• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تاریخ میں بے شمار ایسے اساتذہ گزرے ہیں کہ جنہوں نے اپنے علم کی بہ دولت انسانوں کو فلاح و نجات کا راستہ دکھایا، معاشرے کو نئی سوچ سے ہم کنار کیا اور انقلاب لے کر آئے۔ اس ضمن میں پیارے نبیٔ کریم حضرت محمدﷺ ہمارے لیے مشعل راہ اور معلّمِ اعظم کی حیثیت رکھتے ہیں۔ آپ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ ’’مُجھے معلّم بنا کر بھیجا گیا ہے۔‘‘ 

آپؐ نے صحابۂ کرامؓ کی تعلیم و تربیت کے لیے مسجدِ نبویؐ میں صُفّہ نامی اقامتی مدرسہ قائم کیا اور پھر رفتہ رفتہ آپ ﷺ کی تعلیمات دُنیا کے گوشے گوشے میں پھیلتی چلی گئیں۔ زیرِ نظر مضمون میں اسلامی تعلیمات کی ترویج و اشاعت اور اسلامی معاشرے کی تعمیر و ترقّی اور اصلاح میں کردار ادا کرنے والے نام وَر اساتذہ کی خدمات کا ایک مختصر جائزہ پیش کیا جا رہا ہے۔

برِصغیر پاک و ہند کے اساتذہ میں نام وَر عالمِ دین اور سب سے پہلے دو قومی نظریہ پیش کرنے والے صوفی بزرگ، شیخ احمد سرہندی المعروف مجدد الف ثانیؒ سرِفہرست ہیں۔ مغلیہ سلطنت کی سب سے عظیم تحریک، جس نے تاریخ کا دھارا بدل کر رکھ دیا، ’’نقشبندی تحریک‘‘ تھی اور اسے مقبولِ عام بنانے کا شرف شیخ مجدد الف ثانیؒ کو حاصل ہے۔ شیخ مجدّد الف ثانی نے تیسرے مُغل بادشاہ، جلال الدّین اکبر کے خود ساختہ ’’دینِ الٰہی‘‘ کے خلاف علمِ بغاوت بلند کیا۔ 

اکبر کا دینِ الٰہی درحقیقت اسلام، ہندو مَت، جین مَت اور عیسائیت کا ملغوبہ اور ہندوستان کو دارالسّلام سے ایک لادینی ریاست میں تبدیل کرنے کی سازش تھی، جس سے اسلام اور مسلمانوں کو شدید نقصان پہنچا۔ اس نازک مرحلے پر شیخ مجدّد الف ثانیؒ نے دینِ اسلام کا اصل چہرہ پیش کیا ۔ انہوں نے واضح کیا کہ اسلام اور ہندو مَت کے درمیان تفریق کبھی ختم نہیں ہو سکتی اور پھر انہوں نے علمائے کرام اور امراء کی اصلاح کی۔ بعد ازاں، شیح مجدد الف ثانیؒ ہی نے مغل بادشاہ، جہاں گیر کی تربیت کی اور اُس نے تمام اسلامی قوانین بحال کیے، جس کی نتیجے میں اکبر کے ’’دینِ الٰہی‘‘ کا خاتمہ ہوا۔ 

برصغیر ہی کی سرزمین میں جنم لینے والے حضرت شاہ ولی اللہؒ اپنے دَور کے ایک بہت بڑے استاد تھے۔ اُن کے زمانے میں ہندوستان کے مسلمان مذہبی، اخلاقی، سیاسی اور معاشی طور پر زوال پذیر تھے۔ حضرت شاہ ولی اللہؒ نے مسلمانوں کی تعلیمی حالت دیکھتے ہوئے قلمی جہاد کا سلسلہ شروع کیا۔ 

چُوں کہ انہیں درس و تدریس وراثت میں ملی تھی، لہٰذا انہوں نے مسلمانوں کی اصلاح کے لیے ’’مدرسہ رحیمیہ‘‘ قائم کیا اور عملی و منطقی انداز میں اسلام کی تعلیم دینا شروع کی، تاکہ مسلمانوں میں تقلید کی بہ جائے تحقیق و جستجو کا مادّہ پیدا ہو۔

بعد ازاں، بادشاہِ وقت محمّد شاہ (رنگیلا) نے آپ کی علمی خدمات کو سراہتے ہوئے ایک عالی شان حویلی عطا کی ،جس میں آپ نے ’’مدرسۂ دار الحدیث‘‘ قائم کیا۔ شاہ ولی اللہؒ ؒنے طلبا کو عربی زبان سیکھنے کی ترغیب دی اور جب طالب علم عربی سمجھنے کے قابل ہو جاتے، تو پھر انہیں قرآنِ پاک پڑھایا جاتا۔

سر سیّد احمد خان بھی بہ طور استاد مسلمانوں کے مسیحا بن کر سامنے آئے۔ انہوں نے مسلمانوں کو عصری تعلیم کی جانب راغب کیا اور اس ضمن میں سب سے پہلے علی گڑھ میں ایم اے او ہائی اسکول قائم کیا، جس نے 1920ء میں علی گڑھ یونی ورسٹی کی شکل اختیار کی۔ سر سیّد احمد خان نے مختلف طبقات کی جانب سے انگریزی اور سائنسی تعلیم کے حصول کی مخالفت کے باوجود اپنا مِشن جاری رکھا۔ 

