تحسین اور تنقید کرنے کے بھی آداب ہوا کرتے ہیں ،ہنسنے اور رونے کا بھی سلیقہ ہوتا ہے۔زندگی کی گاڑی پٹری پر رہے تو سفر آسودگی اور بقا کا باعث ہوتا ہے۔ بے ہنگم کچھ بھی ہو، ناگوار گزرتا ہے۔ ہر شے سْرمیں بھلی لگتی ہے۔سْرکا مطلب ایک خاص ترتیب ہے جو کسی اصول پر مبنی ہوتی ہے۔اپنی بات کریں تو ہمیں آج تک نہ حسن اور صلاحیت کی تحسین کرنی آئی اور نہ شر اور برائی کی ملامت کا گْر سمجھ آیا۔ہم اپنے لطیف احساسات وجذبات کے اظہار پر بھی بند باندھ باندھ کر دل میں سیلاب برپا کر لیتے ہیں۔حتیٰ کہ ضبط کی کیفیت میں مبتلا ہمارا اپنا وجود سمجھنے سے قاصر ہو جاتا ہے کہ ہم اچھی بات پر مسکرانے ، کسی خوبصورت منظر کو سراہنے، شاعری ، موسیقی سے لطف اندوز ہونے میں تو کنجوسی کرتے ہیں۔لیکن نفرت ،انتقام اور وا ویلا کرتے ہوئے ہم انسان نہیں رہتے آگ کا گولا بن جاتے ہیں جس کیلئے دائرے میں سمائے رہنا مشکل ہوتا ہے۔
جب جب معاشرہ شدید بگڑتا دکھائی دیتا ہے تو کسی صوفی کا صحیفہ مددگار بنتا ہے۔بڑے مہینوں سے میری لائبریری میں ایک کتاب میری منتظر تھی۔جسے بڑی توجہ اور محبت سے پڑھنے کیلئے ریاضت بھرا وقت درکار تھا۔وہ کتاب عشق نامہ ہے فرخ یار ایک خوبصورت انسان اور بہت عمدہ ادیب ہیں، شاہ حسین کے تصوف ِملامت، سنگیت اور کلام پر ڈیڑھ سو صفحے کا طویل مضمون کسی پی ایچ ڈی تھیسس سے کم نہیں۔تصوف کی تعریف میں لفظ صوف کی کھوج میں کئی صدیوں کا سفر شامل ہے۔لیکن ہم بات کر رہے ہیں ملامت کے حوالے سے تصوف میں ملامت سے مختصرا ًمراد یہ ہے کہ انسان خود نمائی ،خودی اور پارسائی پر فخر کرنے سے باز رہے اور اصل مقصد یعنی رب کی رضا پر توجہ مرکوز رکھے۔لیکن ہمارے ہاں اکثریت نے اسے درویش کے جلال اور لعنت ملامت تک محدود سمجھا اور اس کی روح تک پہنچنے کی جستجو نہیں کی۔فرخ یار نے ملامتیہ سلسلے کے عظیم صوفی شاہ حسین کی شاعری کی منفرد تفہیم کے ساتھ نظریہ ملامت پر جمالیاتی اور فلسفیانہ تجزیہ پیش کرکے اہم خدمت سر انجام دی ہے۔ اپنی تحقیقی اور تخلیقی کتاب، عشق نامے میں سلسلہ ملامت کی وضاحت کرتے ہوئے انھوں نے قبل مسیح کے فلسفیوں کی صوفیانہ دانش سے آغاز کرتے ہوئے مختلف تہذیبوں ،مذاہب ، مکاتبِ فکر خصوصاً اسلامی ادوارسے حوالوں کے ساتھ تفصیلی بحث کی ہے۔ انھوں نے ملامت کا مثبت رْخ پیش کرنے کے ساتھ شاہ حسین کی شاعری کی دلفریبی ، ہمہ گیری اور شخصیت کی دلکش اور جمالیاتی پرتو پر توجہ کی ترغیب دی ہے۔ملامت کو صرف مادھو لال تک محدود نہیں کیا جاسکتا وہ تو ایک وجود کے ذہن میں پلنے والا فلسفیانہ خیال ہے۔جو خوبصورت منظرنامے کی بے ڈھنگی اور کرخت حقیقت نظر آنے پر گرجدار لفظوں کا روپ دھارتا ہے۔ لیکن لطیف پیرائے میں اظہار کی سہولت اور قدرت نے مفہوم میں بسی کڑواہٹ اور طنز کو بوجھل اور ناپسندیدہ نہیں ہونے دیا۔
شاہ حسین کا ملامتی رنگ دیکھئے
انی حْسین جولاہا، ناں اْس مول ناں لاہا،
ناں اوہ منگیا ناں پرنایا، ناں اوس گْنڈھ ناں ساہا،
ناں گھر باری ناں مسافر ،ناں اوہ مومن ناں اوہ کافر،
جو آہا سو آہا
اے سَکھی وہی حسین جولاہا،جو کبھی اصل زر اور منافع کے جھنجھٹ میں نہیں پڑا ،نہ اْس کی منگنی ہوئی نہ شادی،نہ اس کی شادی کا بلاوا بھیجا گیا نہ مبارک کا سلسلہ ہوا،نہ وہ کسی گھر میں مقیم ہوا نہ مسافر،نہ وہ کافر ہے نہ ہی مومن، وہ تو جو ہے سو ہے،
اسی طرح
رہیے نال سجن دے رہیے ،
لَکھ لَکھ بَدیاں سو سو طعنے سِر تے سہئے،
توڑے سِر ونجے دھڑ نالوں ، تاں بھی حال نہ کہئے،
زندگی ساجن کے ساتھ رہنے کا نام ہے۔لوگوں کے لاکھ طعنے برداشت کریں ،سَر دَھڑ سے جْدا ہو جائے تب بھی کسی غیر سےدُکھ کا حالِ کہنا مناسب نہیں۔
ملامت کی اصل روح یہی ہے کہ جتنی بھی مشکلات اور مخالفتیں ہوں اپنے مقصد سے جْڑت بنائی رکھنا چاہئے۔شاہ حسین ذات کے تکبر سے بچنے اور،میں، کی نفی کرتے ہوئے کہتا ہے
بْریاں بْریاں بْریاں وے اسیں بْریاں وے لوکا
بْریاں کول نہ بوہ وے،بْریاں بْریاں وے لوکا
بْرے ہیں ،بْرے ہیں، بْرے ہیں ،ہاں ہم
بْرے ہیں،ہم بْروں کے پاس مت بیٹھو لوگو
اپنے آج کے سماج پر نظر ڈالیں تو اس ملک میں ہر کوئی پاسارئی اور دانشوری کا دعوے دار ہے۔ کسی نےعقل ِکْل ہونے کا زہر ہماری رگوں اور سوچوں میں بھر دیا ہے۔کوئی شاہ حسین جیسا طبیب ملے تو بات بنے۔