اس میں کوئی دورائے نہیں ہیں کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک ادیان کے مطالعے کے ماہر ہیں۔ لیکن کوئی دونکتے سمجھا دے کہ کیا ڈاکٹر نائیک مبلغ اسلام ہیں۔ دوسرا یہ کہ کیا وہ اسلامی اسکالر ہیں؟ اگر ان دونوں باتوں کو مان بھی لیا جائے تو پھر ادیان کے تقابل کے ماہر کیسے ہیں۔ میرا ان سے نہ کوئی تعلق ہے نہ میں ان کا کسی بھی وجہ سے مخالف ہوں۔ میں نے ان کے دوسرے ممالک میں خطابت کی ویڈیوز کے علاوہ پاکستان تشریف آوری کے بعد یہاں بھی چند مخصوص مقامات میں تقاریر سنی ہیں۔ میں نے ان کے بارے میں جو دونکات اٹھائے ان کی بنیادی وجہ بھی ان ہی کے خطابات ہیں۔ اگر ان سے کراچی گورنر ہاؤس میں کسی ہندو پنڈت نے سوال کیا تو انہوں نے گیتا، توریت، اور قرآن کریم سے ثابت کیا کہ ان سب کتابوں میں اللہ کریم کی عظمت ووحدانیت کایکساں ذکر موجود ہے۔ کیا ان کا یہ جواب کسی ہندو کو متاثر وراغب اسلام کرنے کو کافی ہے۔ لیکن وہ خود فرماتے ہیں کہ وہ ان تمام کتب بشمول بائبل اور گرنت صاحب کا گہرا مطالعہ کرنے کا اعزاز رکھتے ہوئے تقابل ادیان کے ماہر ہیں۔ اسی محفل میں ایک بچی نے مرد کو چار شادیوں کی اجازت کے بارے میں سوال کیا توجناب ڈاکٹر صاحب نے حسب روایت مختلف حوالے دینے کے بعد امریکہ میں عورتوں کی تعداد گننی شروع کردی اور فرمایا کہ کسی مذہبی کتاب میں شادیوں کی تعداد مقرر نہیں ہے یہ تو دنیاوی قوانین حکومتوں نے خود رائج کررکھے ہیں اور ساتھ ہی کہا کہ قرآن نے وضاحت کرکے چار شادیوں کی ایک ہی مرد کو اجازت دے رکھی ہے اس موقع پر انہوں نے چند مثالیں بھی دیں جن کا یہاں ذکر مناسب نہیں ہے۔ تاثرات سے ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ بچی ان کے جواب سے بالکل مطمئن نہیں ہوئی تھی۔
یہ بالکل سمجھ نہیں آرہی کہ حکومت پاکستان نے ڈاکٹر ذاکر نائیک کو کیوں دورے اور خطابت کی دعوت ایسے موقع پر دی جبکہ فلسطین جل رہا ہے۔ شیطانی صہیونی حکومت نے غزہ اور خان یونس ودیگر علاقوں کے ساتھ ساتھ لبنان میں مسلمانوں کا قتل عام شروع کررکھا ہے۔ کیا ڈاکٹر ذاکر نائیک کے ادیان کی تقابلی تقاریر سے ان غریب نہتے اور بے کس مسلمانوں کی کوئی مدد ہوسکی۔کیا اس بارے میں ان کے ایک دوجملوں کا ذرہ بھر بھی فائدہ ہوا۔ جذبہ مسلمانی کا تقاضاتوتھا کہ وہ پاکستان سمیت تمام مسلم ممالک کے دورے کرکے اس اہم ترین موقع کے حوالے سے کم ازکم وہاں کے حکمرانوں کو قرآن کریم اور احادیث مقدسہ کے احکامات کے مطابق قائل کرتے اوران کو اکھٹا کرکے صحیح معنوں میں اسرائیل اور اس کے مددگاروں کے خلاف متحد ہوکر ٹھوس اور عملی اقدامات اٹھانے پر آمادہ کرتے۔ لیکن کیاکیا جائے کہ وہ مبلغ کے بجائے ایک اسکالر ہیں۔ اور وہ بھی صرف اسلامی نہیں بلکہ مختلف ادیان کے اسکالر ہیں۔ پتہ نہیں پاکستانی کیوں ان کو اسلامی مبلغ اور اسلامی اسکالر کہہ کر محدود کررہے ہیں۔