علاوہ ازیں، مختلف ایجوکیشنل سوسائٹیز اور انجمنیں بھی قائم کیں۔ نیز’’اسبابِ بغاوتِ ہند‘‘ نامی رسالہ لکھ کر انگریزوں کو یہ باور کروایا کہ صرف مسلمان ہی جنگِ آزادی کے ذمّے دار نہیں ہیں۔ 

دوسری جانب سر سید نے رسالہ، ’’تہذیب الاخلاق‘‘ جاری کر کے مسلمانانِ برصغیر کو توہّم پرستی سے نجات کی ترغیب دی۔ سر سید چاہتے تھے کہ مسلمانانِ ہند جدید علوم حاصل کر کے ایک مرتبہ پھر اپنا الگ تشخّص قائم کریں۔ اس ضمن میں تحریکِ علی گڑھ نے ہر لحاظ سے مسلمانوں کا دفاع کیا اور انہیں معاشی و سیاسی طور پر مستحکم ہونے میں مدد فراہم کی۔ علاوہ ازیں، پاکستان کے حصول کے لیے جدوجہد کرنے والے مولانا محمّد علی جوہر، شوکت علی جوہر، مولانا ظفر علی خان، ڈپٹی نذیر احمد، وقار الملک اور دیگر نام وَر شخصیات بھی علی گڑھ سے وابستہ رہیں۔

اپنی بے مثال اور لازوال شاعری کے ذریعے مسلمانوں میں جذبۂ آزادی بے دار کرنے والے شاعرِ مشرق، علاّمہ محمّد اقبالؒ کی شخصیت سازی میں اُن کے استاد مولوی میر حسن نے نمایاں کردار ادا کیا۔ وہ اپنے وقت کے بہترین استاد تھے۔ انہوں نے اقبال کی فطری صلاحیتوں کو اجاگر کیا اور اُن میں عربی، فارسی سمیت جدید تعلیم حاصل کرنے کا ذوق و شوق پیدا کیا۔ علاوہ ازیں، علامّہ اقبال میں پائی جانے والی درویشی، صبر و قناعت اور فقر واستغنا جیسی صفات بھی انہی کی عطا کردہ تھیں۔ 

علاّمہ اقبال اپنے استادِ محترم سے اس قدر عقیدت رکھتے تھے کہ جب حکومتِ پنجاب نے شاعرِ مشرق کو ’’سر‘‘ کا خطاب دینے کا فیصلہ کیا، تو انہوں نے یہ کہہ کر یہ ٹائٹل لینے سے انکار کر دیا کہ جب تک اُن کے استاد کی علمی خدمات کا اعتراف نہیں کیا جائے گا، وہ یہ خطاب قبول نہیں کریں گے۔ اس موقعے پر پنجاب حکومت کی جانب سے اُن سے سوال کیا گیا کہ’’ مولوی میر حسن نے کون سی کتاب لکھی ہے؟‘‘، تو علاّمہ نے یہ تاریخی جملہ ارشاد فرمایا کہ ’’مَیں خود اُن کی زندۂ جاوید کتاب ہوں۔‘‘ اور پھر اُن کی سفارش پر مولوی میر حسن کو ’’شمس العلما‘‘ کا خطاب دیا گیا۔ 

علاوہ ازیں، علاّمہ اقبال بھی درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ رہے اور ان سے فیض حاصل کرنے والی نمایاں شخصیات میں مشہور ناول نگار، ایم اسلم، زرعی یونی ورسٹی، فیصل آباد کے سابق پرنسپل، محمد افضل حسین اور پروفیسر خادم محی الدّین شامل ہیں۔ خادم محی الدّین اپنے ایک مضمون میں علاّمہ اقبالؒ کے طریقۂ تدریس سے متعلق لکھتے ہیں کہ ’’ علامہ اقبالؒ الٰہیات اور اخلاقیات پر نہایت سہولت سے لیکچر دیتے تھے۔ اس کے علاوہ انگریزی نثر بھی پڑھاتے تھے، لیکن ان کا خاص مضمون فلسفہ ہی تھا اور اس کے نکات ایسی وضاحت سے بیان فرماتے تھےکہ مضمون آئینہ ہو جاتا۔ وہ تخلیقی فکر کے ساتھ انسانی رویّوں کی تشریح بھی کرتے تھے۔‘‘

پاکستان کے نام وَر شاعر، فیض احمد فیض بھی ایک اتالیق تھےاور خود انہوں نے اپنے دَور کے بہترین اساتذہ سے فیض حاصل کیا۔ فیض نے ابتدائی و مذہبی تعلیم مولوی محمد ابراہیم میر سیال کوٹی، جب کہ صرف و نحو کی تعلیم شمس العلما، مولوی میر حسن سے حاصل کی۔ 

اُن کے اساتذہ میں مشہور ادبا بھی شامل تھے، جن میں پروفیسر سلیم چشتی، ڈاکٹر تاثیر، مولانا عبدالمجید سالک، چراغ حسن حسرت، پطرس بخاری، صوفی غلام تبسّم اور مولوی محمد شفیع قابلِ ذکر ہیں۔ 

فیض احمد فیض کے علاوہ نام وَر ادیب و دانش وَر، اشفاق احمد اور اُن کی اہلیہ، بانو قدسیہ بھی درس و تدریس سے وابستہ رہے اور اپنے افکار کے ذریعے نئی نسل کے اذہان کی آب یاری اور معاشرے کی اصلاح کی۔

سنڈے میگزین سے مزید