28 ستمبر کا دن حریت پسندوں کیلئے بہت سوگوار تھا کہ اس روز حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصر اللہ کو شہید کردیا گیا، سید حسن نصر اللہ مزاحمتی دنیا کے ممتاز رہنما تھے، ان پر حریت پسند ہمیشہ فخر کرتے تھے، انہوں نے زندگی مظلوموں کیلئے وقف کی اور ظلم و جبر کے سامنے جھکنے سے انکار کیا، حق و باطل کے معرکے میں یہی انکار انہیں شہادت تک لے آیا، سید حسن نصر اللہ بہت بڑے خطیب تھے، عرب نوجوان ان کی خطابت پر جھومتے تھے۔ سید حسن نصر اللہ 1960 میں لبنان کے دارالحکومت بیروت کے مشرقی علاقے برج حمود میں پیدا ہوئے۔انکے والد عبد الکریم نصراللہ کا چھوٹا سا کاروبار تھا، سید حسن نصراللہ اپنے بہن بھائیوں میں سب سے بڑے تھے، سادات گھرانے سے تعلق رکھنے والے سید حسن نصراللہ کا بچپن سادگی میں گزرا، انکے دل میں بچپن ہی سے امت مسلمہ کیلئے کچھ کرنے کی تڑپ تھی، انہوں نے ابتدائی تعلیم بیروت سے حاصل کی، وطن میں جاری خانہ جنگی کے سبب وہ امل تحریک کا حصہ بن گئے۔ 1975ءکی خانہ جنگی نے لبنان میں بربادیوں کو جنم دیا اور ملک کئی حصوں میں تقسیم ہو گیا، انہی دِنوں سید حسن نصراللہ نے محسوس کیا کہ انہیں اپنی قوم کی حفاظت کیلئے کچھ بڑا کرنیکی ضرورت ہے۔ سید حسن نصر اللہ حصول علم کیلئے نجفِ اشرف گئے، انہوں نے اس دوران اسلامی تعلیمات اور سیاست میں دلچسپی لینا شروع کی، یہیں سے انکے اندر جذبہء حریت اعلیٰ سیاسی شعور کے ساتھ بیدار ہوا۔ سید حسن نصر اللہ نجف اشرف سے واپس آ کر ایک مرتبہ پھر امل تحریک میں شامل ہوگئے مگر جب 1982 میں اسرائیل نے لبنان پر حملے کیے تو اسکے بعد سید حسن نصراللہ اور انکے ساتھیوں نے امل تحریک سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے نئی تنظیم اسلامی امل کی بنیاد رکھی، اس نئی تنظیم کو ایران کے پاسداران انقلاب کی حمایت حاصل تھی، یہ تنظیم بہت جلد نمایاں ہوئی تو پھر 1985 میں اس تنظیم کا نام حزب اللہ رکھ دیا گیا، سید حسن نصراللہ حزب اللہ کے کلیدی عہدوں پر فائز رہے، انکی ولولہ انگیز قیادت میں حزب اللہ نے لبنانی سیاست میں کامیابیاں حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ جنگی محاذ پر بھی دشمن کو پریشان کیے رکھا۔ اسرائیل اس خطے میں حزب اللہ کو اپنا بڑا دشمن سمجھتا ہے، اسی لئے 1992ءمیں حزب اللہ کے رہنما عباس الموسوی کو اسرائیلی حملے میں شہید کر دیا گیا، عباس الموسوی کی شہادت کے بعد سید حسن نصراللہ کو 32 سال کی عمر میں حزب اللہ کی قیادت کیلئے چن لیا گیا، انہوں نے اپنی قائدانہ صلاحیتوں اور سیاسی حکمت عملی کے باعث حزب اللہ کو لبنان کی سب سے بڑی سیاسی، انقلابی ، مزاحمتی اور بھرپور عسکری تنظیم بنا دیا۔