• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

8 اکتوبر 2005ء کو صوبۂ خیبر پختون خوا اور آزاد کشمیر میں آنے والے قیامت خیز زلزلے کو 19 برس بیت گئے۔ 3رمضان المبارک، بروز ہفتہ صبح 8 بج کر 52 منٹ پر قیامتِ صغریٰ برپا ہوئی، تو ہر طرف آہ و بکا مچ گئی۔ خوف و دہشت کے عالم میں کسی کو کچھ سُجھائی نہیں دے رہا تھا۔ چند ہی لمحوں میں بلند و بالا عمارات اور مکانات ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہو گئے۔ 

چاروں طرف لاشیں ہی لاشیں اور زخمی دکھائی دے رہے تھے اور زندہ بچ جانے والے افراد روتے بِلکتے ملبے میں اپنے پیاروں کو تلاش کرتے پھر رہے تھے۔ اس سانحے میں80ہزار سے زاید افراد لقمۂ اجل بنے، ہزاروں زخمی ہوئے اور کئی ہنستے بستے شہر اور دیہات صفحۂ ہستی سے مٹ گئے۔ تاہم، سانحے کے 19برس بعد بھی لوگوں کے دِلوں میں اپنےپیاروں کی یادیں تازہ ہیں۔

اس خوف ناک زلزلے کے نتیجے میں صوبۂ خیبرپختون خوا کی تحصیل، بالاکوٹ کے کئی گاؤں صفحۂ ہستی سے مٹ گئے ۔ بعد ازاں، اُس وقت کی حکومت نے بالاکوٹ کے متاثرینِ زلزلہ کی آبادکاری کے لیے مانسہرہ شہر کے قریب واقع بکریال کے مقام پر ’’نیو بالاکوٹ سٹی‘‘ کے نام سے ایک نیا شہر بسانے کا اعلان کیا اور متاثرین زلزلہ کی آباد کاری کے لیے اُس وقت کے صدرِ مملکت، جنرل (ر) پرویز مشرّف نے عالمی ڈونرز کانفرنس طلب کی، جس کے نتیجے میں پاکستان کو دُنیا بَھر سے اربوں ڈالرز کی امداد ملی۔ اس موقعے پر حکومت نے دعویٰ کیا کہ امدادی رقم زلزلے سے متاثرہ علاقوں کی تعمیرِ نو اور متاثرین کی آبادکاری کے لیے استعمال کی جائے گی اور اس ضمن میں حکومت نے ’’ایرا‘‘ اور ’’سیرا‘‘ نامی ادارے قائم کیے۔ 

ان اداروں میں مُلک بَھر سے ہزاروں افراد کو بھاری تن خواہوں پر ملازم رکھا گیا اور 2010ء میں متاثرینِ زلزلہ کی آبادکاری مکمل کرنے کا فیصلہ کیا گیا، لیکن سانحے کے 19برس بعد بھی متاثرینِ زلزلہ در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں، جب کہ وہاں بنائے جانے والے دفاتر بھی آج کھنڈرات کا منظر پیش کر رہے ہیں اور مذکورہ اداروں کے ملازمین کو تن خواہ کی مَد میں دیے گئے اربوں روپے بھی رائیگاں گئے۔ نیز، مطلوبہ تعداد میں تعلیمی ادارے تعمیر ہو سکے اور نہ ہی صحت مراکز ،جب کہ نیو بالاکوٹ سٹی منصوبہ بھی تعطّل کا شکار ہے۔

گزشتہ 19برس کے دوران کئی حکومتیں تبدیل ہوئی، لیکن متاثرینِ زلزلہ کے روز و شب نہ بدلے۔ ہر سال 8اکتوبر کو حکومتی عُہدے داران متاثرین سے اُن کی آبادکاری کے وعدے کرتے ہیں اور پھر سال بَھر اُن کی خبر تک نہیں لیتے۔ کے پی کے میں گزشتہ 11برس سے پاکستان تحریکِ انصاف برسرِ اقتدار ہے۔ 2021ء میں اُس وقت کے وزیرِاعظم، عمران خان کے دَورۂ ناران کے موقعے پر زلزلہ متاثرین نے نیو بالاکوٹ سٹی سے متعلق احتجاج کرتے ہوئے اُن سے یہ شکوہ کیا کہ ’’ہمیں آپ سے بڑی امیدیں وابستہ تھیں، لیکن سابقہ حکومتوں کی طرح آپ کی صوبائی حکومت نے بھی اس ضمن میں کوئی اقدامات نہیں کیے۔‘‘ 

