• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ادارہ شماریات کے مطابق رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی کے دوران درآمدات میں تقریبا 14 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ برآمدات میں اضافے کی بڑی وجہ ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں استحکام اور برآمدی آرڈرز میں اضافے کو قرار دیا جا رہا ہے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ برآمدات میں اضافے کا یہ سلسلہ جولائی کے مہینے سے جاری ہے۔ ادارہ شماریات کی رپورٹس کے مطابق جولائی کے دوران برآمدات میں 11.83 فیصد، اگست میں 16 فیصد اور ستمبر میں 13.52 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اس حوالے سے اہم بات یہ ہے کہ گزشتہ چند ماہ کے دوران ٹیکسٹائل کے عالمی گاہکوں کی طرف سے بنگلہ دیش اور چین کی بجائے پاکستان کو ملنے والے برآمدی آرڈرز میں اضافہ ہوا ہے جس سے نہ صرف اس سیکٹر کی بحالی کی امید پیدا ہوئی ہے بلکہ بند ہونے والی ٹیکسٹائل ملز کے دوبارہ فعال ہونے کے امکانات بھی بڑھ گئے ہیں۔

عالمی سطح پر پاکستان کی ٹیکسٹائل مصنوعات کی مانگ بڑھنے کا بنیادی سبب امریکہ اور یورپ میں کرسمس سیزن کی آمد ہے۔ علاوہ ازیں بنگلہ دیش میں سیاسی عدم استحکام اور چین کے حوالے سے امریکہ اور یورپ کی خارجہ پالیسی میں تبدیلی کی وجہ سے بھی پاکستان کو ملنے والے برآمدی آرڈرز میں تیزی دیکھی گئی ہے۔ ان حالات سے فائدہ اٹھانے کے لئے ٹیکسٹائل انڈسٹری کو حکومت کے فوری تعاون کی اشد ضرورت ہے کیونکہ اس وقت ٹیکسٹائل انڈسٹری کو ایک طرف انرجی ٹیرف میں اضافے کی وجہ سے پیداواری لاگت بڑھنے کے باعث مسائل کا سامنا ہے اور دوسری طرف ریفنڈز کی ادائیگی میں تاخیر اور ٹیکسز کی شرح میں اضافے کے سبب برآمد کنندگان کو سرمائے کی شدید قلت کا سامنا ہے۔

رواں مالی سال کے وفاقی بجٹ میں برآمد کنندگان پر ڈبل انکم ٹیکس کی پیشگی ادائیگی کے نفاذ اور مقامی خریداری پر ایکسپورٹ فیسیلی ٹیشن اسکیم کے خاتمے سے بھی برآمد کنندگان پر مالی دبائو میں اضافہ ہوا ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ تادم تحریر حکومت کی طرف سے برآمد کنندگان کے سیلز ٹیکس ریفنڈز کی مد میں تقریباً 55 ارب روپے واجب الادا ہیں اور ہر گزرتے دن کے ساتھ اس رقم میں اضافہ ہو رہا ہے۔ دوسری طرف افسوسناک امر یہ ہے کہ برآمد کنندگان کو ریفنڈز کی ادائیگی کی مدت 72 گھنٹے سے بڑھ کر 200 دن سے تجاوز کر گئی ہے۔ اسی طرح ڈیوٹی ڈرا بیک ریفنڈز میں تقریباً 25 ارب روپے 15 اگست سے زیر التوا ہیں جبکہ ڈی ایل ٹی ایل اور ڈی ڈی ٹی اسکیم کے تحت 38 ارب روپے میں سے صرف ڈھائی ارب روپے ہی ادا کیے گئے ہیں۔

