• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مولانا نور الدین عبد الرحمٰن المعروف ’’جامی‘‘ (پہلی قسط)

مولانا نور الدین عبد الرحمٰن نقش بندی، المعروف جامی، صوبہ خراسان کے قصبہ خرجرد میں 1414ء کو پیدا ہوئے۔ اسی نسبت سے انہیں ’’جامی‘‘ کہا جاتا ہے۔ اگرچہ ان کے والد نظام الدین احمد بن شمس الدین ہرات چلے گئے تھے، مگر ان کا اصل وطن ’’دشت‘‘ (اصفہان کا ایک شہر) تھا، اِسی لیے انہوں نے پہلے ’’دشتی‘‘ تخلّص اختیار کیا۔ دورانِ تعلیم، سعید الدین محمد کاشغری کی صحبت میں تصوف کی طرف توجّہ ہوئی۔ 

نیز، نقش بندی سلسلے کے معروف بزرگ، خواجہ عبیداللہ احرار سے بھی گہری عقیدت تھی، جن کی خانقاہ سے تعلیمِ باطنی اور سلوک کی تکمیل کی۔ اوائلِ عُمری میں اپنے والد کے ساتھ ہرات اور پھر سمرقند کا سفر کیا، جہاں علم و ادب کی تحصیل کے علاوہ دینی علوم، ادب اور تاریخ میں کمال حاصل کرنے اور سعد الدین محمد کا شغری سے تصوّف کا درس لینے کے بعد مسند ِارشاد تک رسائی ملی۔ بعد ازاں، دمشق سے ہوتے ہوئے تبریز گئے اورپھروہاں سے ہرات پہنچے۔ جامی ایک صوفی اور اپنے دَور کے جیّد عالم اور حضرت محمد مصطفیٰ ؐ کے بڑے عاشق تھے۔ 

صوفیانہ شاعری اور نعت گوئی میں اُن کا نام بہت بلند ہے۔ اُنھیں تقریباً 16 مرتبہ حجِ بیت اللہ اور مدینہ منوّرہ کی زیارت نصیب ہوئی۔ مشہور تصانیف میں ’’سلسلتہ الذھب، خرد نامہ سکندری، مثنوی یوسف و زلیخا، لیلیٰ مجنوں، فاتحۃ الشباب، واسطۃ العقد، خاتمۃ الحیات اور شرح ملا جامی‘‘ کے علاوہ شیخ سعدی کی معروف تصنیف، ’’گلستان‘‘ کے جواب میں ایک نثری کتاب ’’بہارستان‘‘ شامل ہیں۔ عُمر کے آخری حصّے میں مجذوب ہوگئے تھے، لوگوں سے بات چیت ترک کردی تھی اور اسی حالت میں 1492ء میں ہرات میں انتقال ہوا۔

مولانا عبدالرحمٰن جامی سے متعلق قہر مان سلیمان سابق ڈائریکٹر ’’مرکزِ تحقیقاتِ فارسی، ایران و پاکستان‘‘ لکھتے ہیں۔ ’’مولانا عبدالرحمٰن جامی، ایک جہاں دیدہ بزرگ تھے۔ اسلامی ممالک کی مشرقی حدود سے لے کر مغربی حدود تک تمام اہلِ زباں، اُن کی بے حد قدر کرتے تھے۔ جس مجلس میں بھی قدم رکھتے، سب اُن کی زبان دانی، شاعرانہ قدرت، عصری علوم پر احاطے اور روحانی اثر و رسوخ میں بڑائی کا اعتراف کرتے۔ وہ محفل میں صدرِ مجلس قرار پاتے اور ان کی تعظیم کی جاتی۔ 

اپنے عہد اور ماقبل کے تمام فکری فرقوں سے واقف تھے اور اعلیٰ افکار کے بہترین شارح ہونے کے ساتھ اسلاف کی معنوی میراث میں پائی جانے والی مشکلات کی گرہیں کھولنے میں بھی قدرت رکھتے تھے۔ اپنے زمانے کی ثقافتی کشاکش سے الگ نہ تھے۔ وفات کے بعد بھی اُن کے افکار و نظریات، فکری تحریک کے طور پر باقی رہے اور فکری حلقوں میں اپنے شارحین، موافقین اور مخالفین کا ایک طبقہ پیدا کیا، جو اَب تک موجود ہے۔

تاہم، وہ صرف فکر و فلسفے کے میدان کے شہ سوار نہ تھے، بلکہ شعر و ادب پر بھی مکمل دسترس رکھتے تھے۔ ادبی تاریخ کے بعض مؤرخین نے اُن کے شاعری کے عہد کو افکار و آثار سے منسوب کرتے ہوئے اُنھیں فارسی شاعری کا ’’خاتم الشعراء‘‘ کہا ہے۔ مؤرخین کا یہ نظریہ بھی ہے کہ جامی کے بعد، فارسی ادب کے وسیع میدان میں ویسی عظمت کا کوئی اور شاعر پیدا نہیں ہوا۔ وہ نہ تو شیخِ طریقت تھے، نہ انہوں نے اپنے اردگرد مرید جمع کیے، اُن کی جودتِ طبع اور صفائے باطن کے باعث عقیدت مند اور پیروکار خود ہی اُن کی طرف کھنچے چلے آتے۔ 

صدیاں گزر جانے کے باوجود لوگوں کی ان سے عقیدت جوں کی توں برقرار ہے۔ سو، ان کا معنوی وجود ایک طرف ایران و ترکیہ سے لے کر ہندو پاک اور وسطی ایشیا تک، تو دوسری طرف افریقا کے شمال اور مشرقی یورپ تک پایا جاتا ہے۔ جب کہ عالم ِاسلام کے ضمن میں اس خطّے میں اُن کی فیض رسانی کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ عالم ِاسلام کی فکری اور روحانی تحریکوں میں ان جیسا تنوّع کسی اور شخصیت میں نظر نہیں آتا۔‘‘

جامی، اپنے زمانے میں علمائے اسلام اور صوفیائے عظام کی صفِ اوّل میں شمار کیے جاتے تھے یعنی اسلامی صوفی ازم میں ان کا رُتبہ بہت بلند ہے۔انھوں نے شاعری میں تصوّف اور روحانیت کے موضوع پر لازوال کتب تخلیق کیں۔ جن سے اُن کی شخصیت کے خطوط مزید اُبھر کر سامنے آتے ہیں۔ صفی الدین علی ’’رشحات عین الحیات‘‘ میں لکھتے ہیں۔’’جامی اوائل عُمری میں اپنے والد کے ساتھ ہرات آئے، تو ’’مدرسہ نظامیہ‘‘ میں ٹھہرے۔ 

وہاں علومِ عربی کے ماہر، جنید اصولی کی درس گاہ میں داخل ہوگئے، جن کی شہرت اس فن میں دُور دُور تک تھی۔ وہاں مولانا جامی کو مختصر تلخیص پڑھنے کا شوق ہوا۔ جب جامی اس درس میں داخل ہوئے، تو بعض طلبہ شرح مفتاح اور مطوّل پڑھ رہے تھے۔ 

جامی اگرچہ ابھی شاعری میں حدِبلوغت کو نہیں پہنچے تھے، لیکن کتب سمجھنے کی استطاعت رکھتے تھے، لہٰذا مطوّل اور حاشیہ مطوّل کے مطالعے کے بعد مولانا خواجہ علی سمرقندی کے حلقۂ درس میں داخل ہوگئے، جو حضرت سیّد شریف جرجانی کے خاص شاگرد اور تدریس میں اپنی نظیر نہیں رکھتے تھے، لیکن جامی 40 دن ہی میں ان سے مستغنی ہوگئے اور مولانا شہاب الدین محمد جاجرمی کے حلقۂ درس میں چلے گئے، جو اپنے وقت کے بہترین مناظر تھے، اُن کا سلسلۂ تلمذ حضرت مولانا سعد الدین تفتازانی تک ملتا ہے۔ 