جس پر عمران خان نے کہا کہ ’’انہیں تو اس بارے میں کچھ علم ہی نہیں ہے۔‘‘ قیامت خیز زلزلے سے متاثر ہونے والی تحصیل، بالاکوٹ کے ضمن میں خیبر پختون خوا حکومت کی عدم دل چسپی کا عالم یہ ہے کہ یہاں آج بھی تحصیل ہیڈ کوارٹر اسپتال کرائے کی عمارت میں قائم ہے، جب کہ کروڑوں روپے کی لاگت سے تعمیر ہونے والا سرکاری اسپتال ابھی تک مکمل طور پر فعال نہیں ہو سکا اور آج بھی بالاکوٹ میں تمام سرکاری اسکولز شیلٹرز میں قائم ہیں۔

ہر چند کہ گزشتہ19برس کے دوران مختلف اوقات میں عدلیہ کی جانب سے بھی نیو بالا کوٹ سٹی کے ضمن میں متعدد بار نوٹس لیا گیا اور کئی مواقع پر عدالت نے سخت ریمارکس بھی دیے، مگر زلزلہ متاثرین کے حالات تبدیل نہیں ہوئے۔ اپریل 2018ء میں اُس وقت کے چیف جسٹس، جسٹس ثاقب نثار نے مانسہرہ کے ایک شہری شیراز محمود قریشی کی درخواست پر سو موٹو نوٹس لیا اور پھر زلزلے سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا۔ 

اس دوران انہوں نے ضلع مانسہرہ کے مختلف علاقوں میں تعمیرِ نو اور بحالی کے منصوبوں اور زلزلہ متاثرین کی عارضی پناہ گاہوں کا جائزہ لیا اور ایرا حُکّام کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ ’’کیا آپ ان شیلٹرز میں ایک دن بھی گزار سکتے ہیں؟‘‘ 

جسٹس ثاقب نثار نے سرکاری افسران کو مخاطب کرتے ہوئے سوال کیا کہ ’’کیا آپ کے بچّے اس اسکول میں پڑھ سکتے ہیں؟‘‘ جس کا اُن کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ دسمبر2021ء میں ایک بار پھر سپریم کورٹ نے صوبۂ خیبرپختون خوا کی بیوروکریسی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے زلزلے سے متاثرہ اضلاع کے تباہ شُدہ اسکولز 6ماہ میں فعال کرنے کا حُکم دیا۔ قبل ازیں، اُس وقت کے چیف جسٹس، جسٹس گُلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے دو رُکنی بینچ نے زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں اسکولز کی عدم تعمیر پر از خود نوٹس لیا تھا۔ 

دورانِ سماعت عدالت نے استفسار کیا کہ ’’ بتایا جائے کہ اربوں روپے کے فنڈز جاری ہونے کے باوجود خیبرپختون خوا کے زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں اسکولز تعمیر کیوں نہیں کیے گئے؟‘‘ چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ’’خیبرپختون خوا میں کرپشن اتنی زیادہ ہے کہ عوام کو کچھ ڈیلیور ہو ہی نہیں سکتا، جب کہ صوبائی حکومت کی ترجیحات میں تعلیم سب سے نچلے درجے پرہے۔ اربوں روپے مختص کیے گئے، لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکلا اور جو اسکولز تعمیر ہوئے، وہ بھی مکمل طور پر فعال نہیں۔‘‘ چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں مزید کہا کہ ’’خیبر پختون خوا حکومت کو شرم آنی چاہیے کہ سارا گورکھ دھندا صرف پیسا اِدھر اُدھر گھمانے کے لیے ہے۔‘‘ 

اس موقعے پر عدالت نے تنبیہہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’اگر مقرّرہ وقت میں اسکولز کی مکمل تعمیر ‏ کی رپورٹ پیش نہ کی گئی، تو توہینِ عدالت کی کارروائی ہوگی۔‘‘ تاہم، عدالت کے سخت ترین ریمارکس اور احکامات کے باوجود ان پر عمل درآمد نہ ہو سکا اور مُلکی تاریخ کے تباہ کُن زلزلے کے 19برس بعد بھی بالاکوٹ کے عوام پینے کے صاف پانی، صحت کی بنیادی سہولتوں اور اسکولز سے محروم ہیں۔ ہماری اعلیٰ حُکّام سے گزارش ہے کہ وہ نیو بالا کوٹ سٹی منصوبے کو جلد از جلد پایۂ تکمیل تک پہنچائیں، تاکہ متاثرین در در کی ٹھوکریں کھانے کی بہ جائے عزّت و وقار کے ساتھ زندگی بسر کرسکیں۔