(گزشتہ سے پیوستہ)
قارئین کرام! جیسا کہ گزشتہ آئین نو (بتاریخ 8نومبر) میں جاری موضوع پر تجزیے میں واضح کرنے کی اپنی سی کوشش کی گئی کہ وطن عزیز میں کوئی تین سال سے گورننس کی کوالٹی کا معیار جو پہلے ہی کبھی قابل اطمینان نہیں رہا، رجیم چینج کے ساتھ ہی جمہوری سیاسی عمل کا سست ارتقا بری طرح ڈسٹرب ہوتے ہوئے ختم ہونے سے بحران مزید بگڑ گیا، جیسے کہ انتخابی نتائج پلٹنے کے بعد عوام کو اس عمل سے کاٹ دیا گیا۔ تادم ان مکمل ہوتے تین برسوں میں بیڈ گورننس کا گراف مسلسل بلند ہونے سے آئین کی غیر معمولی خلاف ورزیاں ہوئیں، لاقانونیت اور دو قانونیت نے شدت اختیار کی ، 30 ماہ میں سب ہی ریاستی اداروں کی ناقابل اطمینان بخش ورکنگ سے بیڈ گورننس میں اضافہ ہو گیا۔ عوام کی نظر میں حکومت کا امیج تیزی سے گرتا رہا اور معزول قیادت و حکومت اتنی ہی رفتار سے مقبول ہوئی۔ مہنگائی کا گراف تو اتنی تیزی سے بڑھا کہ عوام الناس یکدم بہت سنگین صورتحال سے دو چار ہو گئے۔ ناگزیر انرجی (پٹرول، بجلی، ایندھن وغیرہ) اور حصول خورو نوش کے گھریلو بجٹ سے لے کر ٹاپ لیول پر ریاستی اداروں کی کارکردگی تک حتیٰ کہ قانون سازی، آئین کی تشریح اور بنیادی آئینی تقاضوں کی ادائیگی کا نظام درہم برہم ہوگیا۔ بالائی سطح کا نظام عدل و انصاف واضح سیاسی انداز و مزاج سے تقسیم ہو کر محدود و منجمد ہوگیا۔
سب سے بڑا ستم یہ ہوا کہ ان تمام تر مسائل کا سکہ بند آئینی وعوامی حل الیکشن بمطابق آئین کے بڑے جتن سے ہونےپر آئینی ریاستی اداروں کے کھلواڑ سے عوامی فیصلے کے حقیقی نتائج کو سبوتاژ کر دینے ، عوامی فیصلے کو جتنے صبر کے بعد جس قدر جبر و استبداد سے سبوتاژ کیا گیا اس کے بعد انتہا کے متنازع اور پیچیدہ حکومتی ماورا ئے آئین فیصلوں نے گورننس اور حکومت و سیاست کے معیار کو آئین کے ہوتے، ایسے خسارے میں مبتلا کردیا کہ پہلے سے نظام بد کا حامل پاکستان ،بیچارا لیکن سخت جان اور صابر، کا ریاستی سیٹ اپ عوام سے اور عوام اس سے کوسوں دور ہو گئے۔ اب ریاست کو عوامی مفادات کی کوئی پروا ہے نہ عوام کو اپنی ہی ریاست و حکومت پر اپنے مفادات و حقوق کے ضامن و محافظ ہونے کا کوئی یقین و اعتماد رہ گیا۔ ایک خلیج ہے جسے پاٹنا محال ہے، عوام اپنے مفادات کے خلاف حکومتی پالیسیوں اور فیصلوں سے غیر معمولی دوری پر اور سخت نالاں ہیں۔ انہیں اس حکومت کی تشکیل اور اس کی بیڈ گورننس اور حکومت کو ان کے ’’گستاخانہ‘‘ سیاسی رویے اور عوامی انتخابی فیصلے ہرگز قبول نہیں، لیکن عوام کی مرضی و منشا کے خلاف حکومت کے جبر و استبداد اور دھونس دھاندلی سے تسلط کی صلاحیت، اہلیت یا طاقت اب تک تو عوام پر غالب و بھاری ہی لگ رہی ہے۔ ایسے میں جملہ نوعیت کے بحران اور بڑے قومی بحران کی نوعیت اور جاری کیفیت تشویشناک ہے۔
قارئین کرام! اب پوٹیشنل پاکستان کو مکمل بدنیتی سے بیڈ گورننس اختیار کر کے اسے لوٹنے اور عوام و ریاست میں تشویشناک خلیج پیدا کرکے ناگزیر حل، ’’آئین کا مکمل اطلاق اور تمام شہریوںپرقانون کا یکساں اطلاق‘‘ کو تو ایک ان ہونی سا آئیڈیل بنا دیا گیا ہے، یعنی متذکرہ جس قومی لازمے کے پوری قوم، خواص تاعوام تابع و پابند ہے، بڑے بڑے کرتا دھرتا جس کے تحفظ کی قسم کھا کر اور اس سے وفا کا حلف اٹھا کر بااختیار و بااعتبار بنتے ہیں، لیکن من مانے ماورائے جمہوریت سے من مانی آئین و قانون سازی پر تلے ہوئے اور کر رہے ہیں۔ رہا ان پر عوامی اعتبار، مرضی و منشا کے اختیار حاصل کرنے کے بعد اسے ،جوتی کی نوک پر رکھتے ہیں۔ یہ خلیج کیوں نہ بنتی جبکہ عوام کا یقین ِکامل ہے کہ موجودہ حکومت ان کی منتخب حکومت نہیں اور جو ہے اسے کھلواڑ سے اپوزیشن بنا دیا گیا ہے۔
