یہ سب شوقِ کمال اور خوفِ زوال کا نتیجہ ہے ،مدت ملازمت میں توسیع حاصل کرنے کی خواہش میں حکومت کی سہولت کاری کی جارہی ہے ،قاضی فائز عیسیٰ ریٹائرمنٹ پر گھر نہیں جائیں گے ،ایکسٹینشن کی پیشکش قبول کرلیں گے ۔طفلانِ انقلاب نے بیانیہ سازی کی تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لاتے ہوئے ان اندیشہ ہائے دور دراز کو حقیقت کے روپ میں پیش کیا ،تلبیس اطلاعات کے پرفتن دور میں سچ وہی ہوتا ہے جو باربارنہایت ڈھٹائی اور بے شرمی سے گلا پھاڑ کر بولا جاتا رہے ،لہٰذا درمیان میں سوراخ والی حلقہ نما میٹھی پوری جسے نونہالان انقلاب ڈونٹ کہتے ہیں،خبثِ باطن آشکار کرنے والے اس سے جی بہلاتے اور ایک ہی سوراخ سے بار بار ڈسے جاتے رہے ۔مگر قاضی فائز عیسیٰ نہایت باوقار انداز میںجارہے ہیں ۔الحمدللہ نہ کبھی آنے والوں کی راہ میں گل پاشی کی اور نہ جانے والوں کی عیب جوئی میں حصہ ڈالا۔ذاتی پسند اور ناپسند سے قطع نظر ہر شخص کو اس پیمانے پر جانچنے کی کوشش کی کہ اس نے اپنے منصب سے کتناانصاف کیا ۔قاضی فائزعیسیٰ میںبہت سی بشری کمزوریاں ہوں گی ،زعم پارسائی اور غرور تقویٰ تو یہاں ہر دوسرے شخص کا مسئلہ ہے اور اس کا سبب ہے روز بروز بڑھتا قحط الرجال۔ہمارے سماج میںایمانداری اور دیانتداری کے فقدان کا یہ عالم ہے کہ اگر کوئی اپنا فرض اد ا کرنے لگ پڑے تو اسے مسیحا اور نجات دہندہ سمجھ لیا جاتا ہے اوروہ شخص نہ چاہتے ہوئے بھی صالحیت کے گھمنڈ میں مبتلا ہوجاتا ہے۔شاید یہی وجہ رہی کہ قاضی فائز عیسیٰ افراط و تفریط کا شکار دکھائی دیئے ،بھری عدالت میں کبھی تووکلاء کو بات کرنے کا موقع نہیں ملا اور گاہے نہایت پرلے درجے کی بدتمیزی پر بھی عفو اور درگزر سے کام لیا گیا۔
میرا گمان ہے کہ قاضی فائز عیسیٰ کا شمار پاکستانی عدلیہ کی تاریخ کے چند بہترین جج صاحبان میں ہوگا ،آپ اختلاف کرسکتے ہیں مگر پہلے مجھے دلائل پیش کرنے کی اجازت دیجئے۔وطن عزیز میں ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ تو کیا ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج صاحبان کا کروفر ،رعب ،دبدبہ اور طنطنہ ہم سب نے دیکھا ہے ۔مگر قاضی فائز عیسیٰ چیف جسٹس بننے کے بعد بھی ،ہوٹربجاتی گاڑیوں اور ہٹو بچو کی صدائوں کے ساتھ سفر کرنے پر آمادہ نہیں ہوئے۔بغیر کسی پروٹوکول اور سکیورٹی کے اپنے اہلخانہ کیساتھ گھومتے پھرتے رہے ،یہی وجہ ہے کہ ایک مذہبی انتہاپسند نے بیکری پرآسان ہدف سمجھ لیا اور طفلان انقلاب نے ناچ ناچ کر گھنگھرو توڑ ڈالے۔اس ملک کو جوع الارض کی ہوس نے برباد کرڈالا ہے ۔جج ہوں یا جرنیل ،پلاٹوں کی سیاست نے بیڑہ غرق کردیا ہے ۔اعلیٰ عدلیہ میں منصف کی مسند پر براجمان اصحاب کیسے قانونی اور غیر قانونی طریقے سے پلاٹ الاٹ کرواتے رہے ہیں،یہ تفصیل بتانے کی چنداں ضرورت نہیںمگر قاضی فائز عیسیٰ نے نہ صرف اپنا پلاٹ لینے سے انکار کردیا بلکہ آبائی زمین بھی وقف کردی ۔آپ بغض کا شکار ہیں تو حکومت کو دی گئی زمین کی مالیت پر بال کی کھال اُتار سکتے ہیں لیکن سچ یہ ہے کہ کسی اور کو تو اتنی بھی توفیق نہیں ہوئی۔
