اسلام آباد ہائی کورٹ نے تھانہ کھنہ کی حدود سے لاپتہ 4 بھائیوں کی عدم بازیابی کے کیس میں ایس ایس پی راولپنڈی اور اسلام آباد کو پیش رفت رپورٹ کے ساتھ طلب کر لیا۔
کیس کی عدالت میں سماعت چیف جسٹس عامر فاروق نے کی، جس کے دوران درخواست گزار لاپتہ شہریوں کی والدہ کی جانب سے مفید خان ایڈووکیٹ اور اسلام آباد و راولپنڈی پولیس کے حکّام پیش ہوئے۔
درخواست میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ چاروں بھائیوں کو راولپنڈی پولیس نے جنوری میں اٹھایا تھا۔
درخواست گزار کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ چاروں بھائیوں کو راولپنڈی پولیس نے اسلام آباد کے تھانہ کھنہ کی حدود سے اٹھایا اور اب پولیس حکّام کہتے ہیں کہ ہم نے نہیں اٹھایا۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ اب تک مغوی کیوں بازیاب نہیں ہوئے؟ دونوں ایس ایس پیز جمعرات کو آگاہ کریں۔
اُنہوں نے ہدایت کی کہ دونوں ایس ایس پیز پیش رفت رپورٹ کے ساتھ پیش ہوں ورنہ وارنٹِ گرفتاری جاری کر دیے جائیں گے۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے پولیس افسر سے استفسار کیا کہ ایس ایچ او کی کتنی تنخواہ ہوتی ہے؟
پولیس افسر نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ لاکھ روپے ہے۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے ایک اور سوال کیا کہ کیا ڈیڑھ لاکھ روپے میں ایف سکس اور ایف سیون میں گھر بن سکتا ہے؟
پولیس افسر نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ نہیں مائی لارڈ ناممکن ہے۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پھر وہاں گھر کیسے بن رہے ہیں؟ کیا فرشتے لا رہے ہیں پیسے؟ ایس ایس پی راولپنڈی کیوں نہیں آئے؟ وہ کہاں ہیں؟
پولیس افسر نے جواب دیا کہ وہ راستے میں ہیں، آ رہے ہیں، راستے بند ہیں۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کیا وہ ہمیشہ راستے میں ہی رہیں گے، اس ایس ایس پی کے وارنٹ گرفتاری جاری کر دوں؟ ان سے کہیں کہ آئندہ عدالت میں پیش ہوں، ایسا تاثر جا رہا ہے کہ جیسے پولیس ملی ہوئی ہے، بتائیں کہ مغوی کہاں ہیں؟
عدالت نے ایس ایس پی راولپنڈی اور اسلام آباد کو طلب کرتے ہوئے سماعت جمعرات تک ملتوی کر دی۔
عدالت نے وزارتِ داخلہ اور وزارتِ دفاع سے بھی مغویوں سے متعلق 10 اکتوبر کو رپورٹ طلب کر لی۔