• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عشرت زاہد

بانو آپا اپنی بالکونی میں بیٹھی ہوئی تھیں، تب ہی ایک گیند اُن کے پیر کے پاس آ گری۔ ساتھ ہی بچّے شور مچانے لگے۔’’آنٹی! گیند دے دیں، آنٹی! گیند دے دیں۔‘‘ وہ دونوں ہاتھ گھٹنے پر رکھ کر بمشکل اُٹھیں۔ کافی دیر سے ایک ہی انداز میں بیٹھے رہنے سے پیر جم سے گئے تھے۔ گیند بچّوں کو واپس کی اور تسبیح رکھ کر باورچی خانے کا رُخ کیا۔ دو دن سے پیٹ میں درد تھا۔ وہ اپنے لیے مونگ کی دال کی کھچڑی چڑھانے لگی تھیں، آہٹ پرمُڑ کر دیکھا تو نوشین نظر آئی، جو بانو آپا کو کچن میں دیکھ کر تیزی سے پلٹ گئی تھی۔ وہ ایسا ہی کرتی تھی۔ اکثر اُس کی کوشش ہوتی کہ اُن کا آمنا سامنا کم کم ہو۔ وہ ٹھنڈی سانس بھر کر رہ گئیں۔ 

ایسا کیوں ہوتا ہے کہ ہم جس کو بہت پیار اور اپنائیت سے، اپنے سے جوڑنا چاہیں، وہ بے وجہ ہی اپنے گرد سرد مہری کا ایک خول چڑھا لے۔ ہم لاکھ کوشش کریں کہ یہ فاصلہ کم ہو۔ صرف محبت کے دو بول یا صرف ایک پیار بَھری مسکراہٹ ہی ہو، لیکن وہ مزید اپنے آپ میں سمٹ جائے۔ اُن کو ایک اور بات کا بہت دُکھ تھا کہ نوشین کبھی اُن کو مخاطب نہیں کرتی تھی۔ بھئی، امّی نہ سہی، آنٹی ہی کہہ دیتی۔ وہ سوچتی تھیں، کہ کوئی بیٹی نہیں ہے، لیکن بہو آئےگی، تو یہ کمی پوری ہو جائے گی۔ وہ امّی امّی کہہ کر پکارے گی، تو دل میں ٹھنڈ پڑ جائے گی، لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ حالاں کہ انہوں نے کافی مرتبہ پہل کر کے بھی دیکھا۔ مگر نوشین بس لیے دیئے ہی رہتی۔

اس کشادہ، خُوب صُورت فلیٹ میں کل پانچ نفوس رہائش پذیر تھے۔ بانو آپا، اُن کا اکلوتا بیٹا فارس، اُس کی بیوی نوشین اور دو بچّے رامین اور ریان۔ بچّوں میں تو جیسے دادی کی جان تھی۔ اُن کو فارغ وقت میں کہانیاں، انبیاءؑ، صحابہ کرامؓ کے قصّے سناتیں، کبھی ہوم ورک بھی کروا دیتیں۔ کبھی ڈرائنگ سکھاتیں، کبھی کبھی دائرے اور کاٹم کاٹی کے نشان والا کھیل بھی کھیلتیں۔ بچّے اُن کے پاس خوش رہتے۔ 

مگر کچھ دنوں سے وہ دیکھ رہی تھیں کہ، بچّے جیسے ہی اُن کے پاس آتے، کچھ ہی دیر میں نوشین اُن کو آواز دے کر بلا لیتی۔ شروع میں انہیں احساس نہیں ہوا، مگر جب متواتر یہی ہونے لگا، تو تب انہوں نے ایک رات نوشین کو آواز دے کر پوچھ ہی لیا۔ ’’بیٹا! کئی دنوں سے دیکھ رہی ہوں کہ بچّے جیسے ہی میرے کمرے میں آتے ہیں، تم اُنہیں بلا لیتی ہو۔ خیریت تو ہے؟‘‘ ’’جی… بچّے یہاں دیر لگاتے ہیں، تو صبح اُٹھنے میں سُستی کرتے ہیں۔‘‘ بانو آپا خاموش ہو گئیں۔ اب وہ اِس بات کا کیا جواب دیتیں۔