ان حالات میں اگر حکومت برآمدات میں اضافے کا تسلسل برقرار رکھنا چاہتی ہے تو اسے چاہیے کہ ریفنڈز کی ادائیگی بہتر بنائے اور یہ بات یقینی بنائی جائے کہ ریفنڈ فائل ہونے کے 72 گھنٹے میں اس کی ادائیگی لازمی ہو۔ اس سے جہاں انڈسٹری کو درپیش سرمائے کی قلت ختم ہو گی وہیں انڈسٹری اور حکومت کے مابین ورکنگ ریلیشن شپ بہتر ہو گی۔ علاوہ ازیں دسمبر 2022تک کے ریفنڈز کی ادائیگی کے لیے حالیہ بجٹ میں مختص 10 ارب روپے کی رقم کو بھی مزید بڑھانے کی ضرورت ہے کیونکہ موخر سیلز ٹیکس اور انکم ٹیکس ریفنڈز کی مد میں بالترتیب 150 ارب روپے اور 100 ارب روپے واجب الا دا ہیں۔ ریفنڈز کی ادائیگی میں تاخیر کا ایک اور نقصان یہ ہو رہا ہے کہ برآمد کنندگان کو سرمائے کی قلت کے ساتھ ساتھ بینکوں کو مارک اپ کی ادائیگی کا اضافی مالی بوجھ بھی برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔

واضح رہے کہ وزیراعظم شہباز شریف نے جولائی کے مہینے میں نیشنل ایکسپورٹ ڈویلپمنٹ بورڈ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے اگلے تین سال میں برآمدات کو 60 ارب ڈالر تک لے جانے کا ہدف مقرر کیا تھا۔ انہوں نے برآمد کنندگان کے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کی یقین دہانی کروانے کے علاوہ یہ بھی وعدہ کیا تھا کہ ہر ڈیڑھ ماہ بعد وہ خود اس بورڈ کے اجلاس کی صدارت کیا کریں گے۔ انہوں نے وزارت تجارت کو برآمدات کی استعداد رکھنے والے شعبوں کے نمائندوں سے مل کر تجاویز کو حتمی شکل دینے کے علاوہ بجلی کی لاگت کو کم کرنے کے لیے نجی شعبے کو پالیسی کی تشکیل کے عمل کا حصہ بنانے کی بھی ہدایت کی تھی۔

تاہم حقیقت یہ ہے کہ اس میٹنگ کو دو ماہ سے زائد کا عرصہ گزرنے کے باوجود تادم تحریر کوئی عملی اقدامات ہوتے نظر نہیں آ رہے ہیں۔ اس حوالے سے نہ تو متعلقہ حکومتی محکموں کی جانب سے اسٹیک ہولڈرز یا ایکسپورٹرز کی نمائندہ تنظیموں سے مشاورت کا سلسلہ شروع کیا جا سکا ہے اور نہ ہی انہیں درپیش مسائل کو حل کرنے کے لئے کوئی عملی اقدامات ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ واضح رہے کہ گزشتہ مالی سال میں پاکستان کی مجموعی برآمدات بامشکل 30 ارب ڈالر تک پہنچ سکی تھیں۔ علاوہ ازیں رواں مالی سال کے وفاقی بجٹ میں بھی جس طرح ایکسپورٹ انڈسٹری کو سہولت دینے کی بجائے ریونیو بڑھانے کے لئے اس پر مزید ٹیکس عائد کیا گیا اس سے انڈسٹری پہلے ہی مایوسی کا شکار ہے اور کئی فیکٹریاں مکمل یا جزوی طور پر بند ہو چکی ہیں۔ اس لئے اگر وزیر اعظم شہباز شریف حقیقت میں برآمدات بڑھا کر ملک کو معاشی طور پر اپنے پیروں پر کھڑا کرنا چاہتے ہیں تو یہ وقت اس کا سنہری موقع ہے۔ انہیں چاہیے کہ وہ اپنی ترجیحات میں برآمدات بڑھانے کو پہلی ترجیح بنائیں تاکہ قومی ترقی کی راہ میں حائل زرمبادلہ کی قلت کا خاتمہ ہو سکے۔ اس سلسلے میں فوری طور انرجی ٹیرف اور بینکوں کے مارک اپ میں کمی کرکے ٹیکسٹائل انڈسٹری سمیت تمام برآمدی صنعتوں کی پیداواری لاگت میں کمی لائی جا سکتی ہے۔ یہ اقدام نہ صرف حکومتی خزانے پر کسی قسم کے اضافی بوجھ کا باعث نہیں بنے گا بلکہ اس سے روزگار کی فراہمی میں اضافے سے دیگر معاشی اشاریوں میں بھی بہتری آئے گی۔

تازہ ترین