ہمسایہ ملک ایران پر 45سال سے پابندیاں ہیں، ان عالمی پابندیوں کے ہوتے ہوئے بھی ایران نے ترقی کا راستہ نہیں چھوڑا، تجارتی پابندیوں نے اسے اس قابل بنا دیا کہ وہ بہت سی چیزیں خود تیار کرتا ہے، اب ایران کا دوسرے ملکوں پر انحصار کم ہے، اس نے لیبیا سے دو میزائل حاصل کیے اور پھر ایرانی سائنسدانوں نے اسی طرز کے میزائل بنانا شروع کر دیئے، اب وہ ایٹمی طاقت بھی بن گیا ہے، سو اب دنیا میں دو مسلم ممالک ایٹمی طاقت بن گئے ہیں۔ ایران کے مختلف شہروں کا دورہ کیا جائے تو یہ احساس ہوتا ہے کہ ایران ہم سے کہیں آگے ہے۔ دوسرے ملک، دشمن کو سامنے رکھ کر پالیسیاں بناتے ہیں، اب جب ٹیکنالوجی کی دنیا میں جدت آتی جا رہی ہے، موبائل فون کے علاوہ کئی اور چیزوں میں CHIP استعمال ہونا شروع ہو گئی ہے، ہو سکتا ہے مستقبل میں ہر انسان کے ساتھ چِپ فٹ کر دی جائے اور اسی میں اسکا بائیو ڈیٹا، پاسپورٹ اور صحت کے متعلق معلومات سمیت دیگر چیزیں بھی ہوں۔ موبائل فونز کی زیادہ تر CHIP چائنا میں تیار ہوتی ہے، سو امریکیوں نے سوچا کہیں ایسا نہ ہو کہ CHIP پر صرف چائنا کی بادشاہت ہو اور ہم ہاتھ ملتے رہ جائیں، سو انہوں نے جنوبی کوریا سے رابطہ کیا، کوریا والوں سے ایک معاہدہ کیا کہ وہ CHIP بنانے کی ایک بڑی فیکٹری امریکا میں لگائیں، اس مقصد کے لئے امریکیوں نے 3 بلین ڈالر فوری طور پر ادا کر دیئے۔ اگر آپ ہیوسٹن سے ڈیلس کی طرف جائیں تو راستے میں ایک گاؤں آتا ہے، اس گاؤں کا نام ٹیلر ہے، ٹیلر نامی اسی گاؤں میں جنوبی کوریا کی ایک بڑی کمپنی CHIP بنانے کی ایک بہت بڑی فیکٹری لگا رہی ہے، اس سلسلے میں دن رات کام ہو رہا ہے، ہو سکتا ہے اگلے چند برسوں میں یہ فیکٹری مکمل ہو جائے اور CHIP تیار کرنا شروع کر دے۔ اب تک کوئی 7بلین ڈالر لگ چکے ہیں، امریکی ریاست ٹیکساس کی دی گئی سہولتوں کے تحت اس فیکٹری پر سرمایہ کاری کم از کم 45 بلین ڈالر ہونے کی توقع ہے۔
ریاست ٹیکساس نے سرمایہ کاری کی ایک نئی سہولت دی ہے، جسے CHIPS اور سائنس ایکٹ نے آگے بڑھایا، جس کے تحت نیا فیبریکیشن پلانٹ موبائل، 5G، ہائی پرفارمنس کمپیوٹنگ اور مصنوعی ذہانت کےمقاصد کیلئے جدید منطقی چپس تیار کرے گا۔ پہلے میں نے عرض کیا کہ ایران اور امریکا کیا کر رہے ہیں، اب آپ چین کی طرف دیکھیے، ون بیلٹ، ون روڈ کے تحت چین نے دنیا کو گھیر رکھا ہے، تیز رفتار معاشی ترقی میں چین سب سے آگے ہے، چین معاشی طور پر اتنا مضبوط ہے کہ امریکا، چین کا مقروض ہے۔ چین کی سرحد تیرہ ملکوں سے ملتی ہے، سوائے پاکستان کے باقی بارہ ملکوں کے ساتھ چین کا کسی نہ کسی موڑ پر الجھاؤ ہوا، اختلاف ہوا، ٹکراؤ ہوا۔ چین نے ہمارے ساتھ بہت دوستی نبھائی، اس نے سی پیک کے تحت کئی شعبوں میں ہماری سہولت کاری کی، گوادر کی بندرگاہ کے ثمرات بہت حد تک ملنا شروع ہو جانا تھے مگر ہمارے ہاں کبھی گلگت بلتستان میں، کبھی کراچی اور بلوچستان میں قابل ترین چینیوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ پاک چائنا فرینڈ شپ کے اہم کردار سینیٹر مشاہد حسین سید کہتے ہیں کہ’’کتنی شرم کی بات ہے کہ پاکستان میں خطرات بارے ٹریول ایڈوائزری واشنگٹن یا لندن سے نہیں، بلکہ ہمارے ہمسائے اور اسٹرٹیجک پارٹنر بیجنگ سے آ رہی ہے، نائجیریا اور کانگو جیسے کشمکش زدہ ممالک میں بھی ہم نے کبھی چینی انجینئروں اور تکنیکی ماہرین کے 19 قتل نہیں دیکھے، جو پاکستان میں ہوچکےاور ہماری حکومت اسلام آباد میں کے پی ہاؤس کو بند کرنے اور سیاسی مظاہرین کا پیچھا کرنے میں مصروف ہے، جبکہ دہشت گرد آزادانہ گھوم رہے ہیں‘‘۔ مشاہد حسین سید درست فرما رہے ہیں، ہم اپنی منزلوں کا تعین ہی نہیں کر پاتے، ہم صرف سیاسی مخالفین کے گھروں کو مسمار کرتے ہیں اور انہیں تختہ مشق بناتے ہیں۔ ہماری حالت یہ ہے کہ ہم نے جو چاول یورپ بھیجا اس میں زہریلے زرعی کیمیکل اسپرے کے اثرات ثابت ہو چکے ہیں کیونکہ ہمارے ایکسپورٹرز نے لیبارٹری سے R&D کروائے بغیر ہی اسے بھیج دیا تھا، سو یورپی اتھارٹیز پاکستانی چاول کو واپس بھجوانے کی تیاری کر رہی ہیں، اس تیاری سے پہلے انہوں نے متعدد مرتبہ پاکستانی اتھارٹیز کو آگاہ کیا لیکن یہاں بیٹھے ہوئے شیدوں،میدوں کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ ہم دوسرے ملکوں کی طرح سوچتے ہی نہیں، ہمیں آئی ایم ایف سے قرضہ ملتا ہے تو ہم وفاق میں 80کروڑ اور پنجاب میں 61 کروڑ کی گاڑیاں خرید لیتے ہیں، یہ سب تماشے اس ملک میں ہو رہے ہیں جہاں نصف سے زیادہ آبادی غریبوں پر مشتمل ہے۔ ہمیں دوسرے ملکوں کو دیکھنا چاہیے اور ان سے سبق سیکھنا چاہیے، ترقی کے راستے ان راہوں پر نہیں ہیں جن راہوں پر ہمیں چلایا جا رہا ہے۔ بقول اقبال
دیارِ عشق میں اپنا مقام پیدا کر
نیا زمانہ، نئے صبح و شام پیدا کر