آہستہ آہستہ بہو کے ساتھ اُن کی بات چیت کم سے کم ہوتی جا رہی تھی۔ وہ جتنا بھی بڑا سوال کریں، نوشین کی طرف سے مختصر ہی جواب آتا۔ جب فارس گھر میں ہوتا، صرف تب نوشین کی باتوں اور ہنسی کی آواز آتی۔ صبح بچّوں کے اسکول اور فارس کے آفس جانے کے بعد گھر میں بالکل سنّاٹا چھا جاتا۔ اب انہوں نے باورچی خانے میں دخل دینا کافی کم کر دیا تھا۔ 

کیوں کہ اگر شوق سے بچّوں یا فارس کی پسند کا کچھ بنا بھی لیتیں، تو وہ برائے نام ہی استعمال ہوتا۔ صرف وہ اور فارس ہی کھاتے، نوشین ہاتھ تک نہیں لگاتی۔ حالاں کہ وہ بہت اچھا کھانا بناتی تھیں، مگر جب کوئی پذیرائی ہی نہ ہوتی، تو اُن کا دل خراب ہو جاتا۔ سب سے زیادہ افسوس کی بات یہ تھی کہ فارس کو نوشین کے اس تکلیف دہ رویے کا احساس ہی نہ تھا۔ وہ اپنے لگے بندھے معمولات میں مگن تھا اور وہ خُود اُسے کچھ بتانا نہیں چاہ رہی تھیں۔

پھر انہوں نے اداس رہنے کی بجائے اپنا دل دوسری سرگرمیوں میں لگانا شروع کردیا۔ اخبارات، کُتب کا مطالعہ، اپنے کالج کی سہیلیوں، رشتے داروں سے فون پر رابطہ وغیرہ، بس اِن ہی کاموں میں مصروفیت ڈھونڈ لی تھی اُنھوں نے۔ وہ کوئی معمولی خاتون نہیں تھیں۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ تھیں۔ ایک کالج کی معلمہ رہ چُکی تھیں۔20 گریڈ کی ملازمت سے سبک دوش ہوئی تھیں۔ وہ بیٹے پر بوجھ بھی نہیں تھیں، اُن کی اچھی خاصی پینشن آتی تھی۔ 

شوہر کی زندگی میں دونوں نے مل کر ایک پیارا سا گھر بنایا تھا، ’’شہربانو کاٹیج‘‘۔ میاں کے انتقال کے بعد ایک مرتبہ فارس کچھ دنوں کے لیے شہر سے باہر گیا ہوا تھا، تب گھر میں ڈکیتی ہوئی اور ڈاکو کافی کچھ لوٹ کر لے گئے، تو اُنھوں نےخوف زدہ ہو کر وہ گھر بیچ دیا اور محفوظ جان کر ایک سوسائٹی میں یہ جدید سہولتوں سے آراستہ فلیٹ لے لیا، جو فارس ہی کے نام کر دیا تھا۔ پھر اللہ کے کرم سے اُن کی صحت بھی بہت بہتر تھی، کوئی خاص بیماری نہیں تھی۔ 

فجر کے بعد قریب واقع پارک میں روزانہ چہل قدمی کرنے جاتیں۔ وہاں بھی کافی دوستیاں ہو گئی تھیں، لیکن گھر آتے آتے دل اداس ہو جاتا کہ اب اُس بوجھل ماحول میں وقت گزارنا ہے۔ وہ نوشین سے بہت سی باتیں کرنا چاہتیں، فارس کی بچپن کی باتیں، شوہر کے اچانک انتقال کے بعد کس طرح انہوں نے سخت مشکلات اُٹھا کر بیٹے کو پڑھایا، کتنے مسائل پیش آئے، اُس کی اپنی دل چسپیاں جاننا چاہتی تھیں، مگر نوشین نے ایک ایسی حد بندی کر رکھی تھی کہ یہ فاصلہ کم ہونے کی بجائے بڑھتا ہی جا رہا تھا۔ مگر وہ اس حوالے سے کسی سے کچھ نہیں کہتی تھیں کہ بھرم ٹوٹ نہ جائے۔

