• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بانی پی ٹی آئی کو مشورے دینے والے ہرگز انکے ساتھ مخلص نظر نہیں آتے۔ ابھی تک نہ ان کا منصوبہ کارآمد ہوسکا ہے نہ کوئی خواہش پوری ہوسکی۔ لگتاہےوہ مکمل مایوسی اور شدید اضطرابی کیفیت سے دوچار ہیں۔ اب تو پارٹی رہنما بھی ان کی منفی ہدایات پر اُس طرح من وعن عمل نہیں کرتے جیسا کہ بانی چاہتے ہیں۔ اس وقت تک بانی کا آخری آسرا علی امین گنڈا پورتھے لیکن گزشتہ روز مسلسل تیسری بار گنڈا پور نے ایسا چکر چلایا کہ سب کو حیران کردیا۔ کچھ احباب کا کہنا ہے کہ علی امین دونوں طرف کھیلتے ہیں لیکن ایسا لگتانہیں۔ بلکہ محسوس یہ ہوتا ہے کہ وہ وکٹ کے ایک ہی طرف کھیلتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق پارٹی میں اختلافات توکافی وقت سے ہیں۔ پارٹی میں کئی گروپ طاقتور اور بعض کمزور ہیں لیکن بہرحال پارٹی کی تقسیم کا باعث توہیں۔ کچھ وقت پہلے بانی نے سابق صدر عارف علوی کو خصوصی ذمہ داری بھی سونپی تھی کہ وہ پارٹی میں موجود اختلافات اور گروپ بندی کو ختم کریں۔ سابق صدر اس ذمہ داری کو اعزاز سمجھتے ہوئے فوراً سرگرم ہوئے اور کے پی کا دورہ کیا ،وہاں لوگوں سے ملاقاتیں بھی کیں۔ ناراض اراکین شکیل خان وغیرہ کو کچھ تسلی بھی دی لیکن ان کا یہ مشن کامیاب نہ ہوسکا اور وہ واپس کراچی چلے گئے۔ذرائع کے مطابق وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور کے مخالفین میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ان کا خیال ہے کہ علی امین بانی اور پارٹی دونوں کے ساتھ کھیل کھیلتے ہیں۔ ان کے جذباتی بیانات محض بڑھکیں ہیں۔ اگر وہ بانی کے ساتھ مخلص ہوتے تو وہ ان کو بہتر مشورے دیتے۔ بانی کو زمینی حقائق سے آگاہ کرتے لیکن ایک طرف نہ جانے کون ہے جس نے اپنے مشوروں کی وجہ سے بانی کو اس حال تک پہنچایا ہی نہیں بلکہ اس دلدل میں مزید آگے کی طرف دھکے دیتا ہے تو دوسری طرف وزیر اعلیٰ کے پی کے علی امین گنڈا پور ان ہی غلط مشوروں کی حمایت کرکے بانی کو یقین دلاتے ہیں کہ جلد معاملات ٹھیک ہوجائیں گے۔ ڈی چوک اسلام آباد پہنچ کر احتجاج کرنے کا مشورہ جس کا بھی تھا بلاشبہ اس نے بانی کے ساتھ دشمنی کی۔ علی امین نے حسب روایت نہ وقت پر اسلام آباد پہنچنا تھا نہ ڈی چوک جانا تھا۔ البتہ اگر اس ڈرامے میں دوچار لوگ جان سے جاتے تو پھر حکومت اور اداروں کو موردِ الزام ٹھہرانا آسان ہوتا۔ لیکن یہاں تو سب کچھ الٹا ہوگیا۔ بلوائیوں میں سے تو کسی کو خراش تک نہ آئی البتہ اسلام آباد پولیس کا بہادر اہلکار جو فسادیوں کے سامنے دیوار بن کر کھڑا رہا وہ ان بلوائیوں کے ہاتھوں شہید ہوگیا۔ اس میں کوئی شک وشبہ یا جواز نہیں کہ اس فساد کو برپا کرنے کا حکم دینے والے اور ان دہشت گرد بلوائیوں کو اکٹھا کرکے لانےوالے ہی اس قتل کے ذمہ دار ہیں۔ ان کے خلاف مقدمہ درج کرکے انہیںفوری طور پر گرفتار کیا جائے اور قرار واقعی سزادی جائے۔ شہید کے لواحقین ریاست سے فوری انصاف کے منتظر ہیں۔ہم پہلے بھی متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ اگر9مئی کی شرمناک دہشت گردی میں ملوث فسادیوں، شرپسندوں، ملک دشمنوں، ان کے منصوبہ ساز و ہدایت کاروں کو فوری اور عبرتناک سزائیں دی گئی ہوتیں تو پھر کسی کو ایسی جرات نہ ہوتی لیکن مصلحت کا کیا کیا جائے کہ ریاستی معاملات اور ملک دشمنوں کے خلاف کارروائی کرنا اور ان کو کیفر کردار تک پہنچانا بھی طویل عمل بن گیا ہے۔ اب فیصلہ عوام کرے کہ طاقتور کون ہے۔ گزشتہ روز کے ڈرامہ ڈی چوک کو اگر بغور دیکھا جائے توپی ٹی آئی کے احتجاج کا وقت اور ڈی چوک اسلام آباد کا مقام بہت معنی خیز ہے۔ جس وقت شنگھائی تعاون تنظیم کے اہم اجلاس میں شرکت کےلیے مختلف ممالک سے معزز مہمان اسلام آباد آرہے ہیں اس موقع پر انتشاری احتجاج اور بلوے کی کال دینا ملک دشمنی نہیں تو کیا ہے۔ سب کو معلوم ہے کہ اس اجلاس کی پاکستان کے لیے کیا اہمیت ہے اس لئے اس موقع پر شرانگیزی کرنے کا مقصد نہ صرف پاکستان کو بدنام کرناتھا بلکہ اجلاس میں شامل ہونے والے معزز مہمانوں کو بدظن کرکے بد اعتمادی پیدا کرنابھی تھا۔

تحریک انصاف کے احتجاج میں افغان شہریوں کی شمولیت کا کیا مطلب ہے؟ ہتھیاروں کی موجودگی، پولیس اہلکاروں پر پتھراؤ، سرکاری آنسو گیس کے شیل اور سادہ لباس میں کے پی کے پولیس اہلکاروں کی موجودگی وفاقی دارالحکومت پر دھاوا بولنا نہیں تھا تو اور کیا تھا۔ بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر کو پی ٹی آئی کارکنوں اور رہنماؤں سے خطاب کی دعوت دینا ریاست کے خلاف کوشش نہیں تو اور کیا ہے۔ پنجاب کے پی ٹی آئی رہنما بڑے ہوشیار اور سمجھدار نکلے۔ انہوں نے بانی کی سالگرہ منانے اور احتجاج کے لئے کارکنان کو مینار پاکستان پہنچنے کی ہدایات توجاری کردیں لیکن خود منظر سے مکمل غائب رہے اس لئے چند درجن کے علاوہ کوئی بھی نہ نکلا۔پنجاب اسمبلی میں پی ٹی آئی کے اپوزیشن لیڈر نے تو موٹر سائیکل پر بیٹھ کر بھاگ کرجان چھڑائی۔ ادھر ڈی چوک اسلام آباد میں بانی کی بہنوں نے بھی علی امین گنڈا پور والے فارمولے پر عمل کرتے ہوئے پلانٹڈ گرفتاری دیدی۔ لیکن علی امین نے تو گرفتاری بھی نہ دی کیونکہ ان پر شہد کی بوتل یا کسی اور درج مقدمہ میں اسلام آباد کی عدالت نے ناقابل ضمانت کے وارنٹ جاری کردئیے ہیں۔ اس تمام ناکام ڈرامے میں اگر دیکھا جائے تو پی ٹی آئی اور بانی کا سارا دارومدار وزیر اعلیٰ کے پی کے علی امین پرتھا۔ پی ٹی آئی کے وہ ’’رہنما‘‘ جو اڈیالہ جیل یا عدالتوں کے باہر میڈیا کے سامنے زوروشور سے خطابت کے ذریعے بانی کورہا کرواتے ہیں کسی بھی احتجاجی معرکے میں نظر نہیں آتے۔ شاید سب کو بانی اور پارٹی کا مستقبل معلوم ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ بس بہت ہوگئی اب کئی گرفتاریاں ہونگی، انہیں کیفر کردار تک بھی پہنچایا جائے گا اور کچھ اہم اقدامات وفیصلے بھی ہونیوالے ہیں۔

تازہ ترین