جامی فرمایا کرتے تھے۔ ’’ہمیں اُن کی درس گاہ میں اُن سے دوکارآمد باتیں معلوم ہوئیں۔ اوّل یہ کہ کتابِ تلویح پڑھاتے وقت وہ مولانا زادہ خطائی کے اعتراضات رَد کرتے۔ پہلے دن جب انہوں نے مولانا زادہ کا اعتراض دُور کرنے کے لیے دو تین مقدمات بیان کیے، تو ہم نے انہیں جُھٹلادیا۔ 

دوسری نشست میں انہوں نے بڑے غور و خوض کے بعد جواب دیا، جو قدرے منطقی تھا۔ دوم، یہ کہ فنِ بیان میں انہیں تلخیصِ مطوّل سے قدرے اختلاف تھا۔ گو وہ بنیادی طور پر اس کی تردید نہیں کرتے تھے اور صرف کتاب کی عبارت اور الفاظ پر بضد تھے۔ 

تاہم، اُن کی توجیہہ میں کچھ وزن تھا۔ ‘‘مولانا جامی اس کے بعد سمرقند میں قاضی زادہ روم کے مدرسے میں گئے، تو پہلی ہی ملاقات میں جامی کی اُن سے بحث چل نکلی، جو طول پکڑ گئی۔ آخرکار قاضی زادہ روم کو جامی کی بات سے اتفاق کرنا پڑا۔ مرزا الغ بیگ کے یہاں عہدئہ صدارت پر فائز ایک متبحّر عالمِ دین مولانا فتح اللہ تبریزی بیان کرتے ہیں کہ ’’وہ بھی اُس مجلسِ مباحثہ میں موجود تھے۔ قاضی زادہ روم نے سمرقند میں اپنے مدرسے میں مجلس کا اہتمام کیا۔ دنیا کے سبھی اکابر و افاضل وہاں موجود تھے۔ 

قاضی زادہ امام اس مجلس میں زیادہ تر صاحبِ استعداد اور خوش طبع لوگوں کا ذکر کرتے رہے۔ مولانا عبدالرحمٰن جامی کے بارے میں یوں فرمایا۔ ’’جب سے سمرقند آباد ہوا ہے، جدّتِ طبع اور قوتِ تصرف میں جام کے اس نوجوان کے پائے کا کوئی شخص دریائے آمویہ عبور کر کے اِدھر نہیں آیا۔‘‘ قاضی روم کے شاگرد مولانا ابو یوسف سمرقندی کا بیان ہے کہ ’’جب حضرت مولانا عبدالرحمٰن جامی سمرقند آئے، تو اتفاق سے فنِ ہیئت میں ایک کتاب کی شرح کا مطالعہ کرنے لگے۔ 

قاضی روم نے اُس کتاب کی حواشی پر سال ہا سال سے کچھ تعلیقات لکھ رکھی تھیں۔ جامی روزانہ ہر نشست میں اُن میں سے چند کی اصلاح کردیا کرتے۔ قاضی روم اس کام پر جامی کے بے حد شُکر گزار ہوئے۔ چناں چہ اپنی شرح ’’ملخص چغمینی‘‘ بھی اُٹھا لائے اور مولانا جامی کو دکھائی، تو جامی نے اس کتاب میں وہ تصرفات کیے، جو قاضی روم کے وہم و گماں میں بھی نہ تھے۔‘‘

مولانا علی قوشچی تیموری، سلطان مرزا الغ بیگ کے منظورِ نظر تھے اور اُن کے ساتھ علمِ فلکیات کے مشاہدے میں شریکِ عمل رہا کرتے تھے۔ اپنے زمانۂ قیامِ ہرات میں ایک دن مولانا علی قوشچی، تُرکوں کی طرح ایک عجیب سا کمر بند لپیٹے، مولانا جامی کی مجلس میں آئے اور فنِ ہیئت کے چند بے حد مشکل سوالات سامنے رکھ دیئے۔ مولانا جامی نے اُن کے ایسے جوابات دیے کہ مولانا علی قوشچی انگشتِ بدنداں رہ گئے۔

