مصنّف: جمیل عثمان
صفحات : 304، قیمت: 900روپے
ناشر: رسول مطبوعات ، کراچی۔
جمیل عثمان کو ادبی ذوق وَرثے میں ملا ہے۔ اُن کے والد، محمّد عثمان بھی ایک کہنہ مشق شاعر اور افسانہ نگار تھے، جب کہ ان کے ایک بھائی، نوشاد عثمان بھی دو شعری مجموعوں کے خالق ہیں۔ وارثت اپنی جگہ، لیکن بہرحال آدمی کو ادب میں زندہ رہنے کا جواز فراہم کرنا ہوتا ہے اور جمیل عثمان اپنی خاندانی روایات کو مسلسل آگے بڑھا رہے ہیں۔
وہ بنیادی طور پر شاعر ہیں، لیکن ایک افسانہ نگار کی حیثیت سے بھی اُن کی خدمات نظر انداز نہیں کی جاسکتیں۔ سقوطِ مشرقی پاکستان کے تناظر میں لکھی گئی اُن کی کتاب ’’جلاوطن کہانیاں‘‘ نے غیر معمولی اعتبار حاصل کیا تھا اور یہ جمیل عثمان کی دسویں کتاب ہے۔
زیرِ نظر کتاب کے افسانے پچاس سال کے عرصے میں لکھے گئے، جو بھارت اور پاکستان کے ادبی جرائد میں شائع ہوتے رہے۔ اُنہوں نے اِس کتاب کو اپنے اساتذہ کے نام معنون کیا ہے، جس سے اُن کی سعادت مندی اور اعلیٰ ظرفی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ یہ کُل 23افسانے ہیں اور ہر افسانہ دعوتِ غور و فکر دیتا ہے کہ کوئی افسانہ مقصدیت سے خالی نہیں۔
یوں بھی مصنّف نے اپنے افسانوں میں لفّاظی کی بجائے، حقیقت نگاری کو پیشِ نظر رکھا ہے۔ جاوید رسول جوہر نے سچ کہا ہے کہ’’جمیل عثمان کی کہانیوں کا منبع زندگی کی حرارت اور توانائی ہے۔‘‘ بلاشبہ، ان کے افسانے معاشرتی اور سماجی زندگی کے عکّاس ہیں۔ جب کہ کتاب میں ابوالحسن نغمی، محمّد حمید شاہد، پروفیسر خالد ظہور، جاوید رسول جوہر اور فیصل عظیم کے توصیفی مضامین بھی شامل ہیں۔