تلخ حقیقت یہ ہے کہ اب تو متذکرہ تجربے اور اس کے ٹھوس و مبنی برحق حقائق کی تکرار بے سود ہو گئی ہے دلیل ہاری تو بالکل نہیں بے اثر و بے بس بنا دی گئی ہے، فقط مافیا راج کی طاقت ہے۔ ایسے میں اپنے تئیں نیک نیتی سے کئے گئے درست سمت اختیار کرنے کے دعوے ہی نہیں بہت کچھ مائنس خصوصاً عوام کو کرنے سے سیدھی راہ اور درست فیصلے بھی نتیجہ خیز نہیں ہوں گے، اگر ہو بھی ہو گئے تو متوازی عوامی محرومیوں اور انہیں دبا اور کچلنے کے خسارے جبرسے حاصل کئے گئے (بظاہر) فوائد پر غالب و بھاری ہوںگے، لیکن مافیا راج کی برسوں کی سیاسی کمائی تو اس کھلواڑ میں لٹ گئی اور قوت اخوت عوام اور اپوزیشن کو مکمل دبائے رکھنے کی خواہش یا ضرورت ، خواہ یہ خوف سے ہو یا ہر حالت میں اقتدار سے چمٹے رہنے کی ہوس سے، پوری ہرگز نہ ہوگی اور بڑے عوامی ایثار کے بعد بالآخر جیت عوام کے حقیقی مین ڈیٹ سے بنی سیاسی طاقت کی ہوگی۔ یہ کشمکش کتنی دیر جاری رہتی ہے یقیناً اس میں عوام کو ایک دیرپا اور جاری وساری رہنے والی سیاسی جہدلازم ہے جبکہ مافیا اپنے انجام کے ساتھ ختم کئے گئے ارتقا کی بحالی سے صرف سبق آموز تاریخ ہی بنے گا۔ آسمانوں کے حساب کتاب اللہ جانتا ہے کہ پاکستان بہرحال مملکت خداداد اور سرزمین ایثار و شہدا و قربانی ہے۔ اس کے رنگ سے اضطراب و ابتری اسی دنیا میں بھی ختم ہوگی اور پاکستان اپنے قیام کا اصل کردار حاصل کرکے رہے گا۔
پاکستان کی موجودہ پیچیدہ ترین سیاسی صورتحال ایک بڑی تلخ لیکن مکمل حقیقت یہ ہے کہ:قوت اخوت کے ساتھ اپنی اور مافیا راج اپنے محدود اور اَنا کے مارے بینی فشریز کے ساتھ ایسی پوزیشن لے چکے ہیں ہر دو میں تبدیلی و لچک کا کوئی امکا ن نہیں، نظر نہیں آ رہا۔ اسٹیٹ کی طاقت آئینی اختیارات سے نہیں ہاتھ لگی حکومت اور آئین سے منحرف ہوگئے ریاستی اداروں کی غیر آئینی پشت پناہی سے نہتے پرعزم عوام اور معتوب اپوزیشن پر یقیناً حاوی اور من مانی کرنے کی زیادہ پوزیشن میں ہے۔ ایسے میں دلائل سے لبریز تجزیے ہر دو فریق میں لچک پیدا کرتے نظر نہیں آ رہے تو بس ایک نظری لیکن عمل درآمد کی صلاحیت سے مالا مال آپشن علم سے رہنمائی کاہے گڈگورننس کے علم کو، جو تجزیہ بحث یا اکثریتی رائے یا آئین کی اپنی تشریح نہیں ہوتا بلکہ علم علم ہے جو بے لچک اور اس کا اطلاق 100 ثمر آور ہوتا ہے اور دنیا میں یہ ہی غیر اقوام کی طاقت و ترقی کی مکمل ضمانت ہے۔ گڈگورننس کا علم تقاضہ کرتا ہے کہ پاکستان کو اس کے قیام کے مقاصد اور آج کی قوت عوام کے فیصلے کے مطابق ریاست بنانے کیلئے یہ ہی راہ اختیار کی جائے۔ 1۔رول آف لا،2۔ سیاسی استحکام،3۔ ترقی جاریہ اقتصادی اور سماجی دونوں،4۔تخفیف غربت، سماجی انصاف و مساوات ، 5۔ اداروں کا استحکام اور بمطابق آئین و قانون ورکنگ، 6۔ شفافیت بشکل اوپن فیصلہ سازی اور عملدرآمد مع عوامی مفادات کی اطلاعات تک آسان رسائی، 7۔ اداروں قائدین اور حلف برداروں کا مسلسل جاری احتسابی عمل، 8۔ پالیسی اور فیصلہ سازی اور عملدرآمد میں عوام کی شرکت بذریعہ نمائندگان و مقامی منتخب ادارے، 9۔ عوامی خدمات کے فعال اور اہل ادارے، 10۔ بنیادی انسانی حقوق کی دستیابی اور حفاظت،11 ۔آزاد میڈیا ،12۔ قومی اور زندگی میں سول سوسائٹی کا غلبہ اور سب سے بڑھ کر ایک ہماگیر، سمارٹ، پیپلزاورینٹڈ، تمام تر قومی ضروریات پوری کرنے والا نظام تعلیم، وما علینا الالبلاغ۔