فلسطین عالم اسلام کا ایک بڑاپیچیدہ مسئلہ ہے۔ جہاں مسلمانوں کا قبلہ اول، بیت المقدس واقع ہے اورجہاں سے پیغمبر اسلام نے معراج کا سفر کیا تھا ۔ فلسطین کی زمین مسلمانوں کیلئے نہ صرف مذہبی حیثیت رکھتی ہے بلکہ یہ ایک تاریخی اور ثقافتی ورثہ بھی ہے۔ آج یہ مقدس سر زمین اسرائیلی قبضے اورظلم وجبر کی لپیٹ میں ہے۔ تقریباً 77سال سے فلسطینی عوام اپنی زمین اور حقوق کیلئے مسلسل جدوجہد کر رہے ہیں لیکن اسرائیل کی فوجی طاقت اور بین الاقوامی حمایت کے باعث فلسطینی عوام کو بے شمار مشکلات اور مصائب کاسامنا ہے۔ غزہ کو بمباری سے تبا ہ و برباد کرنے کے بعد اسرائیلی افواج لبنان پرچڑھائی کر چکی ہیں۔ امریکہ ، فرانس ،برطانیہ اور دوسرے مغربی ملک کھل کر اسرائیل کا ساتھ دے رہے ہیں ۔ مسلم امہ کی بے حسی کی بڑی وجہ معاشی مفادات ، داخلی تنازعات اور عالمی دبائوہے۔تاہم سب سے زیادہ افسوسناک پہلو مسلم امہ کی بے حسی ہے ۔ اسلامی ممالک کی اکثریت نے مسئلہ فلسطین کو صرف ایک رسمی بیان بازی تک محدود کر رکھا ہے ۔ مسلم امہ کا فلسطین کے مسئلے پر جو کردار ہونا چاہیے تھا ،وہ اب تک نظر نہیں آیا ۔ یہ بات درست ہے کہ اسرائیلی دہشتگردی 7اکتوبر 2023ء سے نہیں بلکہ گزشتہ سات دہائیوں سے جاری ہے ۔ اسرائیل کی ریاستی دہشتگردی اب نہ صرف غزہ اور فلسطین بلکہ خطے کے دوسرے ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے ۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی ایسی ریاستی دہشتگردی کو روکنے کی بجائے عالمی قوتوں نے اسکا ساتھ دیا تو پوری دنیاکو اس کا ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑا۔
ایک رپورٹ کے مطابق اس ایک سالہ جارحیت میں اسرائیل نے لاکھوں فلسطینیوںکو بے گھر کیا۔814مساجد کوشہید کر دیا۔ ایک سال کے دوران ایک دن بھی ایسا نہیں گزرا جس میں اسرائیل نے غزہ پر بمباری نہ کی ہو ۔غزہ میں اب بھی 63اسرائیلی یرغمالی زندہ ہیں ۔ اس جنگ میں صیہونی ریاست کے 728فوجی مارے گئے۔ اسرائیلی جارحیت کے باعث 45ہزار فلسطینی شہید ہو چکے ہیں ۔فلسطین اور غزہ میں صحت اور تعلیم کا ڈھانچہ مکمل طور پرتباہ ہو چکا ہے ۔غاصب اسرائیلی فوج نے غزہ میں مساجد اور اسکولوں پر بے تحاشہ بم برسائے ہیں۔ اسماعیل ہانیہ کی شہادت کے بعد ایران فوری طور پر اسرائیل پر حملہ کرنے کیلئے تیار تھا ۔ لیکن ا مریکہ اور قطر وغیرہ کی طرف سے ایران کو یہ یقین دہانی کرائی گئی کہ غزہ میں جنگ بندی ہونیوالی ہے ۔اس بارے میں مذاکرات فیصلہ کن مرحلہ میں ہیں۔ اس صورتحال میں اگر ایران ا سرائیل پر حملہ کرے گا تو جنگ بندی کی کوششیں سبوتاژہو جائیں گی اور اسکا ذمہ دار ایران ہوگا۔ اسکے پیچھے امریکہ اور اسرائیل کی مشترکہ ٹیکنالوجی تھی، پچھلے ایک برس میںدہشتگرد اسرائیل کو امریکہ نے فوجی ،مالی اور ٹیکنالوجی مدددی ۔اس مدد میں اسکے اتحادی فرانس،برطانیہ ،جرمنی بھی پیچھے نہ رہے ۔ امریکہ مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کے ذریعے دہشتگردی کیوںکررہا ہے؟مقصد صرف ایک ہی ہے حماس ،حزب اللہ ، اورایران کا خاتمہ کر کے پورے مشرق وسطیٰ پر قبضہ کیا جائے اورگریٹراسرائیل کا خواب پورا کیا جاسکے۔عالمی طاقتوں خصوصاً امریکا کو چاہیے کہ اسرائیل کو ایران پر حملے سے باز رکھے کیونکہ اگر ایران پر حملہ ہوا تو یہ تیسری عالمی جنگ کا نقطہ آغاز بن سکتا ہے ۔ اسرائیل کی جانب سے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملہ کرنے کی بات کی جارہی ہے ۔ اسرائیل فلسطینیوں کے ساتھ جو سلوک کر رہاہے اسے نسل کشی کے سوااور کوئی نام نہیں دیا جاسکتا۔ المیہ یہ ہے کہ دنیا کی مہذب اقوام کارویہ اسرائیل کے حق میں نظر آتا ہے خصوصاً امریکہ اور برطانیہ کھل کر اسرائیل کاساتھ دے رہے ہیں۔ جب سے اسرائیل اور حماس کے درمیان لڑائی شروع ہوئی ہے اس میں سب سے زیادہ نقصان حماس کا ہواہے حزب اللہ کوبھی خاصا نقصان برداشت کرنا پڑا ہے جبکہ ایران بھی امریکہ کے نشانے پر رہا ہے ۔ پاکستان میں ہونیوالی آل پارٹیزکانفرنس انتہائی اہمیت کی حامل ہے ۔ جس میں وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ اسرائیل نے فلسطین میں جو ظلم وبہیمیت مچا رکھی ہے۔ وہ کبھی انسانی آنکھ نے نہیں دیکھی۔
مسلم لیگ (ن) کے صدر نواز شریف نے کہا ہے ہم سب کو اکٹھے ہوکر پالیسی بنانا پڑے گی ورنہ بچوںپر ظلم ہوتا دیکھتے رہیں گے اسرائیلی جارحیت کے سامنے خاموشی اختیار کرنا انسا نیت کی ناکامی ہے۔ بڑی بڑی عالمی قوتیں اسرائیل کی پشت پنا ہی کررہی ہیں اقوام متحدہ فلسطین اور کشمیر کے مسئلوں پر اگر اپنی قراردادوں پر عملدرآمد نہیں کراسکتا تو ایسے ادارے کا کیا فائدہ ہے ۔ اس کانفرنس کے نتیجے میں پاکستان ایک موقف اختیار کرنے کے قابل ہوجائیگا جسے پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں اور طبقات کی حمایت حاصل ہو گی ۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اوآئی سی کا کردار صفر ہے اور جب تک اسلامی ممالک نیٹوکی طرز پر اپنی افواج اکٹھی نہ کریںگے اُس وقت تک اسرائیل کو اسکی جارحیت سے روکانہیں جا سکتا۔