پاکستان اور بنگلہ دیش مذہبی ،سیاسی اور سماجی رشتوں میں بندھے ہوئے ہیں۔1906ءمیں ڈھاکہ میںمسلم لیگ کا قیام عمل میں لایا گیا۔تحریک پاکستان کی قیادت کرنے والے تمام بڑے زعماء کا تعلق بنگال سے تھااور پاکستان کی تشکیل کے بعد پاکستان کی ترقی اور استحکام میں بھی بنگالی لیڈروں کا نمایاں کردار تھا۔لیکن ہماری اشرافیہ کی عاقبت نا اندیش پالیسیوں کی وجہ سے ایسے حالات پیدا ہوئے کہ ہمارے ازلی دشمن بھارت کو موقع مل گیا اور اس نے بنگالی نوجوانوں کے اندر پاکستان دشمنی کا ایک ایسا زہریلا بیج بو دیا جس کی فصل 1971ءمیں پوری قوم کو کاٹنا پڑی۔سانحہ سقوط ڈھاکہ کے بعد بنگلہ دیش ایک الگ مملکت کی صورت میں دنیا کے نقشے پر نمودار ہوا۔اس جنگ کے بعد خطے میں طاقت کا توازن بری طرح بگڑ گیا جسکے اثرات کئی سال تک ظاہر ہوتے رہے۔بنگلہ دیش کے وجود میں آنے کے بعد پاک بنگلہ دیش تعلقات اکثر کشیدگی سے دوچار رہے اور شیخ حسینہ واجد کے دونوں ادوار میں دونوں ممالک کے تعلقات 1971ءکی تاریخ کے گرد ہی گھومتے رہے۔یوں تعلقات کچھ اس نہج پر پہنچ گئے کہ 2007 کے بعد آج تک پاکستانی کاروباری طبقے کی ایک بھی براہ راست بیٹھک بنگلہ دیشی تاجروں کے ساتھ نہیں ہو سکی۔1971 ءکے بعد پاکستان کی سرکاری پالیسی یہ تھی کہ جو ملک بھی بنگلہ دیش کو تسلیم کرتا اس کے ساتھ پاکستان اپنی سفارتی تعلقات منقطع کر دیتا لیکن صرف دو برسوں کے اندر ہی حالات نے کچھ ایسا پلٹا کھایا کہ پاکستان اور بنگلہ دیش ایک دوسرے کو نہ صرف تسلیم کرنے پر مجبور ہوئے بلکہ باہمی تعاون کی بھی راہ ہموار ہوئی۔بدقسمتی سے پاکستان اور بنگلہ دیش کے مابین تعلقات مسلسل ایک خاص ڈگر پر نہ رہے خصوصی طور پر شیخ حسینہ واجد کے دور میں تو پاکستان مخالف بیانیہ پروان چڑھایا گیا ،پاکستان سے محبت رکھنے والے لوگ تختہ دار پر لٹکاے گئے، پاکستان کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا گیا اور وہی زبان بولی گئی جو بھارت چاہتا تھا۔لیکن شیخ حسینہ واجد کی حکومت کے 15 سالہ دور کے اختتام پر وقت نے اچانک کروٹ بدلی اور بنگلہ دیش جہاں پر پاکستان کا نام لینا جرم سمجھا جاتا تھا وہاں پر’’ پاکستان زندہ باد ‘‘کے نعرے لگائے گئے۔قائد اعظم محمد علی جناح کی برسی کی تقریب منائی گئی۔ وزیراعظم میاں شہباز شریف نیو یارک میں بنگلہ دیش کے چیف ایگزیکٹو جناب محمد یونس سے ملے تو انہوں نے بنگلہ دیش اور اقوام متحدہ کے تعلقات کے 50 سال مکمل ہونے پر منعقد ہونے والی تقریب میں بھی شرکت کی جس نے دونوں ملکوں کے مابین اعتماد سازی میں اہم کردار ادا کیا دونوں ممالک کے رہنماؤں نے معاشی اور تجارتی تعلقات کو بڑھانے کی خواہش کا بھی اظہار کیا۔ اس حوالے سے ایک بڑی پیشرفت دفاعی میدان میں دیکھنے کو ملی جب میڈیا پر یہ خبر منظر عام پر آئیں کہ بنگلہ دیش کی نگران حکومت پاکستان سے دفاعی ساز و سامان خریدنے میں دلچسپی رکھتی ہے۔خبروں کے مطابق بنگلہ دیش کی عبوری حکومت نے اپنی مسلح افواج کو جدید خطوط پر استوار کرنے اور انہیں جدید اسلحہ اور ٹیکنالوجی کی فراہمی کیلئےپاکستان کے دفاعی اداروں سے مدد لینے کا فیصلہ کیا ہے۔بنگلہ دیش حکومت پاکستان سے بڑی مقدار میں گولہ بارود خریدنے میں دلچسپی رکھتی ہے۔اسی طرح پاکستان میں تیار کیے گئے جدید ٹینک اور انکے استعمال کیلئے مطلوبہ اسلحہ بھی پاکستان سے خریدے گا۔پاکستان ساختہ ٹینک تیز رفتار اور تمام جدید سہولیات سے لیس ہیں۔ان ٹینکوں میں لگایا گیا نیویگیشن سسٹم جدید ترین ہے اور عالمی منڈیوں میںاس نے اپنی برتری ثابت کی ہے۔اسلحہ کی عالمی نمائشوں میں پاکستانی اداروں نے پروفیشنل انداز میں پوری دنیا کو اپنی طرف متوجہ کیا۔اس سے پہلے کئی ممالک پاکستانی ساختہ جے ایف تھنڈر کی خریداری کا ارادہ ظاہر کر چکے ہیں۔بنگلہ دیشی حکومت نے اپنی مسلح افواج کا انحصار بھارت کے بجائے پاکستان پر رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ساوتھ ایشیا کی علاقائی سیاست میں یہ اتنا بڑا قدم ہے جس نے بھارت سمیت دنیا کے کئی ممالک کو حیران کر دیا ہے۔پاکستان سے جدید ہتھیار خریدنے کے اس پروگرام نے بھارت سمیت تمام ہمسایہ ممالک کو یہ پیغام دیا ہے کہ اب ڈھاکہ اپنے عزائم کے مطابق اپنی فوج کو جدید اسلحہ سے لیس کرے گا۔یہ دفاعی تعاون مستقبل میں مشترکہ تربیتی مشقوں،مشترکہ تربیتی پروگراموں کی طرف بھی بڑھ سکتا ہے۔ بنگال کی نئی حکومت نے واضح طور پالیسی میں تبدیلی کے اشارے دیے ہیں۔بھارت نے جس طرح ڈھاکہ پاکستان دشمنی کی انویسٹمنٹ کی تھی وہ بار آور ثابت نہیں ہو سکی۔یوں لگتا ہے جیسے دو ناراض بھائیوں کے ملنے کا وقت آن پہنچا ہے۔خیر سگالی کے جن جذبات اظہار گزشتہ چند ہفتوں سے دیکھنے کو مل رہا ہے اس میں اضافہ ہوگا۔نیویارک ملاقات کے دوران دونوں سربراہان نے ایک دوسرے کو دورے کی دعوت دی ہے۔توقع کی جاری ہے کہ اس سال میں ہی وزیراعظم پاکستان،بنگلہ دیش کا دورہ کریں گے۔اب دفتر خارجہ میں بیٹھے ہوئے بابوئوں پر منحصر ہے کہ وہ ان مواقع سے کتنا فائدہ اٹھاتے ہیں۔وزیر اعظم کے وفد میں سیاست دانوں کے ساتھ ساتھ تاجروں کو بھی شامل کیا جائے۔حکومت پاکستان نے بنگلہ دیش کیلئے ویزہ فیس ختم کرنے کا عندیہ دیا ہے جو خوش آئند ہے لیکن سفر ابھی باقی ہے۔پچاس سال کی تلخیاں ختم کرنے کا یہ سنہری موقع ملا ہے اس سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے تجارت کے توازن کو بہتر کیا جائے،گھریلو صنعتوں کی ترقی کیلئے بنگلہ دیش کے تجربات سے استفادہ کیا جائے۔