ایسے میں ایک رات اُن کی بھتیجی فرح اپنے میاں اور تینوں بچّوں کے ساتھ اُن سے ملنے آئی۔ اُس نے آتے ہی اپنے میاں کی ترقی کی خوش خبری دی، ساتھ لائی ہوئی مٹھائی کھلائی۔ بانو آپا نے بھی بہت خوش ہو کر اُس کا استقبال کیا۔ اس وقت فارس بھی گھر ہی پر تھا۔ اُس سے مخاطب ہو کر فرح بولی۔ ’’فارس بھائی! آج مَیں آپ سے کچھ مانگنے آئی ہوں۔ آپ وعدہ کریں، منع نہیں کریں گے۔‘‘ ’’اچھا! تمھیں مجھ سے کیا چاہیے بھئی؟‘‘ 

فارس حیران تھا۔ ’’آپ کی امّی اور اپنی پیاری پھوپھو کو کچھ دنوں کے لیے اپنے گھر لے جانا چاہتی ہوں، در اصل میرے میاں کو3 ماہ کی ٹریننگ کے لیے جاپان جانا ہے اور اِس دوران مَیں اور بچّے بالکل اکیلے ہو جائیں گے۔ اِس لیے ہم چاہتے ہیں کہ پھوپھو ہمارے پاس رہیں۔‘‘ وہ بانو آپا کا ہاتھ پکڑ کر بہت محبت سے کہہ رہی تھی۔’’دیکھیں ناں پھوپھو! میری تو امّی رہیں نہیں، بہن بھائی اپنے اپنے گھروں کے ہیں، تو مَیں نے سوچا کہ اس طرح گھر میں رونق بھی رہے گی اور مجھے آپ کی خدمت کا موقع بھی مل جائے گا۔ آپ چلیں گی ناں پھوپھو؟‘‘

’’فرح بیٹی! یوں اچانک تم نے کہا، مَیں ذرا سوچ کر بتاتی ہوں۔ وہ جزبز سی تھیں۔ فرح کے میاں بھی بہت محبت ولجاجت سے بولے۔ ’’نہیں آنٹی! پلیز، آپ سوچیں نہیں، بس ہاں کہہ دیں۔ تاکہ مجھے بھی اطمینان رہے کہ میرے بیوی، بچّے آپ کے ساتھ ہیں۔ بس کچھ ہی دنوں کی تو بات ہے۔‘‘ بانو آپا نے فارس کی طرف دیکھا۔ وہ کندھے اچکاتے ہوئے بولا۔ ’’امّی! آپ دیکھ لیں۔ اگر مناسب لگ رہا ہے تو کچھ دن ہو آئیں۔ کچھ ماحول بھی تبدیل ہوگا، لیکن تین ماہ زیادہ ہیں۔ یہاں ہمیں بھی تو کمی محسوس ہو گی۔‘‘

’’اچھا فرح! ٹھیک ہے۔ مَیں آ جاوں گی، لیکن اتنے سارے دنوں کے لیے نہیں۔ میرے بچّے، رامین اور ریان میرے بنا اداس ہو جائیں گے۔‘‘ بانو آپا نے گویا ہتھیار ڈال دئیے۔ ’’بہت شکریہ آنٹی! مَیں دو دن بعد آپ کو لینے آ جائوں گا۔‘‘ فرح اور اُس کے میاں کے چہرے کِھل گئے تھے۔ اِس تمام گفتگو کے دوران نوشین بالکل خاموشی سے مہمانوں کی تواضع کا سامان کرتی رہی۔ بانو آپا اُسی کی جانب دیکھ رہی تھیں۔ ایک لمحے کو دونوں کی نظریں ملیں، جو اُس نے فوراً ہی چُرا لیں۔ بانو آپا کو افسوس ہوا کہ وہ بالکل ہی لاتعلق سی تھی۔ اُن کے دل میں کچھ چبھ سا گیا تھا اور اُس کے اِسی رویّے سے اُن کو فیصلہ کرنے میں مدد ملی تھی۔

اُنہیں فرح کے گھر آئے ابھی دو ہی روز ہوئے تھے اور بچّے اُن سے ایسے گُھل مِل گئے، جیسے ہمیشہ سے اُن کے ساتھ رہتے ہوں۔ کوئی اُن کو پانی لا کر دے رہا ہے۔ کوئی اذان ہوتے ہی اُن کی جائے نماز بچھا دیتا۔ دونوں بچیاں اُن کے بیڈ ہی پر اطراف میں بیٹھ جاتیں، تو بیٹا روٹھ جاتا کہ مجھے نانی کے پاس بیٹھنا ہے۔ وہ اُسے اٹھا کر گود میں بٹھا لیتیں۔ 

