• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آہ! بچپن کی پیاری سہیلی ... رقانہ صدر الدین

مرتب: محمّد ہمایوں ظفر

آہ! میرے بچپن کی پیاری سہیلی، رقبانہ صدرالدین..... کبھی سوچا نہ تھا کہ وہ اس قدر جلد ہم سب کو روتا، بلکتا چھوڑ کر چلی جائے گی۔ بچپن سے لڑکپن اور لڑکپن سے جوانی کے تمام ادَوار میری نگاہوں میں آج بھی تازہ ہیں۔ خوشیوں، مسّرتوں کے وہ ادَوار یاد کرتی ہوں، توخصوصاً اُس کےساتھ بیتے وہ لمحات بہت یاد آتے ہیں۔ ہماری اَن مول دوستی کے اس رشتے کا آغاز کلاس ششم سے ہوا۔ 

اُس وقت مَیں نے رقبانہ صدر الدین اور بشریٰ قادری نے دوستی کے اس رشتے کو ’’تکون،، کا نام دیا۔ اسکول کے بعدکالج لائف تک پہنچتے پہنچتے ہماری یہ دوستی مضبوط تر ہوتی چلی گئی، ہم تینوں کے درمیان کسی چوتھے کی کبھی کوئی گنجائش ہی نہیں رہی کہ ہم اس ’’تکون،، میں بہت خوش تھیں۔ کبھی بچھڑنے کا سوچا ہی نہ تھا، لیکن اس دنیا میں جو آیا ہے، جلد یا بدیر اُسے ایک نہ ایک دن اپنے ربّ کے حضور ضرور پیش ہونا ہےاور رقبانہ صدر الدین کے اچانک انتقال کے بعد یہ’’ تکون،، بیچ سے ٹوٹ گئی ہے۔

2020ء کے اوائل میں آنے والا کورونا وائرس جہاں بہت سی زندگیاں نگل گیا، وہیں میری پیاری و ہر دل عزیز سہیلی، رقبانہ بھی اس موذی وائرس کا شکار ہوکر راہئ ملکِ عدم ہوئی، جب کہ دوسری طرف بشریٰ بھی آئی سی یو میں اِسی موذی مرض کے ہاتھوں زندگی و موت کی جنگ لڑ رہی تھی، دو ماہ بعد اُسے معلوم ہوا کہ رقبانہ اب اس دنیا میں نہیں رہی تو اُس کی حالت بھی کافی ابتر ہوگئی۔

رقبانہ، محض ہماری دوست نہیں، سچّی خیرخواہ تھی۔ وہ ہمارا اس طرح خیال رکھتی کہ کبھی کبھی تو مَیں اور بشریٰ اُسے چھیڑتے کہ’’ تم، تو امّاں کی طرح ہمارا خیال رکھتی ہو۔‘‘ ہم ایک دوسرے کی چھوٹی چھوٹی تکلیفوں پر تڑپ جاتے، کالج لائف ہنستے کھیلتے گزر گئی، پھر عملی زندگی کا آغاز ہوا اور ہم نے بطور پروفیشن درس و تدریس کا شعبہ چنا۔ 

وقت کا پہیّا آہستہ آہستہ سرکتا رہا، تب ہی ایک روز پتا چلا کہ رقبانہ کی والدہ کو سرطان ہوگیا ہے، یہ صرف رقبانہ ہی نہیں، ہم سب کے لیے بہت بڑا غم تھا ۔وہ ابھی والدہ کی بیماری سے نبرد آزما ہی تھی کہ اچانک اُس کے والد انتقال کرگئے۔ پھر والدہ بھی بیماری سے لڑتے لڑتے ایک سال ہی میں اُسے روتا، بلکتا چھوڑ گئیں۔ 

والد اور والدہ کا دنیا سے یوں چلے جانا، بہت تکلیف دہ امرتھا، گوکہ جان چھڑکنے والے بہن بھائی اس کے ساتھ تھے، ایک حکم پہ کھڑے ہوجانے والے بھانجے، بھانجیاں، بھتیجے، بھتیجیاں بھی تھیں، بھابی بھی ایک ماں کی طرح خیال رکھتیں، لیکن سچ تو یہ ہے کہ ماں، باپ کا خلا کوئی رشتہ پورا نہیں کرسکتا۔ 

والدین کی جدائی کے بعد بَھرے پُرے گھر میں بھی تنہائی ڈسنے لگی، تو اُس نے خود کو مصروف کرلیا۔ صبح اسکول، شام کو کوچنگ سینٹر۔ لیکن اتنی مصروفیات کے باوجود بھی ہم وقت نکال کر جمع ہوتے، اپنے دکھ، درد بانٹتے، خوشیوں کے بہانے ڈھونڈلیتے، ایک دوسرے کو تحفے تحائف دیتے۔

ان ہی ماہ و سال میں رقبانہ ذیابطیس کے مرض میں مبتلا ہوگئی اور اس مرض نے رفتہ رفتہ اُسے ایسا جکڑا کہ اس کی ہمّت جواب دینے لگی۔ شوگر کی زیادتی کی وجہ سے صبح و شام روزگار کے لیے آنا جانا مشکل ہوگیا، تو اس نے یہ سوچ کر نجی اسکول کھولنے کا ارادہ کیا کہ اپنا اسکول ہوگا، تو کسی کی پابند نہیں رہوں گی۔ اور پھر جلد ہی گھر والوں کے تعاون سے ایک اسکول کھولنے میں کام یاب بھی ہوگئی۔ 

