• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دو روز سے برطانیہ میں ہوں، کل امریکا چلا جاؤں گا، امریکا سے واپسی پر دو ہفتے برطانیہ میں گزاروں گا، پچھلے دو دنوں میں کئی پاکستانیوں سے ملنے کا اتفاق ہوا ہے، کچھ پاکستانیوں نے تو بڑی بھیانک تصویر پیش کی ہے مگر زیادہ تر پاکستانیوں کا خیال ہے کہ پاکستان، جیل میں بند قیدی رہنما کی قیادت میں ترقی کرے گا اور ملک بہت جلد دنیا کے عظیم ملکوں میں شامل ہو جائے گا۔ نعیم چوہان سے کافی لمبی گپ شپ ہوئی، ان کا موقف تھا کہ ’’جن ملکوں میں قانون کی حکمرانی ہے، وہ ملک خود بخود عظمت کا راستہ پا لیتے ہیں، ہاں یہ بات درست ہے کہ عظمت کے راستے کی قیادت کوئی نہ کوئی رہنما ضرور کرتا ہے، میں آپ کو یورپ ہی سے ایک مثال دیتا ہوں۔

جرمنی یورپ کا طاقتور ملک ہے، جرمنی کے لوگوں نے اپنے لیڈر کو کس طرح الوداع کہا، یہ بھی عجیب منظر تھا، جرمنی کی لیڈر اپنی بالکونی سے باہر آئیں تو پورے ملک کے لوگ 6منٹ تک کھڑے ہو کر تالیاں بجاتے رہے‘‘ اقتدار کے 16برسوں میں اینجلا مرکل نے اپنے کسی رشتہ دار کو کسی حکومتی عہدے پر تعینات نہیں کیا تھا، وہ اتنی سادہ تھیں کہ انہوں نے رئیل اسٹیٹ کا کام نہیں کیا، نہ کبھی کاریں خریدیں، اینجلا پلاٹوں کے پیچھے بھی نہ پڑیں، انہوں نے نجی طیارے خریدنے کی کوشش بھی نہیں کی، اینجلا اپنی قوم کیلئے اتنی مگن تھیں کہ اس نے سولہ برسوں میں اپنی الماری کا انداز تک نہیں بدلا۔ ایک پریس کانفرنس میں کسی صحافی نے اینجلا سے پوچھا ’’ہمیں احساس ہے کہ آپ نے وہی سوٹ پہنا ہوا ہے، جو آپ اقتدار کے دنوں میں پہنتی رہی ہیں، آپ کے پاس کوئی دوسرا سوٹ نہیں ہے؟‘‘ اینجلا نے فوراً جواب دیا ’’میں حکمران تھی، ماڈل نہیں‘‘۔ ایک اور سوال آیا کہ’’کپڑے آپ دھوتی ہیں یا آپ کے شوہر؟‘‘ اینجلا کا جواب تھا ’’میں کپڑے ٹھیک کرتی ہوں اور میرا شوہر واشنگ مشین چلاتا ہے۔‘‘ ایک اور صحافی نے پوچھا ’’ گھر کی صفائی اور کھانا پکانے کیلئے آپ کے پاس ملازمہ ہے؟‘‘ اینجلا کا جواب تھا ’’نہیں، میرے کوئی نوکر نہیں اور نہ ہی انکی ضرورت ہے۔‘‘ اینجلا نے بتایا کہ ’’گھر کے کام کاج، میں اور میرا شوہر مل کر کرتے ہیں اور یاد رہے میں دوسرے جرمن شہریوں کی طرح ایک عام سے اپارٹمنٹ میں رہتی ہوں‘‘۔ واقعہ ختم ہوا! یہ ہوتی ہیں عظیم قومیں! ہمارے ہاں تو لوٹ مار کا کھیل ختم ہی نہیں ہوتا، بدقسمتی سے ہمارے بہت سے ادارے بھی بدعنوانوں کو تحفظ دینے میں مصروف ہیں حالانکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے ادارے دیانتداری کو پروموٹ کریں اور دیانتدار لیڈروں کیلئے راستہ ہموار کریں۔ ساتھ ہی بیٹھے ہوئے صحافی امجد چوہدری سے نہ رہا گیا، کہنے لگے ’’آپ دیانتداری کی بات کرتے ہیں اور کرپشن کے خلاف باتیں کرتے ہیں، ابھی حال ہی میں سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے بھائی جاوید اقبال باجوہ کو جعلی ڈگری پر پی آئی اے سے فارغ کیا گیا ہے، موصوف برمنگھم میں پی آئی اے کے ڈپٹی سٹیشن منیجر بن گئے تھے، انہیں 30 جولائی کو پی آئی اے کے فنانس منیجر کے ذریعے شوکاز نوٹس جاری کیا گیا، انہیں ایف اے کے جعلی سرٹیفکیٹ کے الزام میں برطرف کر دیا گیا، اب اس مسئلے پر تین چار سوال اہم ہیں۔

1۔جاوید باجوہ کو کس کی سفارش پر بھرتی کیا گیا؟ اس کی گردن کیوں نہیں مروڑی گئی؟ 2۔جاوید اقبال باجوہ نے برس ہا برس سرکاری تنخواہیں لیں، کیا ان تنخواہوں کی واپسی ہو گئی ہے؟ اگر نہیں ہوئی تو ان سے تنخواہوں اور دیگر فوائد کی مد میں پیسہ واپس لیا جائے۔ 3۔برمنگھم جیسے اہم اسٹیشن پر انہیں کس کی سفارش پر لگایا گیا، ان سب کرداروں کو نہ صرف بے نقاب ہونا چاہیے بلکہ انہیں سخت سے سخت سزائیں دی جانی چاہئیں۔ اگر دیانتداری اور قانون کی حکمرانی ہوتی تو نہ جاوید اقبال باجوہ پی آئی اے میں بھرتی ہوتا، نہ اس کی کوئی سفارش کرتا اور نہ ہی یہ تنخواہیں ہڑپ کر کے بیٹھ جاتا۔ یہ بنیادی فرق ہے، قانون کی حکمرانی اور لاقانونیت میں‘‘۔ برسوں پرانی بات ہے، خانیوال کا ایک لڑکا عبد المالک گورنمنٹ کالج لاہور کے نیو ہاسٹل میں بڑی شاندار گفتگو کر رہا تھا، پتہ چلا اس کے لہجے اور لفظوں کے برتاؤ کے پیچھے عبد الخالق ایڈووکیٹ ہیں۔ عبد المالک، سابق وفاقی وزیر مخدوم شہاب الدین کی طرح شستہ لہجے میں بات کرتا تھا، اس کی ایک ایک بات اب بھی یاد ہے، وہ سماج کی نا ہمواریوں کا اس وقت بھی ناقد تھا، آج بھی ہے، بس فرق اب اتنا ہے کہ اب عبد المالک خانیوال میں نہیں، ونزر کینیڈا میں رہتا ہے مگر اس کا دل پاکستان کے حالات پہ آنسو بہاتا ہے، اس نے پاکستان کے حالات پہ نثری تبصرے کی بجائے شعری تبصرہ بھیج دیا ہے۔ مرتضیٰ برلاس کے اس شعر کو دیکھ کر 4اکتوبر کی بھی سمجھ آتی ہے، پاکستان کے موجودہ اور آنے والے حالات سے بھی آگاہی ہوتی ہے، شعر کچھ یوں ہے کہ

مجھے کی گئی ہے یہ پیشکش کہ سزا میں ہونگی رعایتیں

جو قصور میں نے کیا نہیں وہ قبول کر لوں دباؤ سے

تازہ ترین