یہ چوبیس ستمبر کا ذکر ہے کہ اسلام آباد میں صوفی تعلیمات کی پرچارک تنظیم سچ کے زیر اہتمام کانفرنس میں کچھ سفرائے کرام مدعو تھے ۔ اسی روز کچھ دیگر سفارت کاروں سے بھی ملاقاتیں رہی تھیں ۔ ایس سی او کانفرنس کے انعقاد سے قبل کے امور میں انڈین وزیر خارجہ کی آمد کے امکانات زیر بحث تھے کہ ایک سفارت کار نے دعویٰ کیا کہ جے شنکر ایس سی او میں شرکت کی غرض سے نہیں آ رہے ۔ میں نے ان کے دعوے کی نفی کردی اور کہا کہ جے شنکر کے ایس سی او اجلاس میں شرکت کیلئے دہلی فیصلہ کرچکا ہے ، وہ بضد رہے کہ میرے پاس فرسٹ ہینڈ اطلاع ہے کہ وہ نہیں آ رہے ۔ ہم دونوں کی شرط لگ گئی اور اب ان کو فون کیا تو حیرت کے انداز میں کہنے لگے کہ میرے پاس بہت مستند معلومات تھیں مگر آپ نے غلط ثابت کر دیا میں ہنسنے لگا اور کہا کہ بس شرط یاد رکھئے گا۔
اس حقیقت کو ہمیں پیش نظر رکھنا چاہئے کہ انڈین وزیر خارجہ کا یہ دورہ کوئی دو طرفہ دورہ نہیں ہے اور ہمیں اس سے کوئی پاک بھارت تعلقات میں بہتری کی امید قائم نہیں کرنی چاہئے ۔ بس دونوں ممالک کو اس امر کا خیال رکھنا چاہئے کہ اس دوران کوئی بدمزگی نہ پیدا ہو جیسے کہ راجناتھ سنگھ کے حوالے سے ہو گئی تھی ۔ انڈین سفارت خانہ ان کی آمد کے اعلان سے قبل ہی اس دورے کے حوالے سے تیاریوں میں مصروف ہو گیا تھا ۔ چین نے بھی اس حوالے سے بہت مثبت اور بھرپور کردار ادا کیا ۔ چین نے اس حوالے سے بہت زبر دست ہوم ورک بھی کیا ہوا ہے اور وہ اس کی بجاطور پر توقع بھی کر رہے ہیں کہ پاکستان نے بھی تیاریاں کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی ہو گی ۔ کچھ روز قبل بیجنگ سے ایک چینی دوست نے رابطہ کیا اور پاکستان کی تیاریوں پر استفسار کرتے ہوئے کہنے لگا کہ کہیں ایسا تو نہیں ہوگا کہ جیسے وزیر اعظم پاکستان کے دورہ چین کے بعد پاکستانی اخبارات میں بیجنگ میں متعین پاکستانی سفیر کے حوالے سے منفی خبریں شائع ہوئیں اور تاثر گیا کہ پاکستان کا ہوم ورک مکمل نہیں تھا۔ پاکستان میں ہوم ورک کے حوالے سے اب بھی تاثر یہی قائم ہو رہا ہے کہ یہ مکمل نہیں ہے اور اس تاثر کو رفع صرف ایس سی او کانفرنس میں کارکردگی پیش کرنے سے ہی کیا جا سکتا ہے اس لئے اس پر ہر جہت سے تیاریاں فوری طور پر مکمل کرلینی چاہئیں ۔ ایک سوال پاکستان میں سیاسی استحکام اور سیکورٹی کے حوالے سے بھی تھا ۔ پی ٹی آئی کے حالیہ اقدامات سے یہ پیغام ملا ہے کہ ایک صوبائی حکومت ہی دارالحکومت پر دھاوا بول رہی ہے تو باقی کیا بچتا ہے مگر دنیا میں ایک دوسری سوچ بھی پنپ رہی ہے کہ پاکستان میں تو سیاسی بے سکونی ایک مستقل مسئلہ بن چکا ہے اب اس کی بنا پر تو پاکستان کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے اس لئے اسی صورت حال میں پاکستان سے معاملات طے کرنا ہونگے ۔ جہاں تک عمومی سیکورٹی کی صورت حال ہے تو وہ اطمینان بخش ہی بیان کی گئی مگر کراچی میں چینی باشندوں پر بی ایل اے نے حملہ کر دیا ۔ اس پر بھی مزید اقدامات کی ضرورت ہے ۔ ایس سی او کو پاکستان کی برکس تنظیم میں شمولیت کے حوالے سے بھی دیکھا جا رہا ہے کہ اگلا قدم یہ ہوگا۔ چین اور روس کی خواہش ہے کہ پاکستان اس کا رکن بنے کیونکہ صدر پیوٹن کے ذہن میں موجود ممبئی سے ماسکو تک کوریڈور ہے اور یہ پاکستان کے بغیر ممکن نہیں۔ حالانکہ انڈیا ساؤتھ افریقہ اور برازیل کے ساتھ مل کر خوب زور لگا رہا ہے کہ پاکستان برکس میں شامل نہ ہو مگر پاکستان کے وزیر دفاع کی جو اقوام متحدہ کے اجلاس کے دوران چین ، روس اور ایران کے وزرائے خارجہ سے ملاقاتیں ہوئی ہیں وہ اپنے اندر بہت سے معنی رکھتی ہے ۔
دنیا اور بالخصوص عالم اسلام ایک دوسری تکليف دہ صورت حال کا ایک برس سے سامنا کر رہے ہیں کہ غزہ میں قبرستان کیلئے جگہ کم پڑنے لگی ہے مگر اسرائیلی جارحیت ہے کہ اس کو لگام ڈالنا ممکن ہی نہیں ہو رہا ہے ۔ ابھی کچھ عرصہ قبل پاکستان میں حماس کے نمائندے مجھ سے ملاقات کرنے کیلئے تشریف لائے تھے تو ان کے سامنے بھی یہ سوال رکھا تھا اور عرب صحافیوں سے بھی اس دوران جو گفتگو رہی اس میں بھی یہ سوال پیش نظر رہا کہ حماس کو طوفان الاقصیٰ کرنے کی ضرورت کیوں پیش آگئی تھی ۔ فلسطينیوں میں یہ خیال ہر خیال کو مغلوب کر رہا تھا کہ جس طرح سے عرب دنیا میں اسرائیل کو تسلیم کیا جا رہا ہے اسکے منطقی نتائج یہ ہونگے کہ مسئلہ فلسطين بس کتابوں میں ہی رہ جائیگا اور ان ممالک کی تقلید میں دیگر مسلمان ممالک بھی اسرائیل کو تسلیم کر لیں گے ۔ ایک عرب صحافی نے کہا کہ جب پاکستان کی پارلیمنٹ میں ایک خاتون رکن نے اسرائیل کے حق میں تقریر کی تھی تو یہ بس ہم ہی جانتے ہیں کہ ہمارے دل پر کیا قیامت گزری تھی ۔ اس لئے ہمارے لئے اپنے آپ کو زندہ رکھنے کیلئے اور کوئی راستہ نہ تو مغرب نے چھوڑا تھا اور مسلمان بھی ڈھیر ہو رہے تھےپھر ہم نہتے ہی ٹوٹ پڑے اور آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ہماری بات سچ ثابت ہوئی ، اسرائیل کونہ تو کوئی دوسری طاقت روک سکی اور نہ ہی کسی نام نہاد عالمی اخلاقیات کا اس پر کوئی اثر ہوا ، فلسطينی تو اپنے لہو سے اسرائیل کے آگے دیوار کھینچ رہے ہیں مگر کیا دنیا اسرائیل کو کسی تصفیہ پر لا سکے گی تو اس کا جواب نفی میں ہے۔