بعدازاں، مولانا جامی نے ازراہِ تفنّن علی قوشچی سے فرمایا ’’مولانا! آپ کی چادر میں اس سے بہتر کوئی شے نہیں تھی؟‘‘ اس کے بعد مولانا علی قوشچی اپنے شاگردوں سے ہمیشہ کہا کرتے کہ ’’اُس دن مجھ پر ایک بار پھر یہ بات واضح ہوگئی کہ اس دنیا میں واقعی کسی نفسِ قدسی کا وجود ہے۔‘‘(نفس قدسی، فلسفے کی اصطلاح میں اُس قوت کو کہتے ہیں، جس میں تفکّر کی مدد کے بغیر ہی مختصر ترین مدّت میں مشکل مسئلہ سمجھ میں آجائے)۔ 

جامی کا اپنے مرشد، خواجہ عبیداللہ احرار سے ایک قلبی اور روحانی تعلق تھا۔ اُن کی احرار سے خط و کتابت ملاقات سے قبل بھی تھی اور مولانا کی متعدد منظوم تصانیف میں یہ قلبی تعلق واضح نظر بھی آتا ہے۔ مولانا کی میدانِ علم میں جستجو، انہماک اور شغف بے مثال تھا۔ اُنھیں علم و ادب میں جو کمال حاصل ہوا، شاید ہی نویں صدی ہجری کے کسی عالمِ دین یا فقیہ کو حاصل ہوا ہو، اور یہ اپنے بزرگوں سے عقیدت و محبّت ہی کا ثمر تھا۔ 

مولانا جامی کے ایک شاگرد، عزیز ملّا عبدالغفور لاری لکھتے ہیں۔’’فقیر (عبدالغفور لاری) کو مولانا جامی کے آستانِ رفیع الشان پر پہنچنے سے پہلے تردّد تھا کہ جو مرتبہ شعر گوئی کے باعث اُنھیں حاصل ہے، وہ گہرے تفکّر اور دقیق تامّل کے بغیر میسّر نہیں آسکتا کہ عام طرزِ زندگی مرتبۂ کمال کے منافی اور جمعیتِ خاطر کے خلاف ہے، لیکن جب مَیں اُن کی خدمت میں پہنچا، تو معلوم ہوا کہ کوئی شغل، بلکہ حوادثِ زمانہ میں سے کوئی واقعہ اُن کی ظاہری و باطنی اشغال کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتا، وہ اسی کیفیت میں کسی تبدیلی کے بغیر اپنے کام میں مشغول رہتے ہیں اور اپنا بہترین وقت بلاتکلّف و زحمت، درس (روحانی) دینے میں صَرف کرتے ہیں۔‘‘

مُلا عبدالغفور لاری کے اس بیان سے واضح طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ مولانا جامی کا اوائل زمانۂ حیات، جو سیاسی خانہ جنگی کے عروج کا دَور تھا، اُن کی علمی و روحانی زندگی پر اثر انداز نہیں ہوسکا۔ اُسی زمانے میں ہرات میں دورانِ قیام انہوں نے کئی شاہ کار کُتب تصنیف کیں، لیکن حوادثِ زمانہ سے متاثر ہونے کا شائبہ بھی ان کی تصانیف سے نہیں ملتا، حالاں کہ نویں صدی ہجری کے سیاسی اُتار چڑھاؤ میں امن و سکون نام کی کوئی چیز میسّر نہیں تھی۔ ایک بادشاہ کے زیرِ اقتدار چند برس تو نہایت سکون سے گزر جاتے، لیکن جوں ہی وہ جہانِ فانی سے رُخصت ہوتا، معاصر سلاطین اور شاہی خاندان کے شاہ زادوں کے درمیان مُلک، میدانِ جنگ بن جاتا۔ 