روز و شب بہت خُوب صُورت ہو گئے تھے۔ اُنہیں اتنی پذیرائی کی عادت کہاں تھی؟ فرح اور بچّوں کی محبتوں میں شرابور ہو کر وہ اللہ کا بہت شُکر ادا کرتیں۔ اُن کے لیے دعا کرتے ہوئے آنکھیں اکثر بھیگ جاتیں۔ ایسے میں اُنہیں بےاختیار نوشین کا سرد رویہ یاد آ جاتا۔ کبھی کبھار فارس کا فون آتا، تو وہ بچّوں کی خیریت پوچھ لیتیں۔ چُھٹی والے دن بچوں سے وڈیو کال پر بات کرتیں۔ اِسی طرح ایک ماہ گزر گیا۔

شام کے وقت بچّے فرح کے گھر کے چھوٹے سے خُوب صُورت لان میں کھیل رہے تھے۔ فرح، بانو آپا کے سر میں تیل کی مالش کر رہی تھی اور وہ اُسے کوئی قصّہ سُنا رہی تھیں، جسے سن کر فرح خُوب محظوظ ہو رہی تھی۔ ایسے میں بیل بجی۔ حارث نے بھاگ کر دروازہ کھولا تو فارس، نوشین اور دونوں بچّے آئے تھے۔ بچّے تو بھاگ کر دادی کے پاس آ گئے۔ فارس بھی ماں کے پاس ہی آ کر بیٹھ گیا۔ ’’امی آپ کی کمی بہت زیادہ محسوس ہو رہی ہے۔‘‘ اُنہوں نے اُس کے ماتھے پر پیار کیا۔ 

نوشین نے البتہ دُور ہی سے سلام کیا۔ وہ بہت خوش اور تروتازہ لگ رہی تھی۔ فرح نے بہت اصرار سے اُنہیں کھانے پر روک لیا تھا۔ باتوں کے دوران فرح نے کہا۔ ’’نوشین بھابی! اب تو مَیں پھپو کو اپنے پاس ہی رکھنے والی ہوں۔ اُن کے ہونے سے گھر میں بہت رونق ہوگئی ہے۔ بچّے بھی بہت خوش ہیں۔ ٹھیک ہے ناں پھوپھو؟‘‘ بانو آپا نے مُسکرا کر اثبات میں سرہلادیا تھا۔ لیکن نوشین نے چہکتے ہوئے کہا۔ ’’جی، جی کیوں نہیں۔ آپ بالکل رکھ لیں اپنی پھوپھو کو۔‘‘ بانو آپا اور فارس نے چونک کر نوشین کی طرف دیکھا، تو وہ جھینپ گئی۔ اُدھر بچّے بھی آپس میں خوب گھل مِل گئے تھے۔ بہرحال، وہ شام بہت اچھی گزری۔

اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے دو ماہ گزر گئے۔ ایک رات فارس کا فون آیا۔ وہ بہت گھبرایا ہوا تھا۔ نوشین سیڑھیوں سے گرگئی تھی۔ اُس کی گھٹنے کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی اور اِس وقت ایمرجینسی میں اُس کی سرجری ہو رہی تھی۔ بانو آپا تڑپ گئیں۔ روتے ہوئے فارس سے بولیں۔ ’’مَیں، بس ابھی پہنچتی ہوں۔‘‘ مگر فارس بولا۔ ’’نہیں امّی! میں بچّوں کو لے کر اُدھر ہی آ رہا ہوں، پھر سوچتے ہیں کیا کرنا ہے؟‘‘ بانو آپا جائے نماز پر بیٹھ گئیں۔ اللہ سے خوب گڑگڑا کر دعائیں مانگتی رہیں۔ جب فرح کو علم ہوا، تو اُس نے کہا کہ نوشین بھابی کو ڈس چارج کے بعد یہیں لے آتے ہیں۔ ہم لوگ مل کر دیکھ بھال کرلیں گے، لیکن بانو آپا کو یہ مناسب نہیں لگا۔ کیوں کہ اگلے ہی دن فرح کے میاں کی واپسی تھی۔