اس کے اس اقدام سے مَیں اور بشریٰ بہت خوش تھے۔ نیک نیتی اور اَن تھک محنت کی وجہ اس کا اسکول دن دونی، رات چوگنی ترقی کرنے لگا، وہ بہت عزم اور حوصلے کے ساتھ اسکول چلا رہی تھی کہ 2020ء کے اوائل میں کورونا وبانے اپنے پنجے گاڑ دیئے، لاک ڈاؤن کی وجہ سے جہاں دیگر شعبہ جات اور کاروبار متاثر ہوئے، وہیں اس کا اسکول بھی بہت متاثر ہوا، حتیٰ کہ اسکول کے اخراجات کی تکمیل اور اساتذہ کی تن خواہوں کی ادائی ممکن نہ رہی۔ 

روز بروز قرضوں کا بوجھ بڑھنے لگا، ایسے میں، مَیں اور بشریٰ اس کی ہمّت بندھاتے اور سمجھاتے کہ ان حالات میں کوئی فیصلہ لے لے۔ پہلے ہر سال رمضان المبارک میں، ہم تینوں محلّے کی مسجد میں باجماعت تراویح پڑھتی تھیں، پھر بشریٰ شاہ فیصل کالونی شفٹ ہوگئی، تو مَیں اور رقبانہ ہی ساتھ ہوتی تھیں۔ 

مگر کون جانتا تھا کہ ہمارا یہ ساتھ بھی ختم ہونے والا ہے۔ لاک ڈائون سے قبل کے رمضان میں، مَیں دعا میں مسلسل اس کی ہچکیوں کی آواز سنتی تھی۔ بہرحال کچھ عرصے کی جدوجہد کے بعد اس نے اسکول بند کردیا، جب کہ وہ اپنی ساری جمع پونجی اسکول میں لگاچکی تھی۔ ان دنوں وہ بیک وقت اپنی صحت اور مالی معاملات کی جنگ لڑ رہی تھی۔

عیدالاضحی کےتین روز بعد میرے موبائل فون پر اُس کا میسیج آیا کہ ’’مَیں آرہی ہوں۔‘‘ اُس کی آمد کا سنتے ہی مَیں خوش ہوگئی اور اس کا پسندیدہ کھانا بنانے لگی۔ دال، چاول، تلے ہوئے آلو، اچار، چٹنی، پاپڑ .....وہ بہت شوق سے میرے ہاتھ کا کھانا کھایا کرتی تھی۔ دوپہرکے وقت وہ میرے گھر آئی اورآتے ہی شکوہ کرنے لگی کہ۔ ’’تم عید پر نہیں آئی،مَیں نے تمہارے لیے خاص طور پرکئی ڈشز بنا ئی تھیں۔

بہرحال، سارا کھانا گھر میں فریز کرکے آئی ہوں، تم آئوگی تو ساتھ مل کر کھائیں گے۔‘‘پھر اس نے خوش خبری سنائی کہ اب وہ سارے قرضوں سے فارغ ہوگئی ہے۔ ہم کھانا کھانے کے بعد، بہت دیر تک ماضی کے خوش گوار لمحوں کو یاد کرتی رہیں۔ اگرچہ وہ بڑے جوش و خروش سے باتیں کررہی تھی، لیکن اس کے چہرے پر نقاہت بھی صاف محسوس ہورہی تھی، لہٰذا تھوڑی دیر بعد میں اسے اپنے کمرے میں بیڈ پر آرام کی غرض سے لٹا کر دوسرے کمرے میں آگئی۔

وہ دو گھنٹے تک پرسکون سوتی رہی، اُٹھی تو رات کا ملگجا اندھیرا پھیل چکا تھا۔ ایک طویل عرصے بعد اُس ملاقات سے جو خوشی ملی، وہ بیان سے باہر تھی، بالکل کل کی سی بات لگتی ہے۔ بہرحال، تھوڑی دیر بعد وہ بڑی اپنائیت سے مجھے گلے لگاکر چلی گئی۔ اُس وقت میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ اُس سے میری آخری ملاقات ہے اور وہ ہمیشہ کے لیے جارہی ہے۔

اُس کے جانے کے چند روز بعد ہی یہ اندوہ ناک خبرملی کہ کورونا اُس کی زندگی نگل گیا۔ لڑکھڑاتے قدموں سے فوری اسپتال پہنچی، تو اُس کا یخ بستہ وجود میرے سامنے تھا۔ مَیں اس کی اَدھ کھلی آنکھوں میں زندگی کی رمق تلاش کررہی تھی،لیکن اُس کے وجود میں کوئی حرارت نہ تھی۔ مَیں اور بھابھی حوصلہ باندھے کھڑے تھے کہ ہمیں ہی اپنے ہاتھوں سے کفن پہنا کر اُسے آخری سفر کے لیے تیار کرناتھا۔

غسل دینے والی خاتون کے ساتھ مل کر ہم نے اُسے کفن پہنایا اور جب اُس کی میّت گھر پہنچی، تو ہر طرف آہ و بکا کا شورتھا۔ ہر آنکھ اس کی جوان موت پر اشک بار تھی، مگر اس کے جانے کا غم میرے دل تو جیسے اپنے پنجے گاڑگیا۔ اُسے ہم سے بچھڑے تین برس بیت گئے، زندگی اپنی مخصوص رفتار سے آگے بڑھ رہی ہے، مگر مَیں اور بشریٰ جب بھی ملتی ہیں، وہ ہمارے ساتھ ہی ہوتی ہے، ہماری گفتگو میں ایک خوب صورت یاد بن کر۔ 

آج بھی ہم دونوں مل کر اُس کے گھر جاتی ہیں۔ بھائی جان، بھابھی، سارے بچّے ویسی ہی محبت دیتے ہیں، جیسی رقبانہ کے لیے تھی، ہاں، بس وہ کہیں دکھائی نہیں دیتی۔ اللہ اسے کروٹ کروٹ جنّت نصیب کرے، (آمین)۔ (روحی ناز، کراچی)