قاضی فائز عیسیٰ چیف جسٹس بنے تو سیاسی افق پرغیر یقینی کے بادل چھائے ہوئے تھے،ان کے پیشرو جسٹس عمر عطا بندیال سپریم کورٹ کے احکامات پر عملدرآمد کروانے میں ناکام رہے ،اگر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ غیر لچکدار رویہ اختیار نہ کرتے تو شاید 8فروری 2024ء کو عام انتخابات کا انعقاد ممکن نہ ہوتا۔اگر آپ کا تعلق اس مخصوص گروہ سے ہے جو ’’بزعم خود شعور یافتہ ‘‘کی گردان کرتے پھرتے ہیں تو کہہ سکتے ہیں کہ ایسے دھاندلی زدہ انتخابات کے انعقاد سے بہتر تھا کہ الیکشن نہ ہوتا ۔یہ دلیل کسی کے عطا کردہ سیاسی شعور کا اعجاز ہوسکتی ہے مگر سیاسی بالادستی پر یقین رکھنے والوں کا اتفاق ہے کہ لولی لنگڑی جمہوریت بھی آمریت سے بدرجہا بہتر ہوتی ہے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے چیف جسٹس بننے سے پہلے کئی اہم ترین مقدمات زیر التوا تھے ،کئی چیف جسٹس ان مقدمات کو سماعت کیلئے مقرر کرنے کی ہمت نہیں کرپائے ۔مثال کے طور پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کا معاملہ ،فیض آباد دھرنانظر ثانی درخواستیں ،سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کو کالعدم قرار دینے پر دائر کی گئی ریویو پٹیشن،63Aپر صدارتی ریفرنس میں رائے دینے کے بجائے حکم صادر کرکے آئین کو ازسرنو لکھنے کے تاریخی فیصلے کے خلاف دائر کی گئی نظر ثانی درخواستیںاور بہت سے دیگر مقدمات ۔سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کا معاملہ ہو یا پھر مخصوص نشستوں کا کیس ،ہم خیال بنچ بنا کر مرضی کے فیصلے کروائے جاسکتے تھے،ماضی میں یہ سب کچھ ہوتا رہا ہے مگر قاضی فائز عیسیٰ نے دونوں بار سپریم کورٹ کے تمام دستیاب جج صاحبان پر مشتمل فل کورٹ بنچ تشکیل دیئے۔وہ چاہتے تو اپنے اختیارات پر سمجھوتہ نہ کرتے ہوئے کہہ سکتے تھے کہ چیف جسٹس ہی ماسٹر آف روسٹر ہوتا ہے اور پارلیمنٹ کو عدلیہ سے متعلق قانون سازی کرنے کا کوئی حق نہیں لیکن جس طرح صدر آصف زرداری نے اپنے گزشتہ دورِ حکومت میں اختیارات سرنڈر کرکے پارلیمنٹ کو دیئے تھے ،اسی طرح قاضی فائز عیسیٰ نے مقدمات کو سماعت کیلئے مقرر کرنے اور بنچ تشکیل دینے کا اختیار تین رُکنی کمیٹی کو دے دیا۔
دو مواقع پر مجھے لگا کہ قاضی فائز عیسیٰ نے ضعف کا مظاہرہ کیا ۔ایک تو مبارک ثانی کیس میں سرنڈر کیا گیا۔زمینی حقائق کے پیش نظر میں قاضی فائز عیسیٰ کو قصور وار تو نہیں سمجھتا لیکن اس سمجھوتے کیلئے کوئی باعزت طریقہ اختیار کرلیا جاتا تو زیادہ بہتر ہوتا۔مخصوص نشستوں کے مقدمہ میں اور پھر تحریک ا نصاف کوبلے کا نشان واپس لینے کے فیصلے پر نظر ثانی درخواستوں کی سماعت کے دوران بھی قاضی فائز عیسیٰ دفاعی پوزیشن پر نظر آئے ۔یہ تاویل دی گئی کہ الیکشن کمیشن نے فیصلے کی غلط تشریح کی ۔حالانکہ یہ وضاحت پیش کرنے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں تھی۔آخری بات یہ ہے کہ قاضی تو جارہا ہے مگر کیا وہ صحافی پچھتا رہا ہے ،اپنے کئےپر نادم ہے جس کا دعویٰ تھا کہ قاضی یہ سب کچھ ایکسٹینشن لینے کیلئے کررہا ہے؟