اس ماحول کا اثر لامحالہ زندگی کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے ہر فرد پر پڑتا، حتیٰ کہ عالم اور فاضل بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ پاتے۔ شاہ رخ اور ابوسعید کی وفات کے بعد 875ھ کے واقعات اندوہ ناک ہیں۔ اُس دور میں ایران حرب و ضرب، اقتدار کی رسّا کشی اور قتل و غارت کا میدان بن گیا تھا اور جامی نے انقلاب کے مختلف ادَوار دیکھے۔ 

خوش قسمتی سے 1469ء میں ایران کی مشرقی سلطنت کی باگ ڈور سلطان حسین بایقرا کے ہاتھ آ گئی، اور یوں مولانا جامی کی وفات تک خراسان اور ماوراء النہر میں مکمل امن برقرار رہا اور پچیس برس کا یہی وہ عرصہ ہے، جب جامی اپنی شاہ کار کتب تخلیق کر پائے۔ علی اصغر حکمت، اپنی کتاب ’’جامی‘‘ کے دیباچے میں لکھتے ہیں۔

’’نویں صدی ہجری میں سرزمینِ ایران میں فارسی ادب (نظم و نثر) کے جو عظیم ترین اُستاد پیدا ہوئے، وہ بالتحقیق، نور الدین عبدالرحمٰن جامی ہیں، جن کے فضل و دانش کی شہرت نہ صرف خراسان، بلکہ تمام فارسی قلم رو، ہندوستان، افغانستان، ماوراء النہر سے ایشیائے کوچک اور استنبول تک پھیلی ہوئی ہے۔ ان کا نامِ نامی نہ صرف خود اُن کے اپنے عہد، بلکہ دَورِ حاضر میں بھی اہلِ ادب کے یہاں عزت و احترام سے لیا جاتا ہے۔‘‘ ایک یورپی محقّق کے مطابق ’’جامی، سرزمین ِایران سے اُٹھنے والے نام وَر نابغوں میں سے ایک ہیں۔ کیوں کہ وہ بہ یک وقت عظیم شاعر، عظیم محقّق اور عظیم عارف ہیں۔‘‘

ایک اور محقّق، جامی کی فضیلت سے متعلق یوں رطب اللسان ہیں۔ ’’جامی کا علم اور ذوق نہ صرف شعر و شاعری کے لحاظ سے، بلکہ علمی فضائل اور تحقیق کے پہلو سے بھی بھرپور اور وافر تھا۔‘‘شرحِ کلامِ جامی کے مصنّف، پروفیسر ڈاکٹر شمس الدین احمد، مولانا جامی کے اخلاق اور عزتِ نفس سے متعلق لکھتے ہیں۔’’مولانا کی شہرت میں اُن کے ذاتی فہم و ادراک، قوتِ حافظہ اور بھرپور ذہانت و دانائی کا بھی خاص دخل ہے، جس کے وسیلے سے انھوں نے علم و فضل اور معارف و علوم میں شہرۂ آفاق دانش حاصل کی۔

ان کی فضیلت کے آگے سرخم کرنے والے فضلاء اس بات کے معتقد تھے کہ مولانا جامی نفسِ قدسی کے حامل ہیں۔ کتابِ دوستی اور مطالعےکا شوق اُن میں اس قدر راسخ تھا کہ اپنے کلام میں اپنے فرزند اور پڑھنے والوں کو مفید و منفعت بخش کتابیں پڑھنے کی سخت تلقین اور نصیحت کی ؎ خوشترز کتاب دَر جہاں یاری نیست..... در غمکدۂ زمانہ غم خواری نیست..... ہر لحظہ ازو بگوشۂ تنہائی..... صد راحتی است و ہرگز آزاری نیست۔ (جاری ہے)