گھر آ کر بانو آپا نے رات دن ہر طرح نوشین کا خیال رکھا۔ کپڑے تبدیل کرنا، نہلانا، سُوپ، جوسز، کھانا، نمازیں پڑھ پڑھ کراُس پر دَم کرنا۔ ساتھ میں بچّوں کا بھی خیال رکھنا۔ دن بھر ماسی ساتھ ہوتی، مگر پھر بھی وہ رات میں تھک کر چُور ہو جاتیں۔ لیکن اگلی صبح خدمت کےلیے پھرتازہ دَم ہوتیں۔ نوشین اب بھی اُن سے زیادہ بات نہیں کرتی تھی۔ بس، موبائل لے کر لیٹی رہتی یا لیٹے لیٹے بچّوں کو کچھ پڑھا دیتی۔ چھےہ فتے بعد پلستر کُھلنے والا تھا۔

اُس روز بانو آپا نے ماسی اور بچّوں کو ساتھ لگا کر گھر کو خُوب صاف سُتھرا کیا، خصوصاً نوشین کا کمرا پھولوں اورغباروں سے سجایا۔ نوشین کی پسند کا اچھا سا کھانا بنایا۔ وہ بہت خوش تھیں کہ اُن کی بہو رانی صحت یاب ہو گئی ہے اور پُرامید بھی تھیں کہ اب اُس کا رویہ بھی بہتر ہو جائےگا۔ اِس خوشی میں اُنہوں نے فرح کو بھی بلا لیا تھا۔ وہ سب بہت بےتابی سے فارس اور نوشین کا انتظار کررہے تھے۔ بیل بجی، نوشین آہستہ آہستہ واکر کے ساتھ چلتی ہوئی اندر آئی۔ بانو آپا نے جھٹ اُسے گلے لگایا، صدقہ اُتارا۔ پھر فرح کی مدد سے کھانا لگانے لگیں۔ سب نے مل کر کھانا کھایا۔ 

بچّے بھی خُوش تھے کہ ماما ٹھیک ہوگئیں۔ اتنے دنوں کے بعد فارس بھی پُرسکون نظر آ رہا تھا۔ اتنے میں اچانک ہی نوشین نے فرح کو مخاطب کیا۔ ’’فرح باجی! الحمدُللہ، اب مَیں ٹھیک ہوں، اور اپنا گھر سنبھال سکتی ہوں۔ آپ دوبارہ اپنی پھوپھو کو اپنے گھر لے جا سکتی ہیں۔‘‘اور بانو آپا کے ہاتھ سے تحفے کا تھیلا گرگیا، جو انہوں نے نوشین کے صحت یاب ہونے کی خوشی میں بڑی چاہت سے پیک کیا تھا۔

ناقابلِ اشاعت کلام اور ان کےتخلیق کار

غزل (سیّد آفتاب حسین، کراچی) غزلیں (شگفتہ بانو ، لالہ زار، واہ کینٹ) الیکشن 2024ء (شیخ جلال الدین سعدی) نماز، نظم، ’’غریب‘‘ (عروج عبّاس) نعتیں (ارشاد گرامی، ٹوبہ ٹیک سنگھ) حمد، نظم (کوثر بنتِ اقبال، کراچی) ایک پاکستانی سیاست دان کی دُعا، کراچی کے لیے، مشورہ خانم (نام نہیں لکھا) حمدِ باری تعالیٰ (غازی غلام رسول طاہر، کراچی) نعت شریف (پروفیسر شفقت پاشا) ایم آر کے نام (چوہدری قمر جہاں علی پوری، ملتان) دفاع مضبوط پاکستان کا، دھرتی کی بیٹیاں، قائدِ اعظم کے پیغام پر عمل، نگراں حکومتیں غیر ضروری (شکیل بن قدیر، کراچی) اردو، رمضان (صبا احمد) نظمیں ’’پڑ گئے مجھ کو جان کے لالے‘‘، ’’سب سے چُھپا کے رکھتی تھی‘‘، ’’مجھ کو کہنے والے فاسق‘‘ (اقصیٰ)، تیرے لبوں پہ ہے میری تمنا (خالدہ علی، لاہور) عید نامہ، الوداع ماہِ رمضان (ذکی طارق بارہ بنکوی، سعادت گنج، بارہ بنکی، اترپردیش، بھارت)، مجاہد کہ نہیں آتی، کیوں اب بہادری (خالد تھری لپلو، عمر کوٹ، سندھ) نظم ’’دکھ درد کے ماروں کو آرام نہیں ملتا ‘‘(ایم آر شائق، راول پنڈی کینٹ) اِک استاد کا پیغام (آرزو، کراچی) ۔