فاطمہ شکیل، راول پنڈی
فجر کا وقت ختم ہوئے چند ساعتیں ہی بیتی تھیں۔ سورج نے اپنی نارنجی شعائیں آسمان پر پھیلانا شروع کر دی تھیں۔ اپر مڈل کلاس کالونی میں سبز بیلوں سے گِھرے ایک گھر میں معمول کی ہڑبونگ مچی ہوئی تھی۔ ناشتے کی اشتہا انگیز خوش بُو اور کچن سے نکلتا دھواں گھر کے اندرونی منظر کو مزید ہنگامہ خیز بنا رہا تھا۔ ’’جلدی کرو مہرو، ابھی وین آ جائے گی۔ ‘‘امّی نے توے سے پراٹھا اُتارتے ہوئے کچن ہی سے ہانک لگائی۔ ’’امّی میری ٹائی نہیں مل رہی۔‘‘ سلمان کچن کے دروازے میں جھنجھلایا ہوا آ کھڑا ہوا۔ ’’وہیں ہو گی، جہاں روز ہوتی ہے۔‘‘ امّی نے جواب دیا اور دوسرا پراٹھا بناتے ہوئے بڑی بیٹی کو آواز دی، ’’عائلہ، عائلہ …‘‘ ’’جی امّی؟‘‘…’’امّی ناشتا؟‘‘۔ گھر کا لباس پہنے، آدھی بندھی چُٹیا کے ساتھ عائلہ اور اسکول کے یونی فارم میں ملبوس مہرو دونوں ایک ساتھ ہی کچن میں داخل ہوئیں۔ ’’عائلہ! جائو ذرا سلمان کو ٹائی ڈھونڈ دو… اور مہرو! تم جلدی سے بیٹھ کر ناشتا کرو۔ ابھی وین آ جائے گی اور تمہارا بیگ بھی پیک نہیں ہو گا۔‘‘ مہرو کو ناشتا دیتے ہوئے امّی نے کہا۔ اُن کے ہاتھ بہت تیزی سے چل رہے تھے۔
چند ہی لمحے ہی گزرے تھے کہ عائلہ جھنجھلائی ہوئی واپس آئی۔ ’’امّی مُجھے نہیں مل رہی کوئی ٹائی وائی۔ پتا نہیں کہاں پھینک دیتا ہے۔ اپنی چیزیں بھی سنبھال کر نہیں رکھ سکتا۔‘‘ ایک تو سلمان کی لاپروائی کی عادت سے عائلہ پہلے ہی تنگ تھی اور دوسرا اس وقت اپنی تیاری ادھوری چھوڑ کربھائی کی ٹائی ڈھونڈنا اُسے سخت ناگوار گزر رہا تھا۔ سلمان بھی اس کے پیچھے ہی کچن میں آ گیا تھا۔ وہ کالج جانے کے لیے تقریباً تیار تھا۔ ’’ایک تو تم لوگوں کو سامنے رکھی چیز بھی دکھائی نہیں دیتی۔
سلمان! تم بیٹھو ناشتا کرو۔ مَیں خود دیکھتی ہوں۔‘‘ سلمان کو ناشتا دے کر امّی عُجلت میں اُس کے کمرے کی طرف چل دیں۔ اب کچن سے سلمان اور مہرو کی سرگوشیوں کی آواز کے ساتھ جلتے چولھے سے بھل بھل نکلتی گیس کی آواز بھی آ رہی تھی۔ بشارت صاحب کی سوئی گیس کے محکمے میں ملازمت کی وجہ سے اُنہیں کم از کم گیس کابل زیادہ آنے کا کوئی خطرہ نہیں رہتا تھا۔
سلمان کا کمرا کسی اکھاڑے کا منظر پیش کر رہا تھا۔ آدھی بیڈ شیٹ فرش پر لڑھک رہی تھی۔ میز پر پھیلی کتابوں کے اوراق پنکھے کی ہوا سے پھڑ پھڑا رہے تھے اور اٹیچڈ باتھ رُوم سے قطرہ قطرہ پانی گرنے کی آواز اس شور میں بھی سنائی دے رہی تھی۔ ’’کچھ شک نہیں کہ اُسے ٹائی نہیں مل رہی تھی۔‘‘ امّی بڑبڑا ئیں۔ انہوں نے جلدی سے ٹائی ڈھونڈی اور باہر نکلنے لگیں، تو ایک لمحے کو خیال آیا کہ باتھ روم کی ٹونٹی بند کر دیں، مگر پھر وقت کی قلّت کا سوچتے ہوئے سَر جھٹک دیا۔
لائٹ اور پنکھا بند کر کے وہ کمرے سے نکلیں، تو نیوز بلیٹن کی آواز سُن کر ٹھٹکیں۔ اُن کی نظر اپنے کمرے کے ادھ کُھلے دروازے پر پڑی، تو بشارت صاحب ٹی وی کے سامنے جمے بیٹھے نظر آئے۔ ’’ خود ٹی وی کی آواز اتنی اونچی کر رکھی ہے اور پھر مجھ پر برسیں گے کہ تم نے گھر میں طوفانِ بد تمیزی مچا رکھا ہے۔‘‘ انہوں نے اپنے شوہر سے شکایتی لہجے میں کہا۔
وین کا ہارن دوسری بار بجا، تو امّی چونکیں۔ انہوں نے مہرو کو آواز دی، تو وہ اپنے کمرے سے نکلتی ہوئی دکھائی دی۔ بیگ کندھے پر لٹکائے، دو کتابیں اور قلم ہاتھ میں پکڑے، جنہیں بیگ میں ڈالنے کا وقت نہیں ملا تھا، وہ گیٹ کی طرف بھاگ رہی تھی۔ ’’اللہ حافظ امّی!‘‘مہرو نے تیزی سے گھر سے باہر نکلتے ہوئے کہا، جس کے جواب میں امّی نے بھی دھیرے سے اللہ حافظ کہا۔ امّی کچن میں واپس آئیں، تو سلمان بیٹھا ناشتا کر رہا تھا اور مہرو کا آدھا پراٹھا اور چائے کا آدھا کپ ٹیبل پر دھرا تھا۔ ’’کبھی وقت پر تیار ہو، تو ناشتا پورا کر سکے نا۔‘‘ انہیں اپنے بچّوں کی یہ عادت سخت ناپسند تھی۔
سلمان نے امّی کے ہاتھ میں ٹائی دیکھی، تو ناشتا ادھورا چھوڑ کر اُٹھ کھڑا ہوا۔ ’’تھینک یو امّی۔‘‘ اُس نے ٹائی لینے کے لیے ہاتھ بڑھایا لیکن امّی نے ٹائی دینے کی بہ جائے زبردستی دوبارہ بٹھا دیا۔ ’’پہلے ناشتا ختم کرو۔‘‘ وہ ڈانٹے ہوئے بولیں۔ ’’امّی! مُجھے دیر ہو رہی ہے۔‘‘ سلمان منمنایا۔ ’’جب دس دفعہ اُٹھانے کے لیے جاتی ہوں، تو تب یہ خیال نہیں آتا؟‘‘ سلمان چارو ناچار دوبارہ ناشتا کرنے بیٹھ گیا، تو وہ عائلہ اور بشارت صاحب کے لیے ناشتا تیار کرنے لگیں۔ چولھا تو پہلے ہی جل رہا تھا۔ اس پر توا رکھا اور پراٹھا بیلنے لگیں۔ ساتھ ساتھ وہ عائلہ اور بشارت صاحب کو آوازیں بھی دے رہی تھیں۔
اتنی دیر میں سلمان ناشتا کر چُکا تھا۔ وہ ٹائی لیے باہر نکل گیا۔ دوبارہ جب آیا، تو ٹائی لگی ہوئی تھی، بیگ کندھے پر تھا اور ہاتھ میں بائیک کی چابی تھی۔ ’’اللہ حافظ امّی۔‘‘ سلمان نے کچن سے نکلتے ہوئے کہا۔ ’’اللہ حافظ… اور خبردار جو تم نے بائیک تیز چلائی۔‘‘ امّی نے اُسے تنبیہ کی۔ سلمان کی روانگی تک عائلہ بھی ناشتا شروع کر چُکی تھی، مگر بشارت صاحب ابھی تک نہیں آئے تھے۔ لہٰذا، انہوں نے ایک دفعہ پھر اپنے خاوند کو آواز دی۔ ٹی وی کے سامنے جم کر بیٹھے بشارت صاحب نے چوتھی مرتبہ آنے والی اس آواز پر مجبوراً ٹی وی بند کیا اور پنکھا اور لائٹ بھی آف کر کے کمرے سے باہر نکل آئے۔
انہوں نے اپنے کمرے کے بالکل سامنے سلمان کے کمرے کی لائٹ آن دیکھی، تو اندر چلے گئے اور اندر پنکھا بھی چلتا پایا۔ ’’ہزار دفعہ کہا ہے کہ جب کمرے سے نکلو، تو لائٹ اور پنکھے بند کر دو، مگر یہاں کوئی سُنے تو ناں۔‘‘ وہ غُصّے میں بڑبڑا رہے تھے اور اس بڑبڑاہٹ کی آواز اتنی اونچی تھی کہ کچن میں بیٹھی امّی اور عائلہ بہ آسانی سُن سکتی تھیں۔ پنکھا بند ہوا، تو باتھ رُوم سے آتی ٹپ ٹپ کی آواز مزید واضح ہو گئی۔ وہ غصّہ ضبط کر کے آگے بڑھے اور ٹونٹی بند کی۔ پھر کچن کی طرف جاتے جاتے خیال آیا کہ ایک دفعہ عائلہ اور مہرو کے مشترکہ کمرے کا بھی چکر لگا لیا جائے۔
حسبِ توقّع اس کمرے کا منظر بھی کچھ مختلف نہ تھا۔ لائٹ آن تھی، پنکھا چل رہا تھا اور ایک طرف ساکٹ میں چارجر لگا تھا، مگر اس کے ساتھ فون نہیں تھا۔ ’’کسی کو کوئی احساس ہی نہیں۔‘‘ اپنے عقب میں بیگم کو دیکھ کر وہ برہم ہوئے۔’’بچّوں کو دیر ہو رہی تھی، اس لیے شاید یاد نہ رہا ہو۔‘‘ ہر ماں کی طرح وہ بھی بچّوں کی طرف سے صفائی پیش کرنے لگیں، جو بشارت صاحب کے لیے ہر گز قابلِ قبول نہیں تھی، کیوں کہ ایسا پہلی بار نہیں ہوا تھا۔ انہوں نے بغیر کچھ کہے، خفگی سے کچن کی طرف اپنا رُخ موڑ لیا۔ کچن میں داخل ہوئے، تو پہلی نگاہ جُھکے سَر کے ساتھ ناشتا کرتی عائلہ اور دوسری سامنے جلتے چولھے پر پڑی۔
انہوں نے بیوی کو گھورا اور سربراہی کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گئے۔ ’’جب بڑے ہی کسی بات کو خاطر میں نہ لائیں، تو بچّوں سے کیا شکایت۔‘‘بشارت صاحب نے بیگم پر طنز کا نشتر چلایا۔ ’’ابھی مَیں نے اپنا ناشتا تیار کرنا تھا، اس لیے بند نہیں کیا۔‘‘ امّی اپنی صفائی پیش کرتے ہوئے بشارت صاحب کے سامنے ناشتا رکھنے لگیں۔ ’’تو دوبارہ جلانے کے لیے گھر میں کوئی ماچس نہیں ہے کیا؟‘‘ انہوں نے تیز لہجے میں کہا۔ ’’لیکن گیس کا بِل تو زیادہ نہیں آتا۔‘‘ عائلہ کی زبان سے بے اختیار نکلا، جس پر اُسے ابّا کی خشمگیں نگاہوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ’’بچت صرف بِل کی خاطر تو نہیں کی جاتی۔‘‘
بشارت صاحب نے ناشتا کرتے ہوئے کہا۔ ابّا کی یہ بات سُن کر عائلہ اُنہیں استعجابی نظروں سے دیکھنے لگی۔’’ ایل ای ڈی بلب کے استعمال سمیت دیگر چھوٹی موٹی بچتوں سے بِل تو کم آتا ہے، لیکن ایک چیز اس سے بھی زیادہ ضروری ہے…‘‘ بشارت صاحب نے نرم لہجے میں سمجھانا شروع کیا۔ ’’وہ کیا…؟‘‘ عائلہ نے ابّا کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی سوال داغا۔ ’’وہ ہے احساسِ ذمّے داری۔‘‘ بشارت صاحب نے اطمینان سے جواب دیا۔
اسی دوران امّی چولھا بند کر کے، اپنا ناشتا لیے اُن کے ساتھ آ بیٹھیں۔ ’’اس بات کا احساس کہ توانائی کے قدرتی ذرایع بہت محدود ہیں اور اگر ہم آج انہیں بے دریغ استعمال کریں گے، تو ہماری آئندہ نسلیں ان سے محروم ہو جائیں گی۔‘‘ اب عائلہ اپنا ناشتا ختم کر چُکی تھی اور صرف اپنے ابّا کی گفتگو سُننے کے لیے بیٹھی تھی۔ ’’اگر ہم اس مُلک کی بہ دولت خود کو ملنے والی اتنی آسائشوں کے بدلے وطن کے لیے کچھ اور نہیں کر سکتے، تو کم از کم اس کے مستقبل کے لیے توانائی کے ذرائع کا بے دریغ استعمال تو نہ کریں۔ خاص طور پر ان ذرائع کا، جن کے دوبارہ بننے میں صدیاں لگ جاتی ہیں۔ سمجھیں؟‘‘
ابّا نے اُس کے سَر پر ہلکی سی چیت لگا کر پوچھا۔’’جی ابو۔ سمجھ گئی۔‘‘ عائلہ نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔ ’’اچّھی بات ہے۔ اب مُجھے تیار ہونے کے لیے پانچ منٹ دو۔ مَیں تمہیں یونی ورسٹی چھوڑتا ہوا آفس جائوں گا۔‘‘ بشارت صاحب چائے کا آخری گھونٹ بَھرتے ہوئے بولے۔ ’’آج میری کلاس جلدی شروع ہو گی، آپ کی ڈیوٹی نہیں۔‘‘عائلہ نے کہا۔ ’’جب ایک ہی راستے سے جانا ہے، تو محض ایک گھنٹے کے فرق سے دو چکر کیوں لگائیں؟‘‘ بشارت صاحب کچن سے نکلتے ہوئے رسان سے بولے۔ ’’پیٹرول کی بچت…‘‘ پیچھے بیٹھی امّی بڑبڑائیں، تو عائلہ مسکراہٹ دبا کر رہ گئی۔ وہ سب ابّا کے بارے میں ہمیشہ ایسے ہی باتیں کرتے تھے، مگر آج پہلی دفعہ بشارت صاحب کی گفتگو نے عائلہ کی سوچ کا رُخ تبدیل کر دیا تھا۔
تیار تو وہ پہلے ہی ہو چُکی تھی، سو کمرے سے بیگ لینے چلی گئی۔ اتنی دیر میں ابّا تیار ہو کر گاڑی اسٹارٹ کر چُکے تھے۔ سارے رستے وہ ابّا کی باتوں اور اپنے غیر ذمّے دارانہ رویّے پر غور کرتی رہی کہ کیسے وہ گھنٹوں ٹی وی آن کر کے کمرے سے غائب رہتی ہے، جب کہ پنکھے اور بلب تو بِلا ضرورت بھی آن رہتے ہیں۔ اسی طرح اُسے اور نہ اُس کے بہن بھائیوں کو کبھی یہ خیال آیا کہ پانی کی موٹر چلا کر اُس کی طرف سے بے فکر ہو جانا نہ صرف بجلی کا زیاں ہے بلکہ ٹینکی بَھر جانے کی صُورت پانی کا غیر ضروری بہائو بھی اس عظیم نعمت کی بے قدری ہے۔
ابّو کو اُن کی ان غیر ذمّے دارانہ حرکتوں پر بہت غصّہ آتا تھا اور وہ تینوں چِڑ بھی جاتے، لیکن ابّو کی غیر موجودگی میں اُن کی اس ’’کفایت شعاری‘‘ پر خُوب شُغل لگاتے۔ امّی البتہ ابّو کی طرح سختی نہیں کرتی تھیں، مگر وہ بھی ہمیشہ یہی کہتیں کہ ’’جب اپنی جیب سے بِل ادا کرنا پڑے گا، تب تم لوگوں کو احساس ہو گا۔‘‘ لیکن وہ تینوں ہمیشہ سُنی اَن سُنی کر دیتے۔
