپؐ کے عشق کی زنجیر سے میرا دل بندھا ہوا ہے)نمی گویم کہ مَن ہستم.....سخن داں یارسول اللہؐ(مَیں عاجز اور مسکیں کوئی دعویٰ نہیں کرتا کہ مَیں ایک بڑا شاعر ہوں، اے اللہ کے پیارے نبیﷺ)چوں بازوئے شفاعت را.....کشائی بر گناہ گاراں (جب روزِ قیامت آپ اپنی شفاعت کا بازو دراز کر کے گنہ گاروں کے سر پر پھیلا دیں گے)مکن محروم جامی را.....در آں یارسول اللہؐ(اُس روز اس جامی کو محروم نہ رکھیے گا، اس جان جوکھوں کی نازک گھڑی میں، اے اللہ کے پیارے نبیﷺ)۔

مولانا جامی عرفان و تصوّفِ اسلامی میں شیخ محی الدین ابن العربی کی روش و طریق کے پیروکار تھے اور یہی وجہ ہے کہ آپ نے شیخ ابن العربی اور ان کے شاگردوں کے آثار و بیانات کی شرح لکھی ہے، جس میں فصوص الحکم کی شرح نقد النصوص اور لمحات کی شرح، کتاب اشعہ شامل ہے۔ لمحات کی شرح میں مولانا جامی نے شیخ ابن العربی کی تصنیفات، فتوحات یا فصوص الحکم میں درج کلام سے گواہی لی ہے اور اس اعتقاد کو بیان کیا ہے کہ عشقِ حقیقی ہی آدمی کو ہمیشہ کی سعادت تک پہنچا دیتا ہے اور یہ سلطانِ عشق ہی ہے، جو عالمِ وجود میں تعینات کے جاری اور ظاہر ہونے کے مقامات میں جلوہ گر ہے اور عشق و معشوق سبھی ایک ہی وجودِ مطلق کے مظاہر ہیں۔

وفات پر بادشاہ، امراء وزراء، خواص و عوام کا اظہار رنج و غم

مولانا جامی کی وفات، بروز جمعہ 14نومبر 1492ء کو ہرات میں ہوئی۔ جیسے ہی وفات کی خبر پھیلی، کہرام مچ گیا۔ بادشاہ، امراء، وزراء، خواص و عوام نے اظہارِ رنج و غم کیا۔ شعراءنے مرثیے لکھے اور تاریخیں کہیں۔ بادشاہ کے مشہور وزیر اور مولانا جامیؒ کے دوست و ارادت مند، میر علی شیرنوائی، ترکیہ اور فارسی کے جیّد عالم اور زبردست شاعر تھے، انھوں نے خود مرثیہ لکھا اور مرثیے میں ایک ترکیب بھی قلم بند کی۔ جن شاعروں نے مرثیے لکھے اور تاریخِ وفات کہی، میر علی شیرنوائی نے اُن سب کو انعام و اکرام سے مالا مال کردیا۔ مولانا جامی کی وفات کے بیس دن پورے ہوجانے پر انھوں نے عوام النّاس کے لیے ایک دعوتِ عام کا اہتمام کیا اور لوگوں کو عیدگاہ میں مدعو کیا۔

بادشاہ اور تمام اکابرین و مشائخ، امراء، وزراء اور عوام و خواص نے شرکت کی اور جو مرثیہ میر علی شیرنوائی نے لکھا تھا، واعظِ شہر نے منبر پر کھڑے ہوکر پڑھا۔ اسی طرح بادشاہ نے چالیسویں پر بھی عام لوگوں کو مدعو کیا اور عیدگاہ میں دعوت کا اہتمام کیا۔ لوگوں کا ہجوم جمع تھا۔وہ وہاں سے حضرت جامیؒ کے مقبرے پر تشریف لے گئے اور عمارت کی بنیاد رکھ کر وہاں حافظانِ کلام اللہ کی ایک جماعت مقرر کر دی۔

ہرات میں تختِ مزار میں حضرت مولانا سعد الدین پیر بزرگوار کی قبر کے سامنے مولانا جامی کی قبر ہے۔ ہرات کے اکثر لوگ ہفتے کے روز وہاں زیارت سے فیض یاب ہوتے ہیں اور فیض و برکات سے دامن بھر کر لوٹتے ہیں۔

سنڈے میگزین سے مزید