عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف)نے بالآخر پاکستان کیلئے سات ارب ڈالر کے مالیاتی پیکیج کی منظوری دیدی ہے جسے معاشی مشکلات کا شکار حکومت ایک بڑی کامیابی قرار دے رہی ہے۔ اس قرض کے حصول سے قبل مہنگائی میں کمی سے معاشی محاذ پر مائیکرو اکنامک استحکام کے کچھ حوصلہ افزا اشارے نظر آنا شروع ہو گئے تھے اور اب امید کی جا رہی ہے کہ حکومت معاشی استحکام کیلئےانڈسٹری کا پہیہ چلانے اور برآمدات بڑھانے پر توجہ دے گی۔ اس سلسلے میں انڈسٹری کو جو سب سے بڑی رکاوٹ درپیش ہے وہ انرجی ٹیرف اور بینکوں کا مارک اپ ریٹ ہے۔ اگرچہ گزشتہ نو ماہ میں اسٹیٹ بینک نے شرح سود 22فیصد سے کم کرکے17.5فیصد کر دی ہے لیکن مہنگائی میں کمی کے تناسب سے یہ شرح اب بھی زیادہ ہے۔ اگر حکومت معاشی محاذ پر اپنی کامیابی کو معیشت کے استحکام کیلئےاستعمال کرنا چاہتی ہے تو شرح سود کو سنگل ڈیجٹ یعنی 9 فیصد یا اس سے کم پر لانا ضروری ہے۔ اس سے ایک طرف جہاں حکومت کو اندرونی اور بیرونی قرضوں پر سود کی ادائیگی میں ایک بڑا ریلیف میسر آئے گا وہیں انڈسٹری کو بھی اضافی مالی بوجھ سے نجات ملے گی۔ علاوہ ازیں اس اقدام سے بیرونی و مقامی سرمایہ کاروں کو بھی یہ پیغام دیا جا سکے گا کہ پاکستان کی معیشت ٹیک آف کی پوزیشن میں آ چکی ہے۔ دریں اثنا عالمی سطح پر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ بھی بغیر کسی کٹوتی کے عوام اور انڈسٹری کو منتقل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ انہیں بجلی اور گیس کے بھاری بلوں سے نجات دلائی جا سکے۔ ان دو اقدامات سے ملک میں معاشی سرگرمیوں کو جو فروغ ملے گا اس کا تصور کرنا زیادہ مشکل نہیں ہے۔ تاہم یہ ضرور ہے کہ اس حوالے سے وزیر اعظم شہباز شریف اور دیگر ارباب اختیار کو بیوروکریسی کی مو شگافیوں سے صرف نظر کرتے ہوئے اپنے اختیارات کو استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سے ناصرف فیصلہ سازی میںان کی قائدانہ صلاحیتوں کا اظہار ہو گا بلکہ عوام کے ذہن میں بھی یہ تاثر پختہ کیا جا سکے گا کہ معاشی میدان میں حکومت نے اپنے قدم مضبوطی سے جما لئے ہیں اور اب آگے ترقی کا سفر تیزی سے طے کیا جائے گا۔ اس حوالے سے یہ بات اہم ہے کہ آئی ایم ایف نے پاکستان کو سات بلین ڈالر کے مالیاتی پیکیج کی منظوری کے بعد جو تفصیلی پریس ریلیز جاری کی ہے اس میں بھی پاکستان کے معاشی حالات میں بہتری کا اعتراف کیا گیا ہے۔ آئی ایم ایف کے ڈپٹی منیجنگ ڈائریکٹر کینجی اوکامورا نے اس پریس ریلیز میں خود یہ تسلیم کیا ہے کہ مہنگائی میں کمی سے پاکستان کی معاشی ترقی کی شرح میں بہتری آئی ہے اور گزشتہ سال کے مقابلے میں زرمبادلہ کے ذخائر دوگنا ہونے سے بیرونی ادائیگیوں کے دباؤ میں کمی آئی ہے۔ تاہم انہوں نے اس بات کی بھی نشاندہی کی ہے کہ بیرونی ادائیگیوں کے دباؤ اور افراط زر میں کمی کے باوجود معاشی اصلاحات کے حوالے سے پاکستان کو متعدد مسائل کا سامنا ہے۔ ان مسائل میں ٹیکس نیٹ کی توسیع سب سے بڑا چیلنج ہے اور حالیہ بجٹ میں پہلے سے ٹیکس نیٹ میں موجود اداروں اور افراد پر ٹیکس کی شرح میں جس قدر ظالمانہ طور پر اضافہ کیا گیا ہے اس میں فوری کمی کی اشد ضرورت ہے۔ اس حوالے سے متبادل پالیسی یہ ہو سکتی ہے کہ حکومت نان فائلرز کو ٹیکس نیٹ میں لانے کیلئےکسی بھی قسم کے سیاسی سمجھوتے کی پالیسی پر عملدرآمد کرنے سے سختی سے گریز کرے۔ اس طرح ایک طرف پہلے سے ٹیکس نیٹ میں موجود کاروباری اداروں اور تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کا بوجھ کم کیا جا سکے گا وہیں ٹیکس نہ دینے والوں کو بھی یہ سمجھایا جا سکے گا کہ اب ٹیکس کی ادائیگی سے بچنا ممکن نہیں۔ اس حوالے سے ایک طرف ٹیکس اکٹھا کرنے والے اداروں میں اندرونی احتساب کا کڑا نظام نافذ کرنے کی ضرورت ہے اور دوسری طرف ٹیکس کی ادائیگی اور اس حوالے سے درپیش مشکلات کو ختم کرنے کیلئے ٹیکس قوانین کو آسان اور شفاف بنانا بھی ضروری ہے تاکہ ٹیکس اکٹھا کرنے والے ادارے کے ملازمین کی طرف سے ٹیکس دہندگان کو ناجائز طور پر ہراساں یا تنگ کرنے کی روش کا سدباب کیا جا سکے۔ ان اقدامات سے جہاں ملک میں مالیاتی ڈسپلن کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی وہیں پاکستان کا عالمی مالیاتی اداروں پر معاشی انحصار بھی کم ہو گا۔ اس طرح ناصرف ہم اقوام عالم میں باعزت طور پر اپنے ملک کی نمائندگی کر سکیں گے بلکہ دوست ممالک اور عالمی طاقتوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو بھی زیادہ بہتر طریقے سے آگے بڑھا سکیں گے۔ وزیر اعظم شہباز شریف کی قیادت میں موجودہ حکومت نے جس طرح سیاسی مخالفین اور میڈیا کی کڑی تنقید کے باوجود اپنے معاشی اہداف کے حصول میں کامیابی حاصل کی ہے اس سے ان کے عزم اور محنت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اب بھی اگر معاشی محاذ پر ہماری سیاسی جماعتیں وزیر اعظم کے مجوزہ ’’میثاق معیشت‘‘ پر متفق ہو جائیں اور مستقبل کیلئے متفقہ طور پر معاشی روڈ میپ بنا کر اس پر عملدرآمد کیا جائے تو پاکستان میں اتنا پوٹینشل موجود ہے کہ ہم قلیل عرصے میں ناصرف معاشی خود مختاری حاصل کر سکتے ہیں بلکہ غربت کی سطح سے نیچے زندگی گزارنے والے کروڑوں پاکستانیوں کو بھی اس غربت سے نکال سکتے ہیں۔ تاہم اس کیلئےضروری ہے کہ حکومت کے ساتھ ساتھ اپوزیشن کی سیاسی قیادت بھی اس بات کو سمجھے کے ملک کی خوشحالی اور معاشی بہتری ان کے ذاتی یا سیاسی مفادات سے کہیں بڑھ کر ہے۔ اگر ہم نے آئی ایم ایف کی طرف سے ملنے والے اس مالیاتی پیکیج کی بدولت حاصل ہونے والا معاشی استحکام اور اصلاحات کا موقع ایک بار پھر ضائع کر دیا تو مستقبل میں اس کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑ سکتی ہے۔