گزشتہ ایک سال سے جاری اسرائیل کے وحشیانہ فضائی اور زمینی حملوں کے خلاف مظلوم فلسطینی مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کیلئے ایوان صدر اسلام آباد میں پیر کو منعقد ہونے والی کل جماعتی کانفرنس کے اعلامیہ میں فلسطینیوں کے حق خود ارادیت کی غیر مشروط حمایت آزاد فلسطینی ریاست کے قیام ٗ جس کا دارالحکومت القدس ہو ٗغزہ میں فوری جنگ بندی اور کئ عشروں پر محیط اس سلگتے ہوئے مسئلے کو اقوام متحدہ اور اسلامی تعاون تنظیم کی قرار دادوں کے مطابق حل کرنے کا مطالبہ اسلامیان پاکستان کے حقیقی جذبات ٗ خواہشات اور انصاف کے تقاضوں کی عکاسی کرتا ہے۔ کانفرنس میں تحریک انصاف کے سوا تمام سیاسی پارٹیوں کے قائدین نے شرکت کی اور اپنے خطاب میں اسرائیل کو خطے میں امن و سلامتی تباہ کرنے ٗ اقوام متحدہ کے قوانین کی دھجیاں اڑانے ٗ لبنان میں جارحیت کے ارتکاب ٗ تہران اور بیروت میں حماس اور حزب اللہ کے سربراہوں کو شہید کرنے ٗ پچاس ہزار سے زائد بے گناہ شہریوں کی جانیں لینے اور ہنستے بستے شہروں کو کھنڈرات میں تبدیل کرنے کا ذمہ دار قرار دیا اور عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ صہیونی ریاست کو جوفلسطینیوں کے وطن پر غیر قانونی طور پر مسلط کی گئی ٗ بہیمانہ مظالم سے روکے۔ اعلامیہ میں امت مسلمہ کے اتحاد پر زور دیتے ہوئے اسلامی تنظیم او آئی سی کی ہنگامی سربراہ کانفرنس بلانے کا بھی مطالبہ کیا گیا جو اسرائیلی جارحیت روکنے کیلئے عملی اقدامات کرے۔ اس حقیقت کو اجاگر کرتے ہوئے کہ اسرائیلی طیارے پرامن شہریوں ٗ عبادت گاہوں ٗ سکولوں ٗ ہسپتالوں ٗ پناہ گزینوں کے قافلوں اور ان کے کیمپوں حتیٰ کہ امدادی کیمپوں پر بھی اندھا دھند بمباری کررہے ہیں جس سے عورتوں مردوں اور بچوں سمیت اور امدادی کارکن لقمہ اجل بن رہے ہیں ۔ استعماری طاقتوں سے کہا گیا کہ وہ نہتے فلسطینیوں کی نسل کشی کیلئے اسرائیل کو اسلحہ ٗ ایمونیشن اور مالی امداد کی فراہمی بند کریں ۔ کل جماعتی کانفرنس سے صدر زرداری ٗ وزیراعظم شہباز شریف ٗ میاں نواز شریف ٗ بلاول بھٹو ٗ مولانا فضل الرحمن ٗ حافظ نعیم الرحمن ٗ خالد مقبول صدیقی ٗ ایملی ولی ٗ اور دوسرے قائدین نے خطاب کیا اور اس بات پر زور دیا کہ فلسطینیوں کی نسل کشی پر اسرائیلی مظالم کی محض مذمت کافی نہیں۔ وقت آگیا ہے کہ ظلم کو روکنے کیلئے طاقت کے استعمال سمیت عملی اقدامات اٹھائے جائیں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے اعلان کیا کہ فلسطینیوں کی مددکیلئے ایک ورکنگ گروپ اہم اسلامی ممالک بھیجا جائے گا۔ کانفرنس میں پاکستان میں حماس کا دفتر کھولنے اور یونیورسٹیوں میں فلسطینی طلبا کے داخلے کا مطالبہ بھی کیا گیا۔ پاکستان ٗ سعودی عرب ٗ ترکی ٗ مصر ٗ انڈونیشیا ٗ اور ملائشیا پر مشتمل اہم اسلامی ممالک کا گروپ بنانے کی تجویز بھی پیش کی گئی جو دفاعی حکمت عملی تیار کرے۔ اسرائیل کے طرفدار ممالک سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ صہیونی حکومت کو تیل کی سپلائی بند کریں اور تجارتی تعلقات منقطع کریں کل جماعتی کانفرنس میں تحریک انصاف نے شرکت نہیں کی جو ملک کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی ہونے کا دعویٰ کرتی ہے۔ بہتر ہوتا کہ اس کے لیڈر کانفرنس میں آتےاور اپنا موقف بیان کرتے۔ اس کے بائیکاٹ سے پارٹی کو فائدے کے بجائے نقصان ہو۔جمعیت علمائے اسلام اور جماعت اسلامی اس منفی طرز عمل کے باعث پہلے ہی اس کا ساتھ دینے سے انکار کرچکی ہیں۔ کل جماعتی کانفرنس کے اعلامیہ سے عالمی سطح پر پاکستان کے عوام اور سیاسی قیادت کی سوچ واضح ہوئی ہے اس سے جہاں ستم رسیدہ فلسطینی عوام کی دلجوئی ہوگی کہ وہ اپنا بقا کی جنگ میں تنہا نہیں ہے وہاں اسرائیل کی سرپرست سامراجی قوتوں کو بھی پیغام ملے گا کہ دنیا کی واحد اسلامی ایٹمی مملکت ایک ایسے مسئلے پر کتنا واضح موقف رکھتی ہے جس میں پوری دنیا کے امن کو خطرے سے دوچار کررکھا ہے ۔