انکی قیادت میں حزب اللہ نے جہاںاسرائیل کے خلاف کامیاب جنگیں لڑیں وہاں لبنان کی سیاست میں بھی اہم کردار ادا کیا، گویا حزب اللہ لبنان کے لوگوں کیلئے ایک بڑی سماجی تنظیم بن گئی کیونکہ حزب اللہ صحت، تعلیم اور سماجی خدمات فراہم کرتی ہے، حزب اللہ نے ہسپتال، اسکول اور فلاحی ادارے قائم کر رکھے ہیں،سید حسن نصراللہ کی بہت سی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ تھی کہ وہ اپنی ذاتی زندگی کو ہمیشہ لوگوں کی نظروں سے دور رکھتے تھے، ان کے بیوی بچے، انکی مصروفیات سے الگ تھلگ رہے۔ سید حسن نصر اللہ کے بڑے بیٹے ہادی نصراللہ 1997ءمیں اسرائیل کیساتھ لڑتے ہوئے شہید ہوگئے تھے، بیٹے کی شہادت سید حسن نصراللہ کے حوصلوں کو پست نہ کر سکی بلکہ انہوں نے اس شہادت کو حزب اللہ کی جدوجہد کا حصہ قرار دیا۔ گزشتہ برس 7 اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر حملوں کے بعد سے لبنانی سرحد پر حزب اللہ اور اسرائیل کی جنگی جھڑپیں جاری ہیں۔ پاکستان میں سید حسن نصر اللہ اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن علامہ افتخار حسین نقوی سمیت کئی مذہبی رہنماؤں کیساتھ رابطے میں تھے مگر ان کی پکی دوستی ایم ڈبلیو ایم کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری سے تھی، اس حوالے سے ایک یادگار واقعہ بھی آپ کی خدمت میں پیش کرتا چلوں کہ جب علامہ ناصر عباس آف ملتان شہید ہوئے تو سید حسن نصر اللہ یہ سمجھ کر ساری رات مصلے پہ روتے رہے کہ میری جوانی کا دوست علامہ راجہ ناصر عباس مجھ سے بچھڑ گیا ہے، اگلی صبح ان کو اہل خانہ نے بتایا کہ یہ کوئی اور علامہ ناصر عباس شہید ہوئے ہیں، آپ کے دوست علامہ راجہ ناصر عباس سلامت ہیں پھر انہوں نے علامہ راجہ ناصر عباس کو خصوصی طور پر ملاقات کیلئے مدعو کیا، شاید بہت کم لوگوں کو پتہ ہو کہ جنرل قاسم سلیمانی، سید حسن نصر اللہ اور علامہ راجہ ناصر عباس کی بہت گہری دوستی زمانہء طالب علمی ہی میں قائم ہو گئی تھی، اسی لئے ایم ڈبلیو ایم کے سربراہ اپنے دو عظیم دوستوں کی شہادت پر دکھی ہیں۔ ستمبر کے آخری عشرے میں سید حسن نصر اللہ کی شہادت کے بعد امت مسلمہ کیلئے کئی سوالات نے جنم لیا ہے کیونکہ ان سے کچھ عرصہ پہلے اسماعیل ہنیہ اور ابراہیم رئیسی کی شہادت ہوئی ہے، جنرل قاسم سلیمانی اور کرنل قذافی کا جانا بھی ماضی بعید کا قصہ نہیں۔ پچھلے چالیس برسوں میں کئی مسلمان ملکوں کو ملبے کا ڈھیر بنایا گیا، وہاں بربادیوں کا کھیل کھیلا گیا، جب استعماری طاقتوں نے یہ دیکھا کہ امت مسلمہ اپنے ہر ملک کی تباہی پر نا صرف خاموش رہتی ہے بلکہ کئی مسلمان ممالک اپنے ہی برادر ملکوں کی تباہی میں حصہ دار بنتے ہیں، مسلمان دنیا کی لاپروائی اور خاموشی کے باعث اب اسلام دشمن طاقتیں ارض فلسطین میں نسل کشی پر اتر آئی ہیں۔ اقبال نے بچت کا راستہ بہت پہلے دکھادیا تھا کہ
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کا شغر