اگر دیکھا جائے تو ڈاکٹر نائیک کی مرضی کے جوابات سے پاکستانیوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔کیا پاکستان بننے کا خواب کسی ڈاکٹر نائیک نے دیکھا تھا۔ دنیا بھر کے مسلمانوں کو اکھٹا کرنے اور اکھٹا رہنے کے لئے ڈاکٹر محمد اقبال علیہ رحمۃ کے خطابت کا کوئی ثانی ہے۔ اسرائیل کو ناجائز بچہ کہہ کر اور کبھی بھی تسلیم نہ کرنے کے بابائے قوم کے الفاظ کا پھر کوئی ثانی پیدا ہوا۔ پاکستان جو آجکل معاشی مشکلات کی وجہ سے مصلحت کوشی اور دیگر اسلامی ممالک اپنے دنیاوی مفادات کی وجہ سے مجرمانہ خاموشی اختیار کرتے ہوئے صرف مذمتی بیانات کے بموں سے بھرے جہاز غزہ اور لبنان کے مظلوموں کے لئے روزانہ بھیجتے ہیں ان کو روزحشر کا یقین نہیں ہے۔کیا قرآن کریم کے مظلوم مسلمانوں کی فوری مدد کے بارے میں احکامات الٰہی اور احادیث مبارکہ کی ہدایات یاد نہیں ہیں۔ پاکستان کو معلوم ہونا چاہئے کہ قائد اعظم نے اسرائیل کے بارے میں جو فرمایا تھا وہ معاشی طور پر پاکستان کے لئے مشکل ترین دور تھا۔ لیکن انہوں نے امریکہ اور دیگر یورپی ممالک کی ناراضی کی پروا نہ کرتے ہوئے وہ الفاظ کہے جس کی آج کسی میں جرات ہی نہیں ہے۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک چونکہ پاکستان کے سرکاری مہمان ہیں ان کا احترام اور عزت ہم پر لازم ہے۔ لیکن ان سے بڑے بڑے نامور محقق اسلام پاکستان میں تھے اور اب بھی موجود ہیں۔ افریقہ میں لاکھوں لوگوں کو مولانا شاہ احمد نورانی علیہ رحمہ نے تبلیغ اسلام کی بدولت دائرہ اسلام میں داخل کیا تھا۔ مولانا ابوالاعلیٰ مودودی علیہ رحمہ نے تقاریر اور تصانیف کے ذریعے اسلام اور مسلمانوں کی رہنمائی کے لئے راستے میں جو چراغ جلائے تھے وہ آج بھی روشن ہیں۔ مولانا مفتی محمود علیہ رحمہ اور مولانا سمیع الحق علیہ رحمہ نے مدارس دین کے ذریعے اسلام کی خدمت کی اور آج بھی جاری ہے۔ اگر کوئی علم دین کے حصول کے بعد بھی گمراہ ہوجائے تو دین کا علم سکھانے اور سمجھانے والے کا کیا قصور ہے۔ پاکستان میں تبلیغ اسلام کے لئے ایک مرکز رائیونڈ اور ایک کراچی میں سرگرم عمل ہیں۔ جہاں مذہبی اجتماعات اور اندرون وبیرون ملک تبلیغی دوروں میں شرکت پاکستانی مسلمان اپنے لئے باعث نجات اور شرف سمجھتے ہیں اور لاکھوں مسلمان ذاتی خرچ پر ان میں شرکت کرنا باعث ثواب مانتے ہیں۔ بلاشبہ تبلیغی مرکز رائیونڈ اور مدنی مرکز کراچی شب وروز ملک کے ہر کونے اور بیرون ملک تبلیغ اسلام کے ساتھ ساتھ عوامی خدمات اور مدد میں مصروف رہتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب! مسلمانوں کو قرآن سمجھانے کی ضرورت ہے متروکہ ادیان پر بحث مسلمانوں کو کنفیوژ اور ان کا وقت ضائع کرنے کے مترادف ہے۔ علامہ طالب جوہری علیہ رحمہ بھی قرآن کے بڑے اسکالر تھے۔