گریٹ برٹن کی’’گریٹ نس‘‘کے ان دنوں یورپ میں بہت چرچے ہیں، یورپین اخبارات اپنے اداریوں اور تجزیوں میں برطانیہ کے اسکولوں میں داخلے کیلئے درخواست دینے والے کم عمر بیرونی طلبہ سے جو سلوک برطانیہ میں روا رکھا جا رہا ہے، اس کیخلاف خوب تنقید کی جا رہی ہے۔ طلبہ سے جن کی عمر صرف پانچ سال ہے نئے ویزا قوانین کے تحت پوچھا جا رہا ہے کہ آیا وہ دہشت گرد ہیں؟ جس پر نہ صرف عوام میں برہمی کی لہر پیدا ہو گئی ہے بلکہ سمندر پار کے ہزاروں طلبہ کے برطانیہ کی طرف رخ نہ کرنے کا اندیشہ پیدا ہو گیا ہے۔ لندن میں دفتر خارجہ کے مطابق اسکولوں میں داخلے کی درخواست دینے والے طلبہ سے سوال کیا جا رہا ہے کہ آیا وہ دہشت گرد ہیں یا پھر ’’جنگی جرائم یا نسل کشی‘‘ میں ملوث رہے ہیں؟ہالینڈ کے ایک جریدے نے لکھا ہے کہ طلبہ کو 57صفحات پر مشتمل دستاویز دی گئی ہے جس میں سوالوں کے جوابات کیلئے ہدایت دی جا رہی ہے کہ ہر سوال کا واضح طور پر جواب دیا جائے جس میں بعض عجیب و غریب سوالات ہیں، طلبہ سے یہ پوچھا جا رہا ہے کہ آیا وہ کبھی کسی ملک میں دہشت گرد سرگرمیوں میں ملوث رہے ہیں؟ یا ایسی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کی ہے، آیا درخواست گزارنے کبھی کسی بھی طریقے یا ذریعے سے ایسے خیالات کا اظہار کیا ہے جن میں تشدد کو برحق یا دہشت گردی کو منصفانہ قرار دیا ہو؟ برطانیہ کے ماہرین تعلیم نے حکومت کو خبردار کیا ہے کہ ان قوانین کی وجہ سے برطانیہ میں زیر تعلیم لگ بھگ 30 ہزار بیرونی طلبہ برطانیہ کو چھوڑ کر جا سکتے ہیں۔ باور کیا گیا ہے کہ بعض طلبہ کی درخواستوں کو پہلے ہی مسترد کر دیا گیا ہے لبرل ڈیموکریٹک پارٹی کے قائدین کا کہنا ہے کہ ان قواعد کی وجہ سے حصول تعلیم کیلئے برطانوی مقبولیت کو دھچکا لگے گا اور اسکولوں کی آمدنی میں زبردست کمی واقع ہو گی۔ ایک ڈچ ماہر تعلیم نے کہا ہے کہ ویزا فارم ترتیب دیتے وقت عقل و فہم سے کام نہیں لیا گیا ، ویزا درخواستوں کیلئے سختی یقیناً اہم ہے مگر بچوں سے یہ پوچھنا کہ آیا وہ دہشت گرد ہیں ایک احمقانہ فعل ہے۔ ایسے سوالات سے ان کی ذہنی نشو و نما پر بھی اثر پڑ سکتا ہے۔ ادھر جرمن اخبارات نے برطانیہ میں بچوں کے ویزا قواعد اور درخواستوں میں دیے گئے احمقانہ سوالات پر تنقید کے ساتھ ویزا درخواستوں کا ذکر کرتے ہوئے اخبار لکھتا ہے کہ پاکستان میں موجود برطانوی سفارت خانے کی امیگریشن حکام کے پاس ہر ویزا درخواست کو چیک کرنے کیلئےصرف 11 منٹ کا وقت ہوتا ہے۔ برطانوی اخبار ڈیلی ٹیلی گراف کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس سے لاگو کی گئی نئی پالیسی کے تحت امیگریشن حکام ویزا درخواستوں کے ساتھ منسلک دیگر دستاویزات بھی چیک نہیں کرتے اور نہ ہی امیدواروں کا ٹیلی فون پر انٹرویو کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے مشکوک افراد کیلئے جعلی سٹوڈنٹ ویزا حاصل کر کے برطانیہ میں داخل ہونا آسان ہو گیا ہے اور ادھر برطانوی حکومت نے کہا ہے کہ ویزا درخواستوں کی چیکنگ کیلئے ہمارے پاس 200سے زائد عملہ موجود ہے اور تمام درخواستوں کو باریک بینی سے چیک کیا جاتا ہے ۔ امریکہ کے تھنک ٹینک دی ’’ہیر یٹج فاؤنڈیشن‘‘ نے کہا ہے کہ برطانیہ اور پاکستان کے درمیان بچوں کے جسمانی اور نظریاتی ’’دہشت گردی کی پائپ لائن‘‘ موجود ہے جسے توڑنا انتہائی مشکل مگر ضروری ہے۔تھنک ٹینک نےبرطانیہ کو مشورہ دیا ہے۔ کہ وہ اپنے امیگریشن اور تعلیمی قوانین کو مزید سخت بنائے۔تعلیم حاصل کرنے کیلئےسخت قوانین بنانے والے ملک برطانیہ کو شاید یہ علم نہیں کہ اس وقت دنیا میں سات کروڑ بچے اسکول نہیں جاتے جنہیں اگر تعلیم دے دی جاتی تو لگ بھگ 18 کروڑ افراد کو غریبی سے نکالا جا سکتا تھا لیکن ترقی پذیر ملکوں میں مالی بحران کی وجہ سے تعلیم کے شعبے میں بہتری نہیں آسکی لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ برطانیہ ہی کے امیگریشن کے وزیر کا کہنا ہے کہ برطانیہ میں جس تعداد میں غیر ملکی طلبہ کو آنے کی اجازت دی جاتی ہے وہ ’’ناقابل برداشت‘‘ ہو گئی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ 2019میں جن افراد کو برطانیہ میں تعلیم کے حصو ل کیلئے ویزا جاری کیا گیا تھا ان میں 22فیصد تاحال برطانیہ میں ہی مقیم ہیں اس لیے برطانوی حکام ورک پرمٹ پر برطانیہ آنے والے افراد کے معاملے پر بھی غور و خوض کرنے والے ہیں کہ ان میں 40فیصد افراد پانچ برس کے بعد بھی برطانیہ ہی میں رہائش پذیر ہیں۔ اس میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ برطانیہ میں پانچ یونیورسٹیاں دنیا کی اعلیٰ ترین یونیورسٹیوں میں شمار ہوتی ہیں 2019 کی جامعات کی درجہ بندی کے مطابق دنیا کی 2سو بہترین یونیورسٹیوں میں 72امریکہ میں ہیں جبکہ برطانیہ میں جسے پوری دنیا میں اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں دنیا کا قائد تصور کیا جاتا ہے دنیا کی 100بہترین یونیورسٹیوں میں سے صرف 14یونیورسٹیاں ہیں اور پھر بھی اسے "گریٹ" برٹن کہا جاتا ہے۔