کلاس کی طرف بڑھتے ہوئے اُس نے اپنے ذہن سے تمام خیالات کو جھٹکا۔ کلاس شروع ہونے میں ابھی دس منٹ باقی تھے۔ وہ ایک راہ داری سے دوسری میں مُڑی، تو نظر سامنے جلتی لائٹس پر پڑی۔ دن کی روشنی میں اُن کے جلنے کا احساس بھی نہیں ہو رہا تھا۔ ’’پتا نہیں یہ کب سے آن ہیں۔ کل شام سے یا شاید صبح کسی نے جلائی ہوں۔‘‘یہ سوچتے ہوئے وہ دیوار پر اُن کے بٹن تلاشنے لگی۔
عائلہ نے لائٹس آف کر کے اپنے آس پاس دیکھا، تو اُن کے بند ہونے سے کہیں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی۔ روشنی ذرا بھی مدھم نہیں ہوئی تھی اور نہ ہی کوئی چونکا تھا، لیکن ایک تبدیلی اُس کے اندر ضرور آئی تھی اور وہ اُس وقت ایک ان جانی سی خوشی محسوس کر رہی تھی۔ ’’کیا یہ اتنا بڑا کام ہے کہ مَیں اسے انجام دے کر مسرور ہو رہی ہوں۔ مَیں نے صرف ایک بٹن ہی تو دبایا ہے؟‘‘عائلہ نے دل ہی دل میں سوچا۔
اُسے اپنی خوشی کی وجہ سمجھ میں نہیں آ رہی تھی۔ پھر اچانک اُسے ناشتے پر کی گئی اپنے ابّا کی باتیں یاد آ گئیں اور اُس نے دل ہی دل میں سوچا کہ ’’ کوئی بھی اچّھا کام چھوٹا یا بڑا نہیں ہوتا۔ اہمیت صرف اور صرف اپنے فرائض اور ذمّے داریوں کے احساس کی ہوتی ہے۔ اگر ہمیں اپنی ذمّے داریوں کا ذرا سا بھی احساس ہو جائے، تو اس سر زمین پر رہنے کا حق ادا کیا جا سکتا ہے۔
ناقابلِ اشاعت نگارشات اور ان کے تخلیق کار برائے ’’صفحہ ڈائجسٹ‘‘
خراب انسان (سیّد محسن علی، حیدر آباد، سندھ) نئی رُت (ثروت اقبال) آخری پنکھڑی (اُمِّ عبداللہ)برگد، خواب اور اسیرانِ ظلمت (ریطہ فرحت)مجرم کون؟ (سماویہ وحید) مکافاتِ عمل (شکیلہ ملک ، اسلام آباد) آرٹسٹ (قراۃ العین فاروق، حیدرآباد) ہجرت، غلطی کا احساس(عرشمہ طارق) کاروانِ امید (شہلا ارسلان) رواج (طیبہ سلیم) سچّارنگ(ہما عدیل) جب یاد کا آنگن کھولوں تو (عندلیب زہرا) موٹر سائیکل کی دادا گیری (خنسا محمد جاوید، حیدرآباد)یوم ِ دفاع اور ہم (ثنا توفیق خان، ماڈل کالونی، کراچی)۔
ناقابلِ اشاعت کلام اور ان کے تخلیق کار
نظم، وطنِ عزیز کی شان میں، غزلیں (شگفتہ بانو، لالہ زار، واہ کینٹ) فردیات (طاہر گرامی، ٹوبہ ٹیک سنگھ) حضرت محمدؐکی شان میں نذرانۂ عقیدت (قاسم عبّاس، ٹورنٹو، کینیڈا)، وہ میرا وطن (مقبول حسین ہاشمی، راول پنڈی) غزل (شیخ جُہد صیّام اِیکا مغل کُشا، لانڈھی، کراچی) حضرت حُرؓ (چوہدری قمر جہاں علی پوری) غزل، نظمیں حُسنِ ظن ، سراب (پرویز احمد)، غزلیں (علی امجد، ساہیوال) مجھ کو ہربار خدا ملتا ہے (سیّدہ ریطہ)سرسبزو شاداب زمین (الست زہرا) ختمِ نبوّتؐ، حضرت لقمانؑ (ارسلان اللہ خان ارسلؔ) نظمیں